اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ایسے ہیں کہ ہر مسلمان کو چاہئے ان دونوں ناموں کو اپنی دونوں آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ پہلا نام ''الرافع‘‘ (بلند کرنے والا) ہے، وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا ہے رفعت عطا فرماتا ہے۔ دوسرا نام ''الخافض‘‘ (پست کرنے والا) ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے( اس کی حرکتوں کی وجہ سے) پستی میں گرا دیتا ہے۔
مجھے حضور کریمﷺ کی مبارک سیرت کا ایک منظر انتہائی محبوب ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ کے ظالم و جابر لوگ موجود تھے تو حضور کریمﷺ نے کعبہ کی چھت پر جس شخصیت کو چڑھنے کا حکم دیا وہ سب سے بڑھ کر مظلوم، ضعیف اور کمزور شخصیت تھی۔ یہ حضرت بلالؓ تھے۔ اس روز کعبہ شریف میں وہ سب سے بلند مقام پر تھے اور سرکار مدینہﷺ اپنے اس محبوب خادم کو بلند مقام پر چڑھا کر انتہائی خوش تھے۔ حضور کریمﷺ کے عدل نے تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا۔ ذرے کو آفتاب بنا دیا تھا۔ سیدنا بلالؓ کی کالی رنگت میں جس کو اسلامی آفتاب نظر نہیں آتا‘ اللہ کی قسم! اس کا دل بھی سیاہ ہے اور آنکھیں بھی بے نور ہیں۔ اس نور کو دیکھنے کی توفیق اسے ہی ملتی ہے جو حضور کریمﷺ کی پُرنور سیرت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا ہے۔
حضرت قائداعظمؒ نے پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ کو از سر نو فعال کیا۔ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں بلوچستان سے جو شخصیت قائداعظم محمد علی جناح کی ہمنوا بنی وہ محترم قاضی عیسیٰ تھے۔ اپنے قائد سے انہیں ایسی محبت تھی کہ انہوں نے لاہور چھائونی میں ان کے لیے ایک گھر بھی خریدا۔ یہی گھر بعد ازاں کور کمانڈر ہائوس کہلایا۔جس طرح قائداعظم محمد علی جناح ہم سب کے محسن ہیں اسی طرح ان کے مخلص ساتھی بھی ہم سب کے محسن ہیں جن کی جدوجہد سے ہمیں پاکستان ملا۔ محترم قاضی عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بیٹا عطا فرمایا جس کا نام انہوں نے ''فائز‘‘ رکھا۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کی جمع ''الفائزون‘‘ آئی ہے یعنی وہ لوگ جو آخرت میں (اپنی دنیاوی جدوجہد کی بنیاد پر) کامیاب و کامران ہونے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علامہ اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے بعد لیاقت علی خان، قاضی عیسیٰ، سردار عبدالرب نشتر اور دیگر بانیانِ پاکستان ایسے لوگ تھے جنہیں فکر تھی اس بات کی کہ برصغیر کے مسلمان ایک اسلامی دیس میں اس طرح زندگی گزاریں کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی کامران ہوں۔ مجھ جیسے تاریخِ پاکستان کے طالب علم محترم قاضی عیسیٰ کو تو جانتے تھے مگر محترم قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا کہ پچھلی حکومت کے دوران ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اثاثوں کا کیس بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے (ایک کے سوا) تمام جونیئر ججوں سے درخواست کی کہ میرے کیس کو میڈیا پر لائیو نشر کیا جائے۔مجھے اس مطالبے سے یہ سمجھ آئی تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ قائداعظم کے ساتھی قاضی عیسیٰ کا بیٹا کردار کے لحاظ سے ہر بدعنوانی سے پاک صاف ہے۔ محترم فائز عیسیٰ کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی مگر وہ اس ریفرنس میں سے سرخرو ہو کر نکلے۔ جب تمام طاقتور ان کے خلاف تھے تو اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کے ساتھی کے بیٹے فائز کو ''فائز‘‘ کر دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری تقریب میں جو آیت تلاوت کی گئی اس کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہوئے قاضی صاحب کی سوچ اور وژن کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ترجمہ: ''اے ایمان والو! انصاف کا جھنڈا اٹھانے والے بن جائو۔ اللہ کی خاطر گواہی دینے والے ایسے گواہ بنو کہ وہ گواہی تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ کے خلاف ہو یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو‘ تب بھی گواہی دو۔ وہ مالدار ہوں یا فقیر‘ پروا نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے کہیں بڑھ کر ان کا خیال رکھنے والا ہے۔ لہٰذا خواہش کی تابعداری اس قیمت پر نہ کرو کہ تم بے انصافی کر جائو۔ اگر تم نے لگا لپٹا اندازِ گفتگو اختیار کیا یا حق سے کنارہ کشی کر لی تو یاد رکھو! جو کرتوتیں تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ پوری طرح خبر رکھنے والا ہے‘‘ (النساء: 125)۔
تلاوتِ قرآن حکیم کے فوراً بعد صدرِ پاکستان کے سیکرٹری نے محترم قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ محترمہ سرینا عیسیٰ کو ان کے خاوند کی خواہش بتائی تو وہ بھی حلف کے دوران قاضی صاحب کے ساتھ کھڑی رہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا اور منفرد واقعہ تھا۔ محترمہ سرینا قاضی اپنے خاوند کے ہمراہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوتی رہی تھیں۔ ایک وہ منظر تھا جب وہ عدالت میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات دینے کے لیے پیش ہوتی تھیں اور ایک یہ منظر تھاکہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری کی تقریب میں اپنے شوہر کے ہمراہ کھڑی تھیں۔ اے کاش! ہم اپنے اللہ کے دو ناموں''الرافع اور الخافض‘‘ کو کبھی بھولنے نہ پائیں ۔
ہر نئے چیف جسٹس کی آمد پر عزت افزائی کی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے‘ جسے گارڈ آف آنر کہا جاتا ہے۔ محترم قاضی فائز عیسیٰ نے اس تقریب کے انعقاد کو روک دیا۔ ہر چیف جسٹس کو بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی دی جاتی ہے۔ محترم قاضی صاحب نے یہ کار اور اس کے ساتھ پروٹوکول کی درجن بھر کے قریب گاڑیاں لینے سے بھی انکار کردیا۔ وہ 1300سی سی کی عام سی گاڑی میں سپریم کورٹ پہنچے۔ سپریم کورٹ کا عملہ ان کے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ انہوں نے گلدستہ وصول کیا اور سب کو مخاطب کرکے کہا: تمہارے پاس سائل خوشی سے نہیں آتے وہ مسائل حل کرانے آتے ہیں، آپ ان کو اپنا مہمان سمجھیں اور خود کو ان کا میزبان بنائیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے دفتر کی جانب بڑھے۔ دفتر کے باہر جو تختی لگی تھی اس پر چیف جسٹس کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھا ہوا تھا۔ مندرجہ بالا جو تبدیلیاں ہیں یہ سب کرسی پر بیٹھنے سے قبل کی تبدیلیاں ہیں۔ میرٹ دیکھیں تو وہ بھی کرسی پر بیٹھنے سے قبل کی تبدیلی ہے۔ محترمہ جزیلہ اسلم کو رجسٹرار سپریم کورٹ کی ذمہ داری دی تو وہ قابل ترین سیشن جج تھیں۔ سب بول اٹھے کہ درکار میرٹ سے بھی یہ اوپر ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کو انہوں نے اپنا سیکرٹری بنایا۔ وہ اسلامی اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ہیں۔ انتہائی قابل سکالر اور قانون پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مطلوب میرٹ سے یہ بھی کافی بلند ہیں۔ جی ہاں! کرسی پر بیٹھنے سے قبل ہی میرٹ کی یہ تبدیلی 25 کروڑ پاکستان کی آنکھوں اور کانوں کی سماعت تک پہنچ چکی۔ دنیا بھر میں میرٹ کا ایک پیغام گیا۔ یہ پیغام اگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نظام کا حصہ بن جائے‘ حکومتی اداروں کا طرۂ امتیاز بن جائے تو اللہ کی قسم! میرا‘ ہمارا پاکستان ترقی اور خوشحالی کی چوکڑیاں بھرتا دنوں میں دنیا کا ایک مثالی اور نمایاں معزز ملک بن جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
حکمرانوں اور سیاستدانوں نے تبدیلی کی بہت باتیں کیں مگر بقول مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ وہ گفتار کے غازی تو بن گئے مگر کردار کے غازی نہ بن سکے۔ محترم قاضی حسین احمدؒ واقعی کردار کے غازی بننا چاہتے تھے۔ مجھے ان کا بزرگانہ اور مشفقانہ رویہ نہیں بھولتا۔ ان کے بارے میں ایک نعرہ لگا کرتا تھا: ظالمو! قاضی آ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آ گیا ہے لہٰذا اب ہم کہہ سکتے ہیں! ظالمو! قاضی آ گیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کرسی پر بیٹھے تو انہوں نے نمایاں اور اولین بات یہ کی کہ ہمارے آئین میں سب سے اوپر اللہ تعالیٰ ہے، جی ہاں! سپریم کورٹ میں اس وقت 15جج صاحبان ہیں۔ سات دائیں جانب اور سات بائیں جانب، درمیان میں ''قاضی القضاہ‘‘ ۔ پہلا کیس تھا پاکستان کا ایک اہم مقدمہ کہ جس کے التوا کی وجہ سے وطن عزیز کا عدالتی نظام آگے چلنے سے رکا ہوا ہے‘ اسے نمٹایا جائے۔ اس کیس کی سماعت کو پورے ملک میں ٹی وی پر دکھانے کا فیصلہ ہوا لہٰذا عملدرآمد ہو گیا۔ پوری قوم نے اس کیس کی سماعت کو ٹی وی پر دیکھا۔ اگر چھوٹی بڑی تمام ملکی عدالتوں کی سماعت اسی طرح میڈیا پر ہو جائے تو عدل کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی جانب چل پڑے گا اور جس دن یہ آسمان اور زمین کا تفاوت ختم ہو جائے گا‘ صبحِ فردوس روشن ہو جائے گی۔
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''بلاشبہ عدل کرنے والے لوگ اللہ کے پاس‘ نور کے بنے ہوئے تختوں پر عزت و جلال والے رحمان کے دائیں جانب بیٹھے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے احکامات میں، اپنے گھروں میں اور جو منصب سونپا گیا( جس ذمہ داری کے ذمہ دار بنائے گئے) ان ذمہ داریوں میں عدل کرتے رہے ہوں گے‘‘۔(صحیح مسلم:4721)۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وطن عزیز کی ہر ذمہ داری کا ذمہ دار فردوس میں نور کے تخت پر براجمان ہو، فرشتے اسے دیکھ کر کہیں ''قاضی آ گیا‘‘۔