امام مسلم بن حجاج نیشا پوریؒ ''صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ‘‘ میں ایک حدیث شریف لائے ہیں۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبّان میں بھی حضرت جابرؓ سے مروی یہ حدیث ہمارے سامنے ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ''اونٹوں کا جو مالک اپنے اونٹوں کا حق ادا نہیں کرتا‘ ایسے اونٹ قیامت کے دن اپنے بھاری اجسام کے ساتھ آئیں گے۔ وہ نرم زمین پر اپنے مالک کو اپنے قدموں تلے روندیں گے۔ اسی طرح گائیوں کا وہ مالک جو ان کا حق گائیوں کو نہیں دیتا‘ وہ گائیاں قیامت کے دن خوب موٹی تازی ہو کر آئیں گی اور اپنے سینگوں کی ٹکروں سے اپنے مالک کی ٹھکائی کریں گی۔ اسے پاؤں تلے مسلیں گی۔ اسی طرح بکریوں کا مالک جو ان کی حق تلفی کرتا ہے وہ بکریاں بھی نرم زمین پر اپنے مالک کو ماریں گی اور روندیں گی‘‘۔
قارئین کرام! غور فرمائیں‘ وہ لوگ جو انسانوں کے حقوق پامال کرتے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مہینہ ہے مگر ہمارے وطن عزیز میں ذخیرہ اندوزوں نے گزشتہ چند سالوں سے روایت بنا لی ہے کہ اِدھر رمضان کا آغاز ہوا اور اُدھر مہنگائی کا طوفان امڈ آیا۔ یہ جو 22کروڑ انسانوں کی حق تلفی ہے‘ ا س حق تلفی کی قیمت قیامت کے دن چکانا پڑے گی۔ صدقے قربان جائیں‘ ہمارے عظیم رسولِ گرامی حضور کریمﷺ جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ فرما رہے ہیں کہ اگر ان کی خوراک میں کمی رہ گئی اور وہ خوراک کی حق تلفی کی بنیاد پر کمزور رہ گئے تو قیامت کے دن یہ کمزور موٹے ہو جائیں گے اور اپنے قدموں تلے اپنے مالکوں کو کچلیں گے۔ نرم زمین پر اس لیے کچلے جائیں گے کہ ان ظالموں کو کچلتے وقت نرم زمین کا گردو غبار ظالم مالکوں کا حلیہ بگاڑ ڈالے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حیوانوں پر ظلم کا انجام اس قدر بھیانک ہوگا تو انسانوں پر ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہو گا۔ ان ذخیرہ اندوزوں کے ظلم کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے۔ سحری اور افطاری میں خشک روٹی کو بھی ترس گئے۔
مسند احمد میں ہمارے حضور کریمﷺ کی حدیث شریف ہے‘ حضرت سوادہ بن ربیعؓ بتاتے ہیں کہ ایک بار میں (اپنے گاؤں سے) چل کر آیا اور حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر تعاون کی درخواست کی۔ آپﷺ نے مجھے ایک اونٹ عنایت فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ جب تم واپس اپنے گھر (گاؤں میں) جاؤ تو ان سے کہو کہ اپنے جانوروں کی غذا اچھی رکھیں‘ اپنے ناخن کاٹ کر رکھیں‘ اپنے مویشیوں کا دودھ دوہتے وقت ان کے تھنوں کو ناخنوں سے خون آلود نہ کریں‘‘۔ قارئین کرام! صاف محسوس ہو رہا ہے کہ سرکارِ مدینہ حضور کریمﷺ کی خدمت میں کوئی شکایت پہنچی تھی کہ دیہاتی لوگ جب اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کے ساتھ گائے، بکری اور اونٹنی کے تھنوں سے دودھ نکالتے ہیں تو ان کے تھنوں کو خون آلود کر دیتے ہیں۔ اس سے جانوروں کو بھی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور وہ خون جو ان کے ناخنوں کی میل کچیل کو ساتھ لیے ہوتا ہے‘ دودھ میں شامل ہو جاتا ہے، ایسا دودھ جب ریاستِ مدینہ کے باسی نوش کریں گے‘ معصوم بچے پئیں تو ان کی صحت کا کیا بنے گا؟ اسی لیے حضور کریمﷺ نے نصیحت فرمائی کہ اپنے ناخنوں کو تراشو اور جانوروں کو زخم نہ پہنچائو۔ ہمارے حضورﷺ سب کا تحفظ فرما رہے ہیں۔ انسانوں کو انسانی تہذیب کی تعلیم دے رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ رمضان کے پُر رحمت مہینے میں کیا ہمیں اپنی سحری کے وقت خالص دہی مل رہا ہے؟ افطاری کے وقت خالص دودھ مل رہا ہے یا اس میں نہروں کا آلودہ پانی ڈالا جا رہا ہے؟کہیں دودھ نامی محلول میں سرف ملایا جا رہا ہے‘ کہیں جانوروں کو مضرِ صحت ٹیکا لگا کر دودھ حاصل کیا جا رہا ہے۔ ایسا دودھ اور دہی جب میرے وطن عزیز کے معصوم بچے پئیں گے تو نہ جانے کون کون سے امراض کا شکار ہوں گے۔ یعنی انسانوں پر بھی ظلم اور جانوروں پر بھی ظلم! ایسے ظالم لوگوں کی نماز، تراویح، سحری، افطاری، فطرانہ، صدقہ اور پھر عید کی نماز کس کام کی ہے؟ یہ سب کچھ انہیں آنکھیں بند ہوتے ہی معلوم ہو جائے گا کہ آخرت میں جب روح کی آنکھ کھلے گی تو سامنے وہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ موجود ہوں گے کہ جو ان کی ملاوٹ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے فوت ہوئے۔ یہ ظالم لوگ پیسے خالص دودھ کے لیتے رہے اور جواب میں بیماریاں بانٹتے رہے۔ وہاں ان کا کیا بنے گا؟ ایسے لوگوں کو اگلے جہاں کا حشر یاد رکھ لینا چاہئے۔
مالی ہوس کے مارے ہوئے ایسے حیوان نما انسانوں کے سامنے ہم اپنے حضور کریمﷺ کی مبارک سیرت کے گلدانوں میں سے ایک گلدان رکھنے جا رہے ہیں کہ شاید ہوس کا مارا کوئی شخص باز آ جائے۔ حیوانیت سے بھی زیادہ بدترین حالت میں گرا ہوا کوئی فرد اپنی ہوس سے رک جائے۔ اس کے اندر انسانی رحمت کی روشنی روشن ہو جائے تو جناب والا! آئیے حضور پاکﷺ کی پاکیزہ ترین سیرت کے ایک گلدان سے اپنی آنکھوں کو تازگی دیں۔ اس کی خوشبو سے اپنے دماغ کو معطر کریں۔ شاید کہ اس خوشبو سے دل کی حالت بدل جائے اور وہ توکل میں تبدیل ہو جائے۔
''مسند احمد میں حدیث شریف ہے‘ حضرت انس بن مالکؓ بتاتے ہیں ''ایک بار حضور پاکﷺ کی خدمت میں تین پرندوں کا تحفہ آیا۔ حضورﷺ نے ان میں سے ایک پرندہ گھر کی خادمہ کو دے دیا۔ اگلے دن اس نے حضورﷺ کی خدمت میں (کھانے کے لیے) وہی پرندہ پیش کر دیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: میں نے منع تو کیا تھا کہ اگلے دن کے لیے سنبھال کر کچھ مت رکھو‘ ہر روز کا رزق اللہ عنایت فرماتا ہے‘‘۔ قارئین! پرندے بھنے ہوئے تھے۔ خادمہ نے خود نہیں کھایا بلکہ حضورﷺ کے لیے رکھ چھوڑا۔ ریاستِ مدینہ کے تاجدار ہمارے حضورﷺ خادمہ سے اس بات پر ناراض ہو رہے ہیں کہ اس نے خود کیوں نہیں کھایا‘ میرے لیے بچا کر کیوں رکھا؟ یاد رہے! یہ اس وقت کی بات ہے جب مدینہ منورہ میں رزق کی تنگی تھی۔ آج ہمارا ملک معاش کی مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے مگر ہر کسی کو ہوس اس بات کی ہے کہ بینک بیلنس بڑھایا جائے۔ خوشحالی کو اگلی کئی دہائیوں‘ صدیوں تک کے لیے‘ اپنی اولادوں بلکہ نسلوں تک کے لیے یقینی بنایا جائے۔ لگژری لائف سٹائل کو ایلیٹ کلاس میں بدلا جائے۔ لوگو! سوچو‘ بھلا ایسی سوچوں سے انسانی اور اسلامی تہذیب رواج پائے گی یا حیوانیت سے بدتر رویوں کی حامل تہذیب پرورش پائے گی؟ ہماری حکمرانی ایسے لوگوں کو لگام نہ ڈالے گی تو ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ کیسے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر سایہ فگن ہوگی؟ غیر مسلموں کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اہلِ صیام میں مسلمانوں کے لیے قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے مگر میرے دیس میں ہوشربا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کس قدر بے شرمی کی بات ہے۔
لوگو! پچھلے دنوں ایک شخص مسلمان ہوا‘ اس کا نام ''Arnoud van Doorn‘‘ ہے۔ یہ ہالینڈ کا ایک سیاستدان ہے۔ اس ڈچ سیاستدان نے ہمارے حضور پاکﷺ کے خلاف بہت کچھ بولا مگر جب اس نے حضورﷺ کی پاک اور مبارک سیرت کے گلدان ملاحظہ کیے تو دیکھا کہ سرورِ کائنات تو مہربان ہیں‘ رفیق اور رقیق بھی ہیں‘ رحیم بھی ہیں اور ریشم سے کہیں بڑھ کر نرم، ملائم اور قرآنِ مجید کی زبان میں ''لِین‘‘ بھی ہیں‘ تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ وہ سیدھا مدینہ منورہ میں پہنچا۔ حضورﷺ کی مبارک مسجد میں داخل ہوا۔ وہ پاکیزہ مقام جس کو حضور عالی شانﷺ نے ''ریاض الجنۃ‘‘ کا نام دیا۔ وہاں اس نے حرمین شریفین کے امور کے رئیس فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس کے ہاتھوں سے قرآنِ مجید اور سیرت پاک کی کتابوں کا تحفہ حاصل کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ شخص ان شاء اللہ ''ریاض الجنۃ‘‘ سے اپنے کردار کو سیرت کی روشنی میں گزارنے کے بعد جب اگلے جہان جائے گا تو ان شاء اللہ ''جنت الفردوس‘‘ میں جائے گا، ہم نسلی مسلمان کہاں ہوں گے؟