اللہ رحمان و رحیم کی زمین پر لگ بھگ آٹھ ارب انسان بستے ہیں۔ غزہ میں روا ظلم پر ان سب کی انسانیت زندہ ہو گئی ہے۔ آج میں اپنے قارئین کو سب سے پہلے زندہ انسانیت کے مناظر سے آگاہ کروں گا اور کالم کے آخر پر مردہ انسانیت کی درندگی سے آگاہ کروں گا۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی حکومت کی جانب سے ایک کینیڈین خاتون کو ہندومت کے تہوار دیوالی پر وائٹ ہائوس میں پرفارمنس کی دعوت دی گئی۔ اس 32سالہ خاتون کا نام روپی کور (Rupi Kaur) ہے۔ یہ بھارتی پنجاب سے 2009ء میں اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہو گئی تھی۔ یہ ایک شاعرہ، پرفارمر اور مصنفہ ہے۔اس نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی خاطر امریکی صدر کا دعوت نامہ مسترد کر دیا۔ جوبائیڈن کے نام اس کی تحریر ملاحظہ ہو، لکھتی ہے:
I received an invite from the Biden administration for a Diwali event being held by the VP on nov 8. This administration is not just funding the bombardment of Gaza- they continue to justify this genocide against Palestinians - and they want us to celebrate Diwali with them? The UN says 70% of the dead are women and children.
ترجمہ: مجھے جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا جو آٹھ نومبر کو نائب صدر کی جانب سے دیوالی سے متعلق ایک پروگرام کے انعقاد کے حوالے سے ہے۔ (میں نے اس دعوت نامے کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ) یہ ایک ایسی انتظامیہ کی طرف سے ہے جو غزہ پر صرف بمباری ہی میں ملوث نہیں ہے بلکہ اہلِ غزہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے جواز بھی پیش کر رہی ہے۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ دیوالی منائیں۔اقوام متحدہ کے مطابق (غزہ میں) مرنے والوں میں ستر فیصد سے زائدخواتین اور بچے ہیں۔
برطانیہ میں جو سب سے بڑا مظاہرہ ہوا‘ وہ 20لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ یہ فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر میں سب سے بڑا اجتماع تھا۔ اسے برطانیہ کی تاریخ کا بھی سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کی وزیر داخلہ مس سویلا(Suella Braverman) نے اس مارچ کو ''نفرت انگیز مارچ‘‘ قرار دیا تو نہ صرف برطانوی میڈیا بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے انہیں اس قدر آڑے ہاتھوں لیا کہ اب یہ خاتون ایک نفسیاتی مریضہ بن کر رہ گئی ہے۔ بلجیم، سپین اور یونان نے اہلِ غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کو ہر طرح کا سامان بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔ امریکہ کی ریاست سان فرانسسکو میں ایک کیتھولک پادری نے کیتھولک مسیحی برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم لوگ اپنے آپ کو سچا مسیحی سمجھتے ہو تو اہلِ فلسطین کے حق میں بولو اور جو کردار ادا کر سکتے ہو‘ وہ ادا کرو۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مذہبی عمائدین کے ساتھ پانچ گھنٹے کی ایک مجلس کی جس میں سب سے پہلے خود تقریر کی اور کہا کہ غزہ میں بچوں کو جس طرح اسرائیل مار رہا ہے‘ اس پر کوئی پتھر دل ہی ہوگا جس کے آنسو نہ گرے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا صدر پوتن بھی زارو قطار روئے ہیں‘ اس ظلم پر جو اسرائیل کر رہا ہے۔ اس مجلس میں دو مسلم علما تھے‘ دو مسیحی عالم تھے‘ دو یہودی ربی تھے اور دو بدھ مت کے مذہبی پیشوا تھے۔ صدر پوتن نے سب کی گفتگو کو تحمل سے سنا جو فلسطین کے مظلوموں سے یکجہتی کے اظہار اور خطے کے حالات پر تھی۔ سب کی گفتگو روسی زبان میں تھی۔ میں نے انگریزی ترجمے کے ساتھ اس کو ملاحظہ کیا۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یوکرین کے یہودی صدر مسٹر زیلنسکی‘ جس نے پہلے یہ کہا تھا کہ وہ اسرائیل جائے گا اور نیتن یاہو کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرے گا‘ نے اب کہا ہے کہ غزہ کے مسئلے نے دنیا کی توجہ کو ہم سے ہٹا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا روس کیلئے یوکرین میں آسانی ہو گئی ہے۔
اسرائیل نے ڈرون اور دیگر ہتھیار بنانے کے کارخانوں اور فیکٹریوں کا ایک نظام بنایا ہوا ہے جس کا ہیڈ کوارٹر اسرائیل میں ہے مگر اس کی اکثر شاخیں امریکہ میں ہیں۔ اسرائیل یہ ہتھیار دنیا بھر میں بیچتا ہے تو ساتھ یہ سرٹیفکیٹ بھی دیتا ہے کہ ان ہتھیاروں کو جنگ میں ٹیسٹ کیا گیا ہے اور ان کا تجربہ ہم نے فلسطین میں کیا ہے، یہ انتہائی کامیاب ہتھیار ہیں۔ جی ہاں! ہمیں یہ حقیقت نظر میں رکھنی چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ فلسطین کی سرزمین، ان کے مرد، عورتیں، بچے اور بزرگ یعنی عام لوگ ہیں۔ یہ تجربے روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ان شہریوں کو سلام ہے کہ جنہوں نے بوسٹن میں ایسی فیکٹریوں کو بند کرایا۔ وہ احتجاجاً اپنے آپ کو سڑک پر زنجیروں کے ساتھ باندھ کر لیٹ گئے کہ ہم ان فیکٹریوں کا اسلحہ اسرائیل نہیں جانے دیں گے کیونکہ یہ اسلحہ غزہ اور مغربی کنارے کے مظلوموں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ یوں کئی دنوں تک ان فیکٹریوں میں پروڈکشن بند رہی۔
امریکہ کی ایک کمپنی بوئنگ ہے۔ یہ ہوائی جہازوں کے حوالے سے مشہور ہے، ساتھ ہی یہ کمپنی اسرائیل کے لیے اسلحہ بھی بناتی ہے۔ یہ امریکی ریاست میسوری (Missouri) کے شہر ''سینٹ پال‘‘ میں واقع ہے۔ یہ اڑھائی سو پائونڈ وزن کے ہیوی بم بھی بناتی ہے۔ ان تباہ کن بموں کو اسرائیل غزہ پر پھینک رہا ہے۔ اس بم کی پروڈکشن کا ایمرجنسی آرڈر ملا تھا۔ کمپنی نے ایک ہزار بم تیار کرنا تھے مگر اس کا امریکہ کے شہریوں کو پتا چل گیا تو انہوں نے صبح سات بجے ہی فیکٹری کے راستے بند کر دیے تاکہ ورکرز فیکٹری میں نہ جانے پائیں، یوں کئی دن تک یہاں بھی پروڈکشن رکی رہی۔ پھر ایسے لوگوں پر جو انسانیت سے محبت کرنے والے ہیں‘ جو مذہبی اور علاقائی تقسیم سے بلند ہیں‘ ان پر مقدمے قائم کر دیے گئے اور انہیں جیلوں میں بند کردیا گیا ۔ انہی بموں کی فیکٹریاں برطانیہ کے شہروں Kentاور Bristolمیں بھی ہیں۔ وہاں بھی مظاہرین نے سڑکوں کو بلاک کیا اور بلاک کرنے کیلئے خود کو زنجیروں سے باندھ کر سڑکوں پر لیٹ گئے۔ انہیں بھی دو‘چار دن کی بندش کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن کی بندرگاہ‘ جہاں سے زیادہ تر امریکی سامان آتا جاتا ہے‘ اہلِ واشنگٹن کو پتا چلا کہ یہاں سے ایک بحری جہاز اسلحہ لے کر اسرائیل جا رہا ہے تو لوگوں نے اس بندر گاہ پر دھاوا بول کر اس کو بند کر دیا۔ اسی طرح وہ مقامی امریکی‘ جن کو یورپ کے لوگوں نے قتل کرکے ان کے امریکہ پر قبضہ کیا تھا‘ اب وہ بہت تھوڑے یعنی چند لاکھ رہ گئے‘ ان کے لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیاں لے کر اس بندر گاہ کے سامنے سمندر میں آ گئے کہ جو اسلحہ غزہ کے بچوں پر استعمال ہوگا‘ ہم اسے روکیں گے۔ قارئین کرام! یہ وہ اقدامات ہیں جو ہماری چھوٹی موٹی ریلیوں سے لاکھوں گنا زیادہ مؤثر ہیں۔ یہ ہے وہ انسانی ہمدردی کا جذبہ جو ہے اہلِ غزہ کے لیے۔
جاپان ایسا ملک ہے جہاں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے، وہاں کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں وزیراعظم ہائوس کے سامنے زمین پر گدے بچھا کر ‘اوپر رضائیاں اور کمبل اوڑھ کر رات گزاری اور اپنی حکومت کو پیغام دیا کہ وہ غزہ میں امن کی کوشش کرے‘ بچوں کا قتلِ عام رکوائے‘ بے گھروں کو خوراک اور بستر مہیا کرے۔ اللہ اللہ! جاپان کی شدید ترین سردی میں اہلِ جاپان کا اظہارِ یکجہتی انوکھا تھا۔ یہ ہے انسانی رشتہ جس نے انسانیت کے انس اور ہمدردی کو زندہ کردیا۔
دوسری جانب جنوبی امریکہ کا براعظم وہ براعظم ہے کہ جس کے بعد زمین ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں سورج ڈوب کر پھر سے جاپان کی جانب سے طلوع ہوتا ہے۔ یہاں چلی اور ارجنٹائن کے ممالک ہیں جو انٹارکٹیکا کے شمال میں ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں سے چلی نے اسرائیل سے سفارتی تعلق ختم کر لیا ہے۔ یہاں پانچ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ارجنٹائن میں 3لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ فلسطینی کم تعداد میں ہیں مگر ارجنٹائن نے بھی مسلسل غزہ کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف بیانات دینا شروع کر رکھے ہیں۔ بولیویا، کولمبیا اور نیڈراس نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان ملکوں میں بھی فلسطینی آباد ہیں۔ اس وقت جو فلسطینی اپنے وطن سے جلا وطن ہو کر دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں‘ ان کی تعداد ایک کروڑ بائیس لاکھ ہے۔ ان میں سے 54لاکھ جنوبی یا لاطینی امریکہ کے براعظم میں آباد ہیں۔ کولمبیا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کے ظلم اور ہٹلر کے ظلم میں کوئی فرق نہیں۔ اس پر اسرائیل نے کہا کہ ہم تمہیں اسلحہ نہیں دیں گے، کولمبیا نے کہا: ہمیں تمہارا اسلحہ نہیں چاہیے۔ جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل سے تعلقات ختم کرتے ہوئے سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
اسے اہلِ پاکستان! دنیا بھر کے انسانوں کا کردار ہم نے ملاحظہ کیا کہ ہر جانب ''غزہ پر ہے ساری انسانیت زندہ‘‘ مگر میرے‘ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں چند سال قبل خارجی اور تکفیری دماغوں نے دھماکے شروع کیے۔ نہ عورتیں بچیں نہ ہی بچے۔ نہ مساجد، نہ مدارس۔ نہ چرچ اور نہ ہی مندر۔ نہ علما اور نہ ہی سیاستدان۔ نہ صحافی اور نہ دانشور۔ ہم نے 80ہزار قربانیاں دیں۔ دس ہزار قربانیاں ہماری پاک فوج کے شیروں نے دیں جو پاک سرزمین کی حفاظت بیرونی سرحدوں پر کرتے ہیں، وہ اندرونِ ملک بھی اس کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ خارجی آج پھر اسی طرح کے حالات بنانے کو کوشاں ہیں۔ خارجی سوچ والوں کے منہ سے نہ غزہ کے مظلوموں کی بات ہو گی نہ کسی اور کی۔ میرے دوست مولانا عمر جٹھول ایسے حالات پر بہت غمزدہ ہیں مگر پُرعزم بھی کہ ان کے مذموم عزائم کوپاک فوج ملیامیٹ کر دے گی۔ خارجی دماغ اور تکفیری ذہنوں کو ہمارے جوان اور آرمی چیف قرآنِ مجید اور حدیث شریف کی روشنی میں بہتر سمجھتے ہیں، لہٰذا میرا‘ تیرا پاک وطن نہ صرف زندہ باد بلکہ مزید پائندہ باد بنے گا، ان شاء اللہ!