اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ یہ کائنات جو ہمیں نظر آتی ہے اس کی بنیادی اینٹ 'ایٹم‘ ہے۔ ایٹمی ذرے کے اندر ایک الیکٹرانک ذرہ ''الیکٹران‘‘ ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار اس ذرے کی تصویر لے لی گئی ہے، وڈیو بھی بنا لی گئی ہے۔ یہ معرکہ تین سائنسدانوں نے سر کیا ہے۔ پہلے نمبر پر جناب ''Pierre Agostini‘‘ ہیں جن کا تعلق امریکہ کی ''اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی‘‘ سے ہے۔ دوسرا نام ''Ferenc Krausz‘‘ کا ہے جو بنیادی طور پر ہنگری اور آسٹریا سے تعلق رکھتے ہیں اور جرمنی کے معروف سائنسی ادارے Max Planck Institute of Quantum Optics سے وابستہ ہیں۔ تیسرا نام ''Anne L' Huillier‘‘ کا ہے۔ ان کا تعلق سویڈن کی ایک یونیورسٹی سے ہے۔ ان تینوں سائنسدانوں سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں کو مشترکہ طور پر 2023ء کا فزکس کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔
قارئین کرام! الیکٹران کی فلم بنانے کے لیے ایک سپیشل قسم کی مائیکرو سکوپ بنائی گئی جس کے اندر تین کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ ایٹم پر بمباری کی گئی تو الیکٹران کی فلم بنانے کے لیے ایک نہایت محدود ترین ٹائم دستیاب تھا۔ اس محدود ٹائم کا دورانیہ جاننے کے لیے ہمیں ایک سیکنڈ کو مزید تقسیم کرنا پڑے گا۔ سائنسدانوں نے ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے کیے اور پھر ایک حصے کو اٹھا لیا جسے ''نینو سیکنڈ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر اس نینو سیکنڈ کے ایک ارب حصے کیے، جن میں سے ایک حصہ اٹھایا اور اسے ''اَٹو سیکنڈ‘‘ (Attosecond) کا نام دیا گیا۔ چونکہ الیکٹران کی رفتار بہت زیادہ تھی لہٰذا اَٹو سیکنڈ کے اندر یہ ممکن ہو گیا کہ الیکٹران کی فلم اور اس کی تصویر بنا لی گئی۔ انسانیت کے ہاتھ اب ایسی ٹیکنالوجی لگ گئی ہے کہ اس سے جو کمپیوٹر بنے گا وہ موجودہ کمپیوٹر سے ایک لاکھ گنا بہتر اور تیز رفتار ہوگا۔ اسے ہم علمی اور سائنسی بمباری کہہ سکتے ہیں جس سے انسانیت کی فلاح کے راستے کھلتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک وہ بمباری ہے جو انسانیت کو تباہ و برباد کرتی ہے۔ علمی اور سائنسی فلاح کو نقصان سے دوچار کردیتی ہے۔
اہلِ فلسطین اور اہلِ اسرائیل کے درمیان بموں کی بمباری کو روکنے کے لیے آج سے 43سال پہلے امریکہ کے صدر جمی کارٹر، مصر کے صدر انور السادات اور اسرائیل کے وزیراعظم میناچم بیگن ( Menachem Begin)اکٹھے ہوئے تھے اور خطے میں امن کے ساتھ چلنے کا عہد باندھا تھا۔ اسے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد 13ستمبر 1993ء کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں امریکہ کے صدر بل کلنٹن، فلسطین کے لیڈر یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم رابن (Yitzhak Rabin) اکٹھے ہوئے اور ایک معاہدہ طے پایا۔ اس کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے اور اسے مکمل اندرونی خود مختاری دینے کا اعلان کیا گیا مگر مکمل خود مختاری کا جو وعدہ چند مہینوں کے فاصلے پر تھا وہ 30سال بعد تک بھی پورا نہیں ہو سکا ہے۔ اس میں مزید ظلم یہ کیا گیا کہ فلسطینی ریاست کے نام پر مغربی کنارے کے نام سے زمین کا ایک قدرے بڑا ٹکڑا دیا گیا۔ دوسرا ٹکڑا محض سات کلو میٹر چوڑا اور چالیس کلو میٹر لمبا دیا گیا جسے ''غزہ کی پٹی‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا مغربی کنارے سے کوئی زمینی راستہ تک نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی دو اطراف سے اسرائیل میں گھری ہوئی ہے، تیسری جانب سمندر ہے جبکہ چوتھی جانب مصر کی سرحد ہے جو مستقل بند رہتی ہے۔ یعنی یہ غزہ پٹی مکمل طور پر محصور ہے۔ یاسر عرفات فلسطین کی خود مختاری کو ترستے ترستے فوت ہو گئے۔ ان کے نائب محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کے صدر بن گئے۔ اس کے بعد الیکشن ہوئے اور حماس کے اسماعیل ہانیہ وزیراعظم بن گئے۔ ان کی پارٹی نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور وہ اس بنیاد پر الیکشن جیتی تھی کہ اسرائیل سے لڑ کر خود مختاری لیں گے یعنی جب معاہدے پر عمل نہ ہوا، ظلم بڑھتا گیا تو ظلم کے خلاف جدوجہد کا نظریہ عوامی سطح پر کامیاب ہو گیا۔ مگر محمود عباس نے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کو برطرف کردیا۔ البتہ غزہ میں ان کی حکومت برقرار رہی اور حماس اپنے قائد اور بانی شیخ احمد یٰسین کی قیادت میں جدوجہد کرنے لگی۔ احمد یٰسین کو‘ جو ایک معذور شخص تھے اور ہر وقت وہیل چیئر پر بیٹھے رہتے تھے‘ 22مارچ 2004ء کو ایک اسرائیلی میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا۔ پائیدار اور پُرامن حل تو یہ تھا کہ '' القدس‘‘مغربی کنارے اور غزہ کو زمینی طور پر یکجا کیا جاتا اور مکمل خود مختاری دے کر القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دے دیا جاتا۔ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب پہلے سے موجود ہے۔ یوں یہ دونوں ریاستیں پُرامن بقائے باہمی سے علمی اور سائنسی بمباری میں اپنے اپنے عوام اور ساری انسانیت کے لیے مفید ثابت ہوتیں جس طرح باقی آزاد ممالک مفید ثابت ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس ہوا یہ کہ غزہ کے گرد کنکریٹ کے بڑے بڑے بلاک کھڑے کر کے اور آہنی باڑ لگا کر اس پورے علاقے کو ایک بڑی اوپن جیل میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ غزہ کے لوگ روزگار کے لیے اسرائیل جانے کے لیے نکلیں تو جگہ جگہ تلاشی کے رسوا کن مرحلوں سے گزریں۔ واپس آئیں تو تب بھی ایسا ہی ہو۔ جو چیزیں باہر یعنی اسرائیل سے غزہ میں آ سکتی ہیں‘ ان کی فہرست انتہائی مختصر ہے اور جو چیزیں نہ آ سکیں ان کی فہرست انتہائی لمبی ہے، حتیٰ کہ شیشے سے بنا ہوا سامان، سٹیل، سیمنٹ، پانی نکالنے کیلئے ڈرلنگ کا سامان، گیس سلنڈر، کیمیکلز، گاڑیاں بنانے کا میٹریل وغیرہ‘سب کچھ ممنوع ہے کہ یہ چیزیں اسرائیل کے راستے غزہ نہیں جا سکتیں۔ سمندر کا کنٹرول بھی اسرائیل کے پاس ہے۔ مزید ستم یہ کہ آئے روز ان کی زمینوں پر قبضے، بمباری، بلڈنگیں اور گھر تباہ، مساجد اور سکول تباہ۔ یہ سب کچھ گزشتہ 40سالوں سے ہو رہا ہے۔ طے شدہ خود مختاری تو دور کی بات‘ ان کا جینا انتہائی مشکل اور ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ظالم جب کمزوروں پر ظلم کرتا ہے تو خود بھی ڈرتا رہتا ہے۔ یہ اسی ڈر کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل میں اٹھارہ سال کے یہودی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔ مرد حضرات40سال کی عمر تک کبھی بھی فوج میں بلائے جا سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو اربوں‘ کھربوں ڈالر کی امداد دے کر سائنسی اور معاشی طور پر طاقتور بنایا ہے۔ وہ عسکری اعتبار سے نیو کلیئر پاور ہے۔ آئی ٹی، زراعت اور دیگر سائنسی میدانوں میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
اکتوبر کے ابتدائی دنوں کو اسرائیل میں ''چیک ساکوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق فرعون سے رہائی ملنے کے بعد جب بنی اسرائیل چالیس سال صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے اور پھر جب القدس میں پہنچے تو اس کی یاد میں ہر سال جشن کے دن منائے جاتے ہیں۔ وہ ان دنوں میں صحرا میں کیمپ لگاتے ہیں۔ مذہبی یہودی عبادت کرتے ہیں جبکہ عام یہودی اس روز ناچ گانے اور شراب و شباب کی مجلس سجاتے ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ اسرائیل کی سالانہ قومی چھٹیوں کا آخری روز سات اکتوبر 2023ء کا دن تھا۔ اس روز ہفتہ بھی تھا جسے یہودیوں کا مقدس دن سمجھا جاتا ہے اور ''یوم السبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جمعہ کی رات کو اسرائیلی خوب جشن مناتے رہے۔ ساری رات اسی جشن میں گزر گئی، ہفتے کو سویرے سویرے جب وہ سوئے ہوئے تھے‘ حماس کے جنگجوئوں نے زمینی، سمندری اور فضائی راستے سے اسرائیل کے شہروں پہ ہلہ بول دیا۔ اس ہلے کی حماس نے فلمیں بھی بنائیں اور سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ اسرائیلی فوج کے ساتھ جگہ جگہ پر ان کی لڑائیاں بھی ہوئیں۔ ایک ہزار کے قریب اسرائیلی مارے گئے، فوجی اور کچھ سول افراد قیدی بھی بنا لیے گئے۔ دنیا بھر کے میڈیا میں ایک ظلم ان کے ساتھ یہ وابستہ کیا گیا کہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہوں نے اسرائیلی بچوں کو ذبح کیا ہے، یہودی لڑکیوں کی آبروریزی کی ہے۔ ایک یورپی لڑکی کو آبروریزی کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا اور اس کی لاش کو گھسیٹا۔ خبر دینے والی خاتون صحافی سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس خبر کی صداقت کا ثبوت دو، تو وہ کہنے لگی: میں نے ایک اسرائیلی میجر سے یہ سب سنا تھا۔ تحقیقات ہوئیں تو حقیقت یہ سامنے آئی کہ مذکورہ یورپی لڑکی تاحال زندہ ہے، باقی دونوں باتیں بھی جھوٹ ثابت ہوئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کی مدد گاروں نے حالیہ حملے سے سبق لیا ہوتا تو وہ مظلوم اور محروم فلسطینیوں کو ان کا حق دینے کا اعلان کرتے۔ یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کو ملا کر فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے مگر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم فلسطینیوں سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کریں گے؛ چنانچہ اس وقت غزہ پر بمباری دن رات جاری ہے۔ ہزاروں بچے، عورتیں اور مرد شہید ہو چکے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس اور غذا کی غزہ کو ترسیل بند ہے۔ ایک فلسطینی عورت لوگوں کے سامنے بے بسی سے گھوم رہی تھی اور کہہ رہی تھی: القدس کی آزادی کے لیے میرا معصوم بچہ شہید ہو گیا کوئی غم نہیں مگر وہ زخموں کے بعد بھوکا پیاسا میرے ہاتھوں میں شہید ہو گیا۔ اے دنیا والو! حق داروں اور مظلوموں کو اب پھر بمباری ہی ملی تو نہ جانے دنیا کو مزید کتنی اور کون کون سی بمباری دیکھنا پڑے لہٰذا اہلِ فلسطین کو پُرامن علمی بمباری کا ماحول دو۔