حکمرانِ مدینہ، سالارِ صحابہ‘ اللہ کے آخری رسولﷺ کی قیادت میں ایک معرکہ ہوا۔ بدر کے میدان میں ہوا۔ اس اوّلین معرکے میں مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے 72مشرک مارے گئے۔ لگ بھگ اتنے ہی قیدی بنے۔ چند ہی ماہ بعد مکہ والے بدلہ لینے دوبارہ مدینہ منورہ آ پہنچے۔ دوبارہ معرکہ ہوا۔ بدر کی گنتی کے قریب مسلمان شہید ہو گئے۔ حضور کریمﷺ زخمی ہو گئے۔ مسلمان انتہائی رنجیدہ تھے کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو گیا؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ پر الہام کے ذریعہ صحابہ کرامؓ سے مکالمہ کیا۔ قارئین کرام! اللہ رحیم اور اس کے پیارے رسولﷺ کس طرح اہلِ مدینہ کی تربیت فرما رہے ہیں‘ ملاحظہ فرمائیے! ارشاد فرمایا ''اے مسلمانو! وہ وقت یاد کرو جب تم میں سے دو جماعتوں نے حوصلہ چھوڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ اللہ ان دونوں کا دوست تھا (وہ ہمت نہ بندھاتا تو یہ ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاتے) مومن لوگوں کو چاہیے کہ (مشکل وقتوں) میں اللہ پر توکل (بھروسہ) رکھا کریں‘‘ (آلِ عمران:122)۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''مسلمانو! وہ وقت بھول گئے جب اللہ نے بدر کے میدان میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم لوگ بہت ہی کمزور تھے۔ اللہ سے ڈر کر رہو (مشکل وقت اس لیے آتا ہے) تاکہ تم شکر گزار بن کر رہو (اور اپنی غلطیوں کا جائزہ لیتے رہو)‘‘ (آل عمران:123)۔
ایک اور مقام پر فرمایا: ''اے ایمان والو! دوگنا چوگنا کر کے سود خوری نہ کرو۔ اللہ سے ڈر جاؤ۔ (احد میں مشکل وقت اس لیے آیا ہے) تاکہ تم (اپنا جائزہ لے کر) کامیاب ہو جاؤ‘‘ (آلِ عمران: 130)۔ ایک جگہ فرمایا: ''بے حوصلہ نہ ہو جاؤ۔ غم میں غرق نہ ہو جاؤ۔ تم سربلند ہو سکتے ہو اگر (امن و سلامتی والے) مومن بن جاؤ‘‘ (آل عمران:139)۔ مزید فرمایا: ''اگر تم مسلمانوں کو زخم لگے ہیں تو (مشرک) قوم کو بھی ایسے ہی زخم (تمہارے ہاتھوں سے بدر میں) لگ چکے ہیں۔ یہ دن تو ہمارے ہی ہیں‘ ہم ان دِنوں کو انسانوں میں ادل بدل کرتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران:140)۔ ایک جگہ فرمایا: ''اللہ نے تم (مسلمانوں) سے جو (فتح) کا وعدہ کیا تھا۔ اس کو (میدانِ اُحد) میں سچا کر دکھایا کہ جب تم لوگ اللہ کی مدد سے مدمقابل دشمنوں کو شکست سے دوچار کر رہے تھے۔ پھر تمہی نے ہمت ہار دی اور (میرے حبیبؐ) کے حکم کو متنازع بنا دیا (جب پہاڑی درّہ چھوڑ دیا) تم لوگوں نے اس کے بعد نافرمانی کی جب اللہ نے تمہیں وہ چیز (فتح کی نعمت) دکھا ڈالی۔ تم میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو دنیا کے طالب تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو آخرت کے طلبگار تھے۔ بس (اسی دنیا طلبی کی وجہ سے) اللہ نے تم لوگوں کو مشرکوں سے ہٹاکر (دنیا کے مال سمیٹنے پر لگا دیا‘ اور وہ بے خبری میں تم پر حملہ آور ہو گئے) مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آزمائش میں ڈال دے۔ بہرحال! اللہ تعالیٰ نے (احساس ہونے پر) تم لوگوں کو معاف کر دیا ہے، (بے شک) اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے‘‘ (آل عمران:152)۔اسی طرح فرمایا: ''تم وہی لوگ ہو جو شہادت کی موت کی خواہش کیا کرتے تھے مگر یہ خواہش دشمن سے ٹکرانے سے قبل تھی۔ اب یہ ٹکرانا تم دیکھ چکے۔ ہاں ہاں! تم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے‘‘ (آل عمران:143)۔
ایک جگہ فرمایا: ''ذرا وہ وقت یاد کرو جب تم لوگ اوپر کی جانب بھاگے جا رہے تھے۔ پیچھے مُڑ کر کسی کودیکھ بھی نہیں رہے تھے (کہ دشمن کس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا تھا۔ (میرے نبی کے چچا حمزہ اور دیگر افراد کے ساتھ جو ہوا وہ ہوا)حالانکہ اللہ کے رسول تمہیں پیچھے کھڑے بلا رہے تھے...‘‘(آل عمران: 153)۔
واضح رہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے سود کو ناپسندیدہ قرار دیا تھا‘ ابھی اس کو مکمل طور پر حرام قرار نہیں دیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کا عتاب اس بات پر تھا کہ اُس کی ناپسندیدگی ہی تمہارے لیے کافی تھی کہ اس سے بچتے۔ یہ اسی مالی حرص کا نتیجہ ہے کہ ایسے چند لوگوں کی وجہ سے سب کو ہزیمت دیکھنا پڑی۔ بہرحال! جو شہید ہوئے وہ اللہ کی اعلیٰ جنتوں میں گئے۔ جو بچ گئے وہ تائب ہو گئے۔ ان مومنوں کے قائد، حکمرانِ مدینہ، رسول گرامی اور سالارِ امتﷺ وہ عظیم ہستی تھے کہ انہوں نے اتنے بڑے نقصان کے باوجود سب کو اپنے سینے سے لگایا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب حضور کریمﷺ کی پُر رحمت محبوب اداؤں کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔ فرمایا ''یہ اللہ کی جانب سے (حضورﷺ کے لیے) رحمت کا سمندر ہے جو اس قدر موجیں مار رہا ہے کہ (میرے حبیبؐ) ان لوگوں کے لیے انتہائی نرم (رحم دل اور ملائمت سے بھرپور) ہیں۔ اگر آپ (غلطی کرنے والوں کے لیے) سخت مزاج اور سنگ دل ہوتے تو پھر یہ لوگ (اے نبیؐ جو)آپ کے جو اردگرد ہیں‘ بھاگ اٹھتے۔ لہٰذا میرے (پیارے) رسول! انہیں معاف کر دیجئے۔ ان کے لیے مغفرت طلب کیجئے اور (حکومتی) معاملات میں ان سے مشاورت بھی کرتے رہیں...‘‘ (آل عمران:159)۔
قارئین کرام! سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضور کریمﷺ اپنے خطاکار اصحاب کو خود بھی معاف کر رہے ہیں۔ پچھلی راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کو بھی منا رہے ہیں کہ وہ ان کو معاف کر دے۔ پھر حضور کریمﷺ ان صحابہ کرام کو اپنی مجلسِ شوریٰ کا رکن بھی مسلسل بنائے ہوئے ہیں۔ ذرا آج کی سیاسی جماعتوں کے قائدین غور فرمائیں۔ مذہبی و دینی راہ نما بھی غور فرمائیں کہ ان کے مزاج اس قدر نازک ہیں کہ جب چاہا کسی کو مجلس میں بلا لیا۔ ذاتی رنجش یا حق بیانی پر جب چاہا بلانے سے منع کر دیا۔ جب چاہا جماعت سے نکال پھینکا۔ جس سے خوش ہوئے نااہل کو بھی مراعات سے نواز دیا۔ جس سے ناراض ہوئے اہل ہوتے ہوئے بھی محروم کر دیا۔ نام جمہوریت کا لیتے ہیں مگر انتہائی بے حوصلہ ہیں یہ قائدین۔ ان کی جماعتوں میں کوئی الیکشن نہیں۔ ٹکٹوں کے نام پر یہ لوگ پیسے کھاتے ہیں۔ مجھ جیسا مسکین تو ان لیڈروں کو مشورے ہی دے سکتا ہے۔ قرآن کے احکام اور اپنے حضور کریمﷺ کے مبارک رویے اور ان کی سیرت کی مثالیں بتا کر خیر خواہی ہی کر سکتا ہے کہ حوصلے سے کام لو۔ صبر کا دامن مت چھوڑو۔ دشمن غیر مسلم بھی ہو تو اس کا نام بھی عزت و آداب سے لو۔ حضور کریمﷺ کی یہی کریمانہ تعلیمات ہیں۔
عمران خان صاحب جب وزیراعظم تھے‘ قمر جاوید باجوہ صاحب آرمی چیف تھے‘ ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس تھے۔ اس وقت ان تینوں کو ختم کرنے کا ایک فتویٰ نما اعلان جاری ہوا تھا۔ میں نے روزنامہ ''دنیا‘‘ کے انہی صفحات پر ان کا زور دار دفاع کیا تھا، اس دفاع پر اس وقت کے آرمی چیف باجوہ صاحب نے میرا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ جناب عمران خان نے بھی مجھے پچھلے دنوں علماء کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی مگر میں کسی وجہ سے جا نہ سکا۔ بہرحال! میں نے جو کیا پاکستان کے اداروں کے وقار کی خاطر فرض ادا کیا کہ تب یہ افراد میرے ملک کے اداروں کا تعارف تھے۔ اسی طرح لاہور کے ایک مدرسے میں میاں نواز شریف صاحب کے خلاف ناپسندیدہ حرکت ہوئی تب بھی میں نے روزنامہ ''دنیا‘‘ کے انہی صفحات پر اپنے کالم میں میاں صاحب کی عزت کا دفاع کیا۔ آج میرا دل پھر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میرے وطن عزیز کی چھائونیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ یہ 25کروڑ اہلِ پاکستان کے تحفظ اور عزت کی نشان ہیں۔ شہداء کے وقار کا شعار ہیں۔ چند مٹھی بھر شرپسند عناصر نے یہ حرکت کی ہے۔ آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر صاحب جو اپنے ادارے کے نگہبان اور پاسبان ہیں‘ سارا پاکستان اس پاسبانی کے پیچھے ایک چٹان بن کر کھڑا ہے۔ ان کے صبر اور حوصلے کو سلام ہے کہ عسکری افسران اپنا گھر اور دفاتر چھوڑ کر چلے گئے مگر مٹھی بھر لوگوں کو کچھ نہ کہنے دیا۔یہ قرآنِ مجید کی سورت ''آلِ عمران‘‘ کی تعلیمات پر عمل کا مظہر تھا۔ حوصلے اور صبر کا پیغام تھا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو غیر طبعی موت کا شکار کیا گیا مگر محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا صبر دیدنی تھا۔ محترمہ بینظیر شہید ہوئیں تو جناب آصف علی زرداری کا ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ تاریخ بن گیا۔ عمران خان صاحب تو صرف گرفتار ہوئے‘ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی دراز فرمائے‘ ان سے محبت کرنیوالوں کو سورۂ آلِ عمران کے اُن مقامات اور آیات پر غور کر لینا چاہیے جن کو میں نے اپنے کالم میں درج کیا ہے۔ یہ ملک‘ یہ پاکستان ان شاء اللہ نہ صرف قائم رہے گا بلکہ آنیوالے دنوں میں استحکام بھی پکڑے گا۔ آگے بڑھے گا۔ آئیے! ہم سب پاکستانی بنیں۔ آپس میں بھائی بھائی بنیں۔
پاکستان: زندہ باد! قائداعظم: پائندہ باد!
پاک افواج: زندہ باد!