"AHC" (space) message & send to 7575

حضور کریمﷺ کی نمازِ تہجد میں فلکیاتی سائنس کا سمندر

اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو کمرے سے باہر صحن میں تشریف لاتے، آسمان کی جانب نگاہ اٹھاتے اور (سورہ آل عمران کی آخری آیات) تلاوت فرماتے۔ اس کے بعد وضو کرتے اور تہجد کی نماز ادا فرماتے۔ (صحیح بخاری: 4569، صحیح مسلم:463)
قارئین کرام! حضور نبی کریمﷺ نے اس موقع پر دو آیات بھی تلاوت فرمائیں اور کبھی آخری گیارہ آیات تلاوت فرمائیں۔ آیئے! پہلے سورہ آلِ عمران کی ان دو آیات کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں ''بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں‘ رات دن کے ادل بدل میں اہلِ دانش کے لیے نشانیاں ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے اور کائنات کی پیدائش پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ (بعض حقائق پا لینے پر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! آپ نے یہ سارا کچھ کسی مقصد کے بغیر نہیں بنایا، ایسی سوچوں سے آپ پاک ہیں (فریاد یہ ہے) کہ ہمیں آگ کی سزا سے محفوظ فرما لینا‘‘۔ (آل عمران: 190 تا 191 )
مسلمان جب اپنے سیاسی عروج پر تھے تو انہوں نے قرطبہ اور بغداد میں رصد گاہیں (لیبارٹریاں اور آبزرویٹریاں) قائم کیں جہاں فلکیات اور طبیعیات کے سائنسی نظارے کیے جاتے اور تحقیق و ریسرچ کے کرشمے دنیا کے سامنے لائے جاتے۔ اس علمی دور کا خاتمہ ہوا تو قرطبہ اور بغداد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے دوسرے لوگوں خاص طور پر اہلِ یورپ نے انہی چراغوں کو جلانے کا آغاز کیا تو وہ سائنسی ترقی کی معراج کو پا گئے۔ وہ ترقیاں کہ آج ہم سب جن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ لوگو! آج ہم جن علمی حیرتوں کو دیکھ رہے ہیں‘ جن سے استفادہ کر رہے ہیں اور آگے مزید سے مزید کرشمے دیکھتے جا رہے ہیں‘ ان سب کا دروازہ اس وقت کھلا تھا جب ختم المرسلین حضور کریمﷺ نے مدینہ منورہ میں اپنے حجرۂ مبارک کا دروازہ کھولا تھا، صحن میں تشریف لائے تھے، آسمان تاروں سے بھرا پڑا تھا۔ حضور کریمﷺ نے اپنی امت کو سبق یاد کرایا کہ دنیا میں کامرانیوں کے دروازے علم و سائنس کے دریچے کھولنے سے ملیں گے۔ اس سے کائنات کے خالق پر ایمان اور زیادہ مضبوط ہو گا‘ یوں اگلے جہان میں جنت کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔
دنیا میں امریکہ نام کے دو براعظم ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور باقی معلوم بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔ شمالی امریکہ میں کینیڈا اور یو ایس اے (ریاست ہائے متحدہ امریکہ) ہیں جبکہ انتہائی جنوب میں چلی اور ارجنٹائن نام کے ممالک ہیں۔ چلی کے مغرب میں بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ ایک ایسا انتہائی ٹھنڈا ریگستان ہے جو لگ بھگ ہزار کلو میٹر لمبا ہے۔ آسمانی نظاروں کے لیے سائنسی طور پر یہ ایک آئیڈیل جگہ ہے لہٰذا آسمانی نظاروں کے لیے یہاں کے پہاڑی سلسلوں میں اور ریگستان کے بیچوں بیچ بعض مقامات پر دنیا بھر کے اہلِ دانش نے دور بینیں نصب کر رکھی ہیں جن کے ذریعے وہ ہمہ وقت آسمان کے نظارے کرتے رہتے ہیں اور آئے روز آسمانی سائنس کے علمی شہ پارے اہلِ علم کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔
چلی کے ریگستان کا ایک علاقہ ہے جسے اٹاکاما (Atacama) کہا جاتا ہے۔ یہاں پانچ ہزار تین سو میٹر کی بلندی پر ایک آبزرویٹری قائم کی گئی ہے جس کے ساتھ برطانیہ کی پانچ یونیورسٹیاں منسلک ہیں۔ اس آبزرویٹری کو Simons Observatory کہا جاتا ہے۔ برطانیہ کے معروف اخبار ''دی گارجین‘‘ نے تازہ سائنسی انکشافات کو 11 اکتوبر 2022ء کی اپنی اشاعت میں منظر عام پر رکھا ہے۔ دوسری جانب فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری‘ جسے سرن یاLHC(Large Hadron Collider) کہا جاتا ہے‘ کے انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ ڈاکٹر کولن ونسینٹ مشترکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کونسل کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں، وہ دنیا کے معروف سائنسی اداروں سے منسلک ہو کر جوائنٹ جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہیں اور اہلِ علم کو آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے! بگ بینگ ایک نظریہ ہے‘ ثابت شدہ سائنسی حقیقت نہیں مگر دلائل اور شواہد کی بنیاد پر سائنس دانوں نے اسے ثابت شدہ (Established) یعنی مستحکم سائنسی نظریہ یا تھیوری قرار دے رکھا ہے۔ یہ نظریہ یا تھیوری کہتی ہے کہ کائنات عدم (Nothingness) سے وجود میں آئی۔ جب یہ وجود میں آئی تو بگ بینگ یعنی ایک بڑا دھماکا ہوا۔ یہ دھماکا جتنے ٹائم میں ہوا‘ اس کا دورانیہ اس طرح ہے کہ ایک سیکنڈ کے کھربوں حصے کیے جائیں تو ان میں سے ایک حصہ الگ کر دیا جائے پھر اس الگ کیے گئے حصے کے کھربوں حصے کیے جائیں اور پھر ان حصوں سے ایک حصہ الگ کر دیا جائے۔ پھر تیسری بار‘ اس حصے کو بھی کھربوں حصوں میں تقسیم کیا جائے اور جو ایک حصہ الگ کیا جائے تو اتنے وقت میں یہ بگ بینگ ہوا تھا۔ ڈاکٹر کولن ونسینٹ نے اس کو Cosmic Order یعنی کائناتی حکم کہا ہے۔
قارئین کرام! غور کیجئے عدم سے کسی شے کا وجود میں آنا ایک انوکھی چیز یا واقعہ ہے۔ دھماکے کے ساتھ ہی وقت کی پیدائش اور اس کے ایک سکینڈ کا جو کھربواں حصہ ہے‘ وہ دوسری انوکھی‘ نادر اور عجیب شے یا واقعہ ہے۔ ان نادر سائنسی حقائق کے ترجمان پروفیسر مارک ڈیولن نے بتایا کہ ہم تخلیق کے موضوع پر پچھلے دو سو سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے اس عالمی منصوبے میں 180 ملک شامل ہیں جبکہ 15 لاکھ افراد ہیں‘ جو یہ کام کر رہے ہیں۔ جی ہاں! اس قدر لمبے ، بڑے اور ہمہ گیر منصوبے پر اربوں (ڈالر‘ پائونڈ اور یورو وغیرہ) خرچ کرنے کے بعد آج جن انوکھے حقائق تک سائنس کی دنیا پہنچی ہے وہ اس طرح ہیں ؛ 1) کائناتی آرڈر۔ 2) عدم سے وجود۔ 3) ٹائم کی پیدائش۔ 4) ٹائم یا وقت کے انتہائی چھوٹے سے حصے میں دھماکا۔ 5) کائنات کا ایک منصوبہ جس میں خاتمے تک کی مکمل تفصیلات ہیں۔ اللہ‘ اللہ! یہ سارے کام بڑے عجیب ، نادر اور انوکھے ہیں۔
جواب تو واضح ہے کہ ایسے کام کسی خالق نے ہی کیے ہیں۔ اس کے بغیر خود بخود اس کائنات کا وجود میں آنا محال ہے۔ خود جناب سٹیفن ہاکنگ یہ کہہ گئے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آ کر قائم بھی رہے‘ یہ اسی طرح ہے جس طرح ایک بال پوائنٹ اپنے لکھنے والے انتہائی چھوٹے گھمائو دار پوائنٹ پر ایک ارب سال تک کھڑی رہے ۔ یارو! ایسا تو ایک سیکنڈ تو کیا اس کے ایک چھوٹے سے حصے میں بھی نہیں ہو سکتا کہ بال پوائنٹ کھڑی رہے تو پھر اتنی بڑی کائنات کے لیے وجود میں آنا اور آ کر قائم رہنا اور اربوں‘ کھربوں سال تک چلتے رہنا‘ یہ کسی طرح خالق کے بغیر کس طرح ممکن ہے؟ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا فلکیاتی سائنس دان یہ بات کہہ گیا مگر اللہ‘ جو ایک خالق ہے‘ اس پر ایمان لانے کی توفیق اسے نہ مل سکی۔ یہ تو قسمت اور مقدر کی بات ہے۔
صدقے قربان جائوں حضور کریمﷺ کی شب بیداری پر،آپﷺ کی نمازِ تہجد پر کہ اس میں حضورﷺ سارا کچھ بتا گئے۔ اب انوکھے پن اور منفرد تخلیق‘ جو عدم سے وجود میں آئی‘ پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو‘ جو حضور کریمﷺ کے پاک اور مبارک دل پر نازل ہوا۔ فرمایا: وہ کائنات کا منفرد موجد ہے اور جب وہ کسی منصوبے کو وجود بخشنے کا فیصلہ کرتا ہے تو بس منصوبے کے بارے میں ''کن‘‘ کہتا ہے اور وہ وجود میں آ جاتا ہے۔ (البقرہ: 117) 1: اس آیت مبارکہ میں بتایا گیا کہ کائنات کی انوکھی اور منفرد تخلیق کرنے والا موجد اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ 2: اس میں آرڈر ہے اور آرڈر دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ 3: اس میں ایک کامل منصوبہ ہے اور منصوبہ ساز اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ 4: خالق کا صفاتی نام اس آیت مبارکہ میں ''بدیع‘‘ ہے یعنی یہ سارے ناقابلِ یقین کام اللہ تعالیٰ نے کیے ہیں۔ 5: ''اِذا‘‘ (جب‘ جس وقت) کا لفظ اس آیت میں ٹائم کے وجود کی خبر دے رہا ہے۔ 6: ٹائم کو وجود میں لانے والا اور انتہائی چھوٹے حصے میں کائنات کو وجود بخشنے والا ایک ہی خالق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔
قارئین کرام! یہ ہے فلکیاتی سائنس کا وہ سمندر جس کا دروازہ حضورﷺ کی نمازِ تہجد سے کھلا ہے۔ یا اللہ! اہلِ علم کو اس نماز کی توفیق عطا فرما دے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں