خداداد انعام کہ میرے‘ تیرے پاکستان کا عسکری مرکز راولپنڈی میں ہے۔ پاکستان میں فلسطین کے سفیر جناب احمد جواد ربیع آرمی ہائوس میں تشریف لائے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ فلسطینی سفیر کے پہلو میں پاک آرمی کا وہ فلیگ نظر آ رہا تھا جس پر دو تلواریں بنی ہوئی ہیں جبکہ سالارِ پاکستان کے پہلو میں فلسطینی پرچم دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں جھنڈوں کے درمیان پاکستان کا سبز ہلالی جھنڈا لہرا رہا تھا۔ میری دانست میں یہ ایک مضبوط ترین پیغام ہے۔ پاکستان فلسطین ہے اور فلسطین پاکستان ہے۔ دونوں کے درمیان ایمان کا مضبوط بندھن ہے اور یہ وہ بندھن ہے جسے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ باندھ کر گئے ہیں۔ تب‘ جس فلسطینی لیڈر کے ساتھ یہ بندھن بندھا تھا وہ حضرت مفتی ٔاعظم فلسطین جناب امین الحسینی ؒ تھے۔ اب دنیا کو پیغام یہ دیا گیا ہے کہ اسرائیل ظلم سے باز آ جائے‘ اہلِ فلسطین کو ان کا حق یعنی آزاد فلسطینی ریاست دی جائے۔ پاکستان سے جو دوسرا اہم ترین پیغام دنیا کو دیا گیا وہ سیاسی سطح پر مینارِ پاکستان سے دیا گیا۔ لاہور کا یہ مقام اہلِ پاکستان کے اتحاد اور یگانگت کی علامت ہے یہاں موجود اہلِ پاکستان سے مسلم لیگ (ن) کے قائد جناب میاں نوازشریف نے خطاب کیا۔ ان کے خطاب سے قبل خواجہ سعد رفیق صاحب نے فلسطین اور کشمیر کے حق میں قراردادیں پیش کیں اور ساتھ ہی نواز شریف صاحب کو خطاب کی دعوت دی تو انہوں نے فلسطین کا پرچم تھامے اسرائیل کے ظلم پر دنیا بھر کو جھنجھوڑا۔ امریکہ اور یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں مسلمان‘ مسیحی حتیٰ کہ یہودی اور دیگر مذاہب کے اہلِ دل بھی شامل ہوئے جو دریائے اُردن سے سمندر تک فلسطینیوں کے آزاد وطن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان اجتماعات میں بعض ایسے تھے کہ ہر ایک میں لاکھوں انسان تھے جو اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی درندگی پر سراپا احتجاج تھے۔ پیغام یہ تھا کہ انسانیت مظلومیت کی معیت میں کھڑی ہے۔
مندرجہ بالا حقیقت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے سب سے بڑے ''ال ایلی ہسپتال‘‘ پر حملہ کیا تو لگ بھگ 500 لوگ جاں بحق ہو گئے۔ اسرائیل کی بمباری سے زخمی ہونے والے افراد بھی یہاں موجود تھے، ان سمیت وہ عورتیں، بچے، دیگر زخمی، ڈاکٹرز اور نرسیں‘ سب مار دیے گئے۔ اسرائیل کے ترجمان نفتالی نے اس ننگِ انسانیت فعل کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہوئے فوراً ٹویٹ کیا کہ یہ (درندگی والا حملہ) ہم نے کیا ہے مگر جب پوری دنیا سے شدید ترین ردِعمل آیا تو مسٹر نفتالی نے فوراً اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا اور ساتھ ہی امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے کہنے پر اعلان کر دیا کہ یہ حملہ حماس نے یا غزہ کے کسی دوسرے عسکری گروپ نے کیا ہے۔ اس پر امریکہ کے ایک ایسے شخص نے اپنی تحقیقات کو دنیا کے سامنے رکھا جو امریکی اسلحے کا تجربہ کار ہے۔ اس کا نام مسٹر نیلن گرافٹ ہے۔ اس کے تجزیے کو ''مڈل ایسٹ مانیٹر‘‘ نے شائع کیا ہے۔ مسٹر گرافٹ نے لکھا ہے کہ ہسپتال پر گرنے والا راکٹ حماس کا نہیں بلکہ JDAM نامی امریکی میزائل ہے جو امریکی طیارے ایف 16کے ذریعے فائر کیا جاتا ہے۔ اس کی جو آواز ریکارڈ کی گئی ہے اس کے سائونڈ سگنیچر سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ امریکی ساختہ میزائل ہے۔ نیز حماس کا کوئی راکٹ 500 انسانی جانیں لینے کے قابل نہیں۔ جی ہاں! مندرجہ بالا حقائق کے بعد جوبائیڈن نے پھر بیان بدلا اور کہا کہ یہ حملہ حماس نے کیا ہے مگر جان بوجھ کر نہیں کیا، حالانکہ یہ بھی غلط ہے اور حماس پر سراسر بہتان ہے۔ بھلا وہ اپنے ہی لوگوں کو کیوں شہید کریں گے؟ اپنے ہی ہسپتال پر بمباری کیوں کریں گے؟
حماس کی صورتحال تو یہ ہے کہ اس نے ایک تیس سالہ یہودی خاتون کو رہا کیا، جس نے اسرائیلی ٹی وی پر بیان دیتے ہوئے کہا: حماس کے نوجوانوں نے ہمارا پورا خیال رکھا۔ ہمیں کپڑے، کھانا اور پانی‘ سب کچھ دیتے رہے۔ حماس نے 24 اکتوبر کو دو بزرگ اسرائیلی عورتوں کو بھی رہا کیا‘ ان میں سے ایک کی عمر 79 سال جبکہ دوسری کی عمر 85 سال ہے۔ ان دونوں کو جب ریڈ کراس کے نمائندوں نے وصول کر لیا تو پیچھے مڑ کر ان دونوں نے حماس کے نوجوانوں سے ہاتھ ملائے اور زبان سے ''سلام‘ سلام‘‘ کے الفاظ بولے۔ جب یہ خواتین اپنے گھر پہنچ گئیں تو ''مڈل ایسٹ مانیٹر‘‘ نے ان دو میں سے ایک بزرگ خاتون کی بیٹی کا انٹرویو کیا، وہ کہہ رہی تھی کہ میری ماں نے مجھے بتایا کہ:
They treated us very nicely.
انہوں نے ہم سے انتہائی عمدہ سلوک کیا۔
مندرجہ بالا یہی میگزین 24اکتوبر 2023ء کے شمارے میں اسرائیل کے بارے میں لکھتا ہے:
Israel's rules of engagement in its war in Gaza exceed all red lines.
اسرائیل کی حرکتوں نے اس جنگ میں تمام سرخ لائنوں کو کراس کر لیا ہے۔
یہاں سرخ لائنوں سے کیا مراد ہے؟ اسرائیل نے غزہ کی بجلی بند کردی ہے‘ پانی بھی کافی حد تک ناکافی ہے۔ڈیزل اور پٹرول وغیرہ بھی اسرائیل سے غزہ نہیں جانے دیا جا رہا، اس کی وجہ سے وہاں موجود چھوٹے بڑے تمام ہسپتال بند ہو گئے ہیں۔ ان میں انکیوبیٹرز کے اندر معصوم بچے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ دوسری جانب بمباری بدستور جاری ہے‘ بلڈنگوں تلے دبے ہوئے لوگوں کو نکالا تو جا رہا ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تمام دبے ہوئے لوگ نہیں نکالے جا رہے۔ شہدا کی تعداد اتنی ہے کہ اجتماعی قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ وہ منظر انتہائی دلدوز تھا جب ایک ماں کو قبر میں لٹایا گیا تو اس کے سینے پر اس کا چھ ماہ کا ضائع ہو جانے والا بچہ بھی لٹا دیا گیا۔ الغرض! ایسی دلدوز داستانیں ہیں کہ بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ''یا اللہ کریم! مظلوموں کی مدد فرما‘‘۔ اب تک کے حملوں میں 30کے لگ بھگ مساجد بھی شہید ہو چکی ہیں۔
عراق، شام، لیبیا، یمن، لبنان اور اب اہلِ فلسطین۔ خاص طور پر غزہ کے مظلوم اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کے ٹوٹتے ہوئے پہاڑ دیکھتا ہوں تو خون کے آنسو رونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایٹمی پاور اور ایک مضبوط فوج سے نوازا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان اور اہلِ پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہے۔
آیئے! ہم اپنے آپ کو اس قدر مضبوط بنائیں کہ دنیا کے امن میں ایک مضبوط کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ خاص طور پر غزہ جیسے مظلوموں کے لیے ہماری آواز اس قدر طاقتور ہو جائے کہ اسے نظرانداز کرنے والوں کا دل دہل جائے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب ہم سب ایک قوم کی مضبوط شکل اختیار کریں گے۔ اس ضمن میں معاشی مضبوطی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں نگران حکومت کامیاب جا رہی ہے۔ پاک فوج اور عسکری قیادت نے حکومت کے کندھے کے ساتھ اپنا مضبوط کندھا ملا رکھا ہے۔سی پیک منصوبہ جو ہماری معاشی، خوشحالی اور مضبوط دفاع میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے‘ اب تیز رفتار پکڑ چکا ہے۔ میرے دوست قاری انور جٹھول‘ جو گوادر سے ہو کر آئے ہیں‘ مجھے بتا رہے تھے ''چائنہ سٹیٹ کمپنی‘‘ جو گوادر میں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ لا چکی ہے‘ اس کا کام برق رفتار ہو چکا ہے۔ وہ سی پیک کے مجموعی منصوبے میں بھرپور کام کا از سر نو آغاز کر چکی ہے۔اسی طرح ''سی ایم سی‘‘ جو کورین کمپنی ہے اس نے سکھر سے حیدر آبادموٹروے پر کام تیز کر رکھا ہے۔ یہ 300کلو میٹر کا ٹکڑا ہے‘ جو رہ گیا تھا‘ یہ مکمل ہو جائے گا تو لاہور سے کراچی تک کی موٹروے مکمل ہو جائے گی۔ گوادر ایئرپورٹ بھی دو‘ چار ماہ تک مکمل ہونے جا رہا ہے۔ کام کرنے والوں کی حفاظت کو حکومت اور پاک آرمی کے جوان اللہ تعالیٰ کی مدد سے یقینی بنا رہے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں گوادر بندرگاہ اور اس کے منصوبوں سے پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے حساب سے آمدن شروع ہو جائے گی جبکہ 2024ء کے آخر تک اتنا کام شروع ہو جائے گا کہ پاکستان کو سالانہ چھ ارب ڈالر ملنا شروع ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بدامنی نہیں ہوگی، سکیورٹی مزید فول پروف ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
قارئین کرام! ان حقائق کو دیکھ کر دل خوش ہوا کہ ہم معاشی مضبوطی کے ساتھ ایسا مضبوط پاکستان بنتا دیکھیں گے جو دنیا میں ظلم کو روکنے اور امن کو بپا کر دینے کی ایک مضبوط آواز کو لے کر اٹھنے والا ہو گا اور جسے بٹھایا نہ جا سکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔