اللہ رحمان اپنے بندے عاصم جمیل کی مغفرت فرمائے۔ فردوس میں داخل ہونے کی نعمت سے نواز دے۔ مولانا طارق جمیل کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ ان کا بیٹا دماغی مسائل سے نبرد آزما تھا جس کی وجہ سے عاصم جمیل اگلے جہان میں جا بسا۔ میں نے اس سلسلے میں ''امریکن برین فائونڈیشن‘‘ کی میڈیکل ریسرچ کو پڑھا۔ یونیورسٹی آف منیسوٹا کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سارہ بینش کی تحقیق کو بھی ملاحظہ کیا جن کا تعلق ''نیورولوجی‘‘ سے ہے۔ یاد رہے! انسانی دماغ میں100ارب یعنی ایک کھرب کے قریب Nerve Cells یعنی خلیات ہوتے ہیں۔ جسم کے ساتھ ان کے جو کنکشن ہوتے ہیں وہ ایک ٹریلین سے بھی زائد ہیں۔ یہ دماغ اور جسم کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں: دماغ سے بھی ہمیں ہماری پہچان ملتی ہے۔ بولنا، محسوس کرنا اور جذبات کا فہم ملتا ہے۔ دماغ ایسی مشین ہے جو انتہائی باکمال انداز سے کام کرتی ہے۔ دنیا میں دماغی مسئلہ ہر سات انسانوں میں سے ایک انسان کو کسی نہ کسی درجے میں ضرور ہے۔
''برین فائونڈیشن‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ہر سال ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر صرف دماغی مریضوں پر خرچ ہوتا ہے۔ دماغی امراض کی چھ سو سے زیادہ اقسام ہیں۔ یہ بیماریاں اونچے درجے پر جا کر انتہائی پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ دماغ کی ایک بیماری کا نام Seizure Disorderہے۔ صرف امریکہ میں34لاکھ لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ آئن سٹائن کے بعد دوسرے بڑے عالمی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ Neuromuscular نامی ایک دماغی بیماری میں مبتلا تھے۔ ''آٹزم‘‘ بھی ایک دماغی بیماری ہے جس کی کئی اقسام ہیں، اس قدر ترقی و جدت کے باوجود تاحال اس کے سبب کا پتا نہیں چل سکا ہے۔ ڈیمینشیا کی بھی کئی اقسام ہیں۔ اس میں انسان کی یادداشت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ٹراما(Trauma) کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ ہمارے ہاں اس کو صدمے سے منعون کر دیا جاتا ہے حالانکہ 2021ء میں 70ہزار امریکی لوگوں کا اس مرض کی وجہ سے دماغی آپریشن ہوا؛ تاہم سب فوت ہو گئے اور کوئی ایک بھی نہ بچ سکا۔ ٹراما کی ایک ایسی شکل بھی ہے جس میں مریض کے خود کشی کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اسی طرح Stroke and vascularایک ایسی بیماری ہے جس میں خون جب دماغ کی جانب جاتا ہے تو دماغ کے خلیات کو Stroke یعنی جھٹکا لگتا ہے۔ اس سے دماغ کے ٹشوز کا قتل ہوتا ہے۔ اس موقع پر سوچ اور گفتگو کو کنٹرول کرنا مشکل اور بعض مواقع پر ناممکن ہو جاتا ہے۔ جی ہاں! مشکل اور ناممکن مرحلے میں مریض خود کشی کر سکتا ہے۔ Autoimmune نامی دماغی مرض میں شفا کوئی نہیں‘ صرف دوائیاں ہیں۔ اس کی چار اقسام ہیں۔ خود کشی کے یہاں بھی خطرات ہیں۔
مولانا طارق جمیل صاحب بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا پیدا ہوتے وقت ہی دماغی امراض کا شکار تھا۔ اس سلسلے میں محترمہ ڈاکٹر سارہ بینش کہتی ہیں کہ ماں کے شکم میں بچے کے خلیات یعنی دماغی نیورونزFlat ہوتے ہیں۔ پیدائش کے موقع پر یہ کھلتے ہیں۔ اپنی اصل شکل کی طرف نہ آئیں تو اس مرض کو Spina Bifidaکہا جاتا ہے۔ قارئین کرام! میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ ایک بچہ‘ جو محض پانچ سال کا ہے‘ ایک ایسے ہی مرض کا پیدائشی طور پر شکارہے۔ اس بچے کی ماں کے دورانِ حمل خوابوں سے معلوم ہوا کہ شیطانی اثرات ہیں۔ یہ بچہ بولتا نہیں تھا۔ سب ڈاکٹروں نے اس بچے کی بیماری کو لاعلاج قرار دے دیا تھا؛ تاہم بچے کے والدین اس کے قرآنی و مسنون علاج کی جانب متوجہ ہوئے۔ اب یہ بچہ متواتر قرآنی دم اور تلاوتِ کلام پاک سے لگ بھگ25فیصد درست ہو چکا ہے۔
میرے جوانی کے دور کے ایک محترم دوست سلیم صاحب ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ بیٹا سب سے چھوٹا اور دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کافی ذہین، خوبصورت اور صحت مند تھا۔ دماغی مرض ایسا تھا کہ ڈاکٹروں نے کہا: اسے کبھی بھی اکیلا نہ چھوڑنا کیونکہ اس کے خود کشی کرنے کا خطرہ ہے۔ اس نے دو‘ تین کوشش کی مگر بچ نکلا،لیکن آخر کار زہریلی گولیاں کھا لیں اور فوت ہو گیا۔ معروف مفسرِ قرآن اور شیخ الحدیث حافظ عبدالسلام بن محمد ؒ نے اس بچے کا جنازہ پڑھایا اور لوگوں کو بتایا کہ یہ ایک دماغی بیماری ہے جس میں آدمی کا کنٹرول اپنے دماغ پر سے ختم ہو جاتا ہے لہٰذا اسے خود کشی نہیں کہا جا سکتا نہ ہی اس پر خودکشی کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خود کشی نہیں تو کیا یہ طبعی موت کی طرح ہے؟ میں کہتا ہوں یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ طبعی موت سے جو بڑھ کر ہو سکتی ہے وہ شہادت کی موت ہے۔ اس کے لیے میرے پاس جو دلیل ہے وہ اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا''میری امت 'طعن اور طاعون‘ سے فنا ہوگی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! طعن( یعنی نیزے سے مارنا) کو تو ہم جانتے ہیں۔طاعون (کی وبا سے مرنے) کا کیا مطلب ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: جنات میں سے جو تمہارے دشمن ہیں‘ ان کے کچوکے سے (تم مسلمانوں کی کثرت سے) موت ہو گی۔(طعن اور طاعون سمیت ہر ایسے مرض میں) موت شہادت کی موت ہے۔(مسند احمد:19528، بزار: 2986، صحیح الجامع للالبانی:4231 اسنادہٗ صحیح)
یاد رہے! صحیح الجامع میں ''وَخْزٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری (10/18) میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک پھوڑا بھی جنات کی کارستانی سے پیدا ہو جاتا ہے اسے وَ خْزٌ کہا جاتا ہے۔ (اور پھر یہ پھوڑا ہی موت کا سبب بن جاتا ہے) یعنی شیطان مسلمانوں میں بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ قارئین کرام! کیسے بیماریاں پیدا کرتا ہے‘ اللہ کے رسولﷺ نے اس کے بارے میں بھی آگاہ فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین (حضرت زین العابدین) رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''انسان کے خون میں شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح شریانوں میں خون دوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 2038، صحیح مسلم:2175)۔
اب ذرا سوچئے! یہ شیطان خون کی شریان میں دوڑتا ہوا دماغ کے ایسے حصے میںStroke یعنی ضرب لگائے کہ جہاں کے نیورون کا تعلق دل سے ہو تو دل میں تکلیف ہو گی۔ وہ شریان ریڑھ کی ہڈی میں جا رہی ہے تو مہرے میں درد ہو گی۔ اگر یہ شیطان نیند خراب کرنا چاہتا ہے تو دماغ کے مذکورہ حصے میں کارستانی دکھائے گا۔ درد دینا مقصود ہے تو ویسا کردار ادا کرے گا۔ ایسی تکالیف سے بے بس ہو کر جب انسان اس کے وسوسے کا شکار ہوگا تو شیطان دماغ پر کنٹرول کرکے اسے خود کشی پر آمادہ کر دے اور انسان ایسا کر دے تو قاتل شیطان ہے اور مومن انسان شہید ہے۔ اس لحاظ سے میرا گمان ہے کہ مولانا طارق جمیل صاحب کا لختِ جگر عاصم جمیل شہید ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ!
پاکستان میں ڈاکٹر عارف انیس معروف ماہرِ نفسیات ہیں۔ وہ میوہسپتال لاہور میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کی عالمی سطح کی ریسرچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں وہ ڈاکٹرز جو نفسیاتی امراض کے ماہرین ہیں‘ ان میں سے چالیس فیصد ایسے ہیں جو خود کشی کا سوچتے ہیں اور ان میں چار فیصد ڈاکٹرز تو خود کشی کر بھی لیتے ہیں۔ میڈیکل اور ڈاکٹری کے دیگر شعبوں کی نسبت نفسیات کے شعبے میں ماہرین کی خود کشی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر عارف انیس نے فروری 2021ء کا ایک واقعہ بھی بتایا کہ ملتان میں دماغی اور نفسیاتی امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر نے اپنی ماہرِ نفسیات بیٹی کو قتل کرکے خود کشی کرلی تھی۔ ڈاکٹر عارف انیس نے اس معاملے میں ان علامتوں کا بھی ذکر کیا جو ایسے شخص کی علامتیں ہیں جن پر شیاطین کا اثر ہو۔ اس سے مجھے یہ سمجھ آئی ہے کہ نفسیاتی ڈاکٹرز پر شیاطین زیادہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ہاں! وہ ڈاکٹرز جو نمازی ہوں‘ صبح و شام کے اذکار، قرآنِ مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہو‘ وہ محفوظ رہتے ہیں۔ شیطانوں کو بھگانے کے لیے جو لوگ 'پروفیشنل دَم‘ وغیرہ کرتے ہیں ان میں زیادہ تر فراڈیے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمیں قرآن و سنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔ صبح و شام کی دعائیں، سورۃ الفاتحہ، آیت الکرسی، سورۃ البقرہ کی مسلسل تلاوت اور آخری تین سورتیں‘ جنہیں معوذات کہا جاتا ہے انسان کو جن، جادو اور جنات کے اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ہر مسلمان کو صبح و شام ان کا التزام کرنا چاہیے۔ اگر نفسیاتی معالجین اس اہم معاملے کی سوجھ بوجھ حاصل کر لیں تو اس سے ان کا اپنا بھی فائدہ ہوگا اور مریضوں کا بھی۔
بہرحال! ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ حضور کریمﷺ نے خود فرما دیا کہ میری امت کے بہت سارے لوگ جناتی شیطانوں کے ہاتھوں سے جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل کے بیٹے عاصم جمیل کو بھی مظلوم شہدا کی فہرست میں شامل فرمائے۔ آمین!