"AHC" (space) message & send to 7575

حبل سپیس سے جیمز ویب تک‘ اللہ ہی اللہ

آج سے کوئی اڑھائی سال قبل‘ 2021ء میں برطانیہ کے نشریاتی ادارے ''بی بی سی‘‘ نے ایک پروگرام کا آغاز کیا کہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کئی اقساط (Episodes) پر مبنی یہ ایک سائنسی سیریز تھی۔ یکم دسمبر 2021ء کو معروف برطانوی صحافی، ماہر طبیعات اور سائنس شوز کے میزبان مسٹر بریان کوکس (Brian Edward Cox) نے ''یونیورس‘‘ کے عنوان سے ایک قسط نشر کی۔ ''حبل سپیس دور بین (ٹیلی سکوپ)‘ اور دیگر سائنسی ذرائع سے حاصل جس قیمتی معلومات کو نشر کیا جا رہا تھا‘ اس کا ایک اقتباس قابلِ توجہ ہے، یوں سمجھیے حضرت علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ''علم کا ایک موتی‘‘ تھا، ملاحظہ ہو مسٹر بریان کے انداز میں سائنسی تبصرہ!
The big bang may not be the beginning.There was time before the dawn- A place beyond any things we can comprehend. Brian transport us back to the fraction of a second before the big bang, when the seeds of our universe were planted.
''ممکن ہے کہ بگ بینگ سے کائنات (کی بناوٹ) کا آغاز نہ ہوا ہو، کائنات کی صبح کے آغاز سے قبل بھی وقت موجود تھا‘ ایک ایسی جگہ تھی جو کسی بھی ایسی شئے سے ماورا تھی،جسے ہم سمجھ سکیں۔ بریان ہم لوگوں کو ایک لمحے کے لیے بگ بینگ یعنی کائنات کے آغاز سے قبل کے اس دور میں لے گیا جب ہماری کائنات کے بیج بوئے جا رہے تھے‘‘۔
قارئین کرام! میں آپ کو قرآنِ مجید کی طرف لے کر جانے والا ہوں۔ مسٹر بریان حبل سپیس کے ذریعے اپنے ناظرین کو وقت میں پیچھے لے کر گیا‘ امیر حمزہ آپ کو ساڑھے چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کی جانب لے کر جانے والا ہے جو رب کریم نے اپنے آخری عظیم رسول‘ نبی کریمﷺ پر نازل فرمائی۔ ایک تو آپ نے بیج (Seed) کا لفظ سامنے رکھنا ہے اور دوسرا لفظ جو مندرجہ بالا اقتباس میں ہے Dawn‘ یعنی ''صبح‘‘ اسے بھی سامنے رکھنا ہے۔ یہ لفظ بی بی سی لندن کی اس دستاویزی‘ سائنسی فلم میں دوسری بار اس طرح استعمال کیا گیا، ملاحظہ ہو:
Cosmic dark to cosim dawn
''کائناتی اندھیرے سے کائناتی صبح تک‘‘۔
اب قارئین کرام! آپ کو ایک تیسرا لفظ اندھیرا بھی اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا۔ ان تینوں الفاظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات ایک بیج سے وجود میں آئی۔ اس بیج کے اندر اندھیرا تھا اور جب بیج کے پھٹنے سے کائنات وجود میں آئی تو تب کائنات کی صبح نمودار ہوئی۔
قرآنِ مجید کے ساتویں پارے میں ایک سورت ہے، اس کا نام ''الانعام‘‘ہے۔ اس کا معنی ''چوپائے‘‘ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو الہامی حقائق بتائے ہیں‘ ان کو ہم یہاں پیش کرنے جا رہے ہیں۔ پیش کرنے سے قبل ہم خبردار کر دیں کہ جو لوگ ان کو ملاحظہ کر کے اپنے آپ کو سیدھا نہ کریں گے‘ ان سے متعلق اگلی سورت یعنی ''اعراف‘‘ میں مولا کریم خبردار فرماتے ہیں ''ہم نے بہت سارے ایسے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا فرمایا ہے کہ جن کے دل تو ہیں مگر ان کے ذریعے غور و فکر نہیں کرتے۔ کان ہیں مگر سنتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ ایسے لوگ چوپائیوں (ڈھور ڈنگروں) جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں، اس لیے کہ یہ (اگلی زندگی کے بارے میں) غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف :179)
قارئین کرام! آیئے اب سورت ''الانعام‘‘ کی طرف چلتے ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال پیچھے کے ٹائم میں چلتے ہیں جب یہ سورت حضور کریمﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ چوپائیوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے انسان کی موت کا جب ٹائم آئے گا تو قرآن مجید آگاہ فرماتا ہے۔ ''کاش! کہیں تم دیکھ لو کہ جب ظالم لوگ موت کی بیہوشیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر کہہ رہے ہوتے ہیں: اپنی جانوں کو نکالو، آج تم لوگوں کو ذلت کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم اللہ کے خلاف ناحق (الحادی)بک بک کیا کرتے تھے۔ اور اس کی آیات کو تکبر کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتے تھے۔ (قیامت کے دن ان کو اللہ تعالیٰ یوں مخاطب فرمائیں گے) جس طرح ہم نے تم لوگوں کو پہلی بار اکیلے‘ اکیلے پیدا کیا تھا آج اسی طرح ہمارے پاس اکیلے ہی آ گئے اور جو نعمتیں ہم نے (جوابدہی کی شرط کے ساتھ) دی تھیں، انہیں اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ آج ہم تمہارے سفارشیوں کی جانب بھی نہیں دیکھتے جن سے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہو گے، اور جو دعوے تم کرتے تھے، سب جاتے رہے۔ (الانعام: 93 تا 94)اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ (آیت :95) اس سے آگے فرمایا: صبح کو بھی پھاڑنے والا وہی ہے‘‘۔ (آیت: 96)
جی ہاں! دانے اور گٹھلی کی لاتعداد اقسام ہیں۔ ہر دانے کا پودا بنتا ہے، ہر فصل کی نسل آگے بڑھتی ہے، صبحیں بھی لاتعداد ہیں، ہر رات یعنی اندھیرے کے بعد صبح ہے، ہر دانہ اندھیرے میں ہے۔ اس کی کونپل دانے اورگٹھلی کے اندھیرے سے نمودار ہوتی ہے، ہر جاندار ماں کے شکم سے پیدا ہوتاہے، وہاں اندھیرے میں ہی تخلیق ہوتا اور پھر وہاں سے ہی دنیا کی روشنی میں آتا ہے (دیکھیے ،الزمر، آیت 6) انڈے میں بھی اندھیرا ہی ہوتاہے، ہر پرندہ انڈے کے اندھیرے سے روشنی یعنی صبح میں آنے کے لیے اپنی چونچ سے انڈے کو اندر ٹھوکر لگاتا ہے۔
آج سائنس یہ کہتی ہے کہ کائنات کا بیج بھی اندھیرے سے روشنی میں آیا ہے، سبحان اللہ! مولا کریم سورۃ الانعام کا آغاز فرماتے ہیں تو کائنات کے آغاز کی بات یوں کرتے ہیں ''سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے کائنات کو پیدا کیا، اندھیروں اور روشنی کو پیدا کیا‘‘۔ (الانعام: 1) یعنی کائنات بنی تو پہلے اندھیرے تھے، اس کی پرورش اندھیروں میں ہوئی اور پھر یہ اندھیروں سے ہی روشنی میں آئی۔ اگر تورات کا مطالعہ کریں تو اس کا آغاز بھی ''پیدائش‘‘ کے باب سے ہوتا ہے۔ اس میں بھی کائنات کا آغاز اس طرح بتایا گیا ہے: (1)کائنات کی پیدائش (2) اندھیرا (3) روشنی (4) دن۔ یعنی جب کائنات اندھیرے سے روشنی میں آئی تو یہ دن تھا۔ یہ صبح تھی! جی ہاں! جس طرح کائنات وجود میں آئی‘ کائنات کے اندر بھی وہی نظام کا رفرما ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کائنات کا خالق ہے‘ وہی کائنات میں موجود ہر شئے کا خالق ہے۔
سورۃالزمر کا آغاز یوں ہوتا ہے۔سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کائنات کا ''فاطر‘‘ ہے۔ فاطر کا لغوی معنی پھاڑنے والا ہے۔ اس میں فطرت اور طبیعت کا معنی ہے، یعنی مولا کریم نے بناوٹ کے اندر اس کی فطرت کو بھی بنا دیا ہے۔ وہ خالق بھی ہے، اس کا معنی بھی پھاڑنے والا ہے مگر اس میں ربوبیت اور پرورش کا معنی پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ پرورش کرتا ہے تو ہر مخلوق کی فطرت کے مطابق پرورش فرماتا ہے۔ اسی لیے سورۃ الفلق کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ''کہہ دو میں فلق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں‘‘ ۔فلق کا مطلب دیکھیں تو اس کے معنی ہیں: پھاڑنا، شگاف کرنا، اندھیرے کو چاک کرنا، دو ٹکڑے کرنا، نمودار ہونا، سپیدۂ سحر، صبح کی روشنی۔ جی ہاں!
جن دنوں بی بی سی لندن سے کائنات کے بارے میں اپنی سائنسی ریسرچ سیریز پیش کر رہا تھا‘ انہی دنوں جیمز ویب دوربین سورج کے مدار میں چھوڑی گئی تھی۔ دو سال بعد اس کی جو رپورٹ آئی ہے، اس نے سائنس کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے چند چوٹی کے سائنسدانوں میں سے ایک ممتاز ماہر طبیعات، نوبیل انعام یافتہ راجر پین روز (Roger Penrose) نے اپریل 2023ء میں ایک سائنسی چینل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:
Our universe is one of many universes conected in series. There is a cartain sense in witch I would say the universe has a purpose, It is not by chance.
''ہماری کائنات بہت ساری کائناتوں میں سے ایک ہے‘ جو ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ یہاں ایک یقینی بات ابھرتی ہے جس کی بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ کائنات کے وجود کا ایک مقصد ہے‘ یہ وجود اتفاقی نہیں ہے‘‘۔
قارئین کرام! نوبیل انعام یافتہ سائنس دان اور اس کے ساتھی آخر کار وہیں پہنچے جہاں حضرت محمد کریمﷺ نے انسانیت کو چودہ صدیاں پہلے پہنچا دیا تھا۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ غافل انسانوں کو مخاطب کر کے فرمائے گا: (وہ) کہے گا: (دنیا میں) تم (بہت ہی ) کم رہے، کاش تم جانتے ہوتے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد ہی پیدا کر دیا تھا اور یہ بھی کہ تمہیں واپس ہماری طرف نہیں لایا جائے گا؟‘‘ (المومنون:114 تا 115)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں