اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب جو آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی‘ اس کتاب کے وسط میں ایک سورت ہے جس کا نام ''بنی اسرائیل‘‘ ہے۔ اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے‘ عربی زبان میں اس کا معنی عبداللہ ہے؛ یعنی اللہ کا بندہ۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کے حوالے سے ''بنی اسرائیل‘‘ کا معنی ''عبداللہ کی اولاد‘‘ ہے۔ جی ہاں! اس سورت کے نام کا ایک عجیب راز یہ بھی ہے کہ ''بنی‘‘ عربی کا لفظ ہے تو ''اسرائیل‘‘ عبرانی لفظ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ''عربی اور عبرانی‘‘ کو ملا کر سورت کا نام رکھا ہے۔ اس نام کا ایک پیغام یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ''عبداللہ‘‘ تھے‘ حضرت محمد کریمﷺ کے والد گرامی بھی ''عبداللہ‘‘ تھے‘ جو آخری رسول ہیں وہ محمد (ﷺ) بن عبداللہ ہیں‘ لہٰذا ''یعقوب یعنی اسرائیل یعنی عبداللہ‘‘ کی اولاد کہلانے والے یہودیو! حق تو یہ تھا کہ تم حضرت محمد بن عبداللہﷺ پر ایمان لاتے۔ ایمان نہیں لائے ہو تو حضرت محمد بن عبداللہﷺ کی امت پر ظلم تو نہ کرتے۔ غزہ کے معصوم اور بے گناہ بچوں کا قتلِ عام تو نہ کرتے۔ 75سال تک دنیا سے جو جھوٹ بولا جاتا رہا کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں، یہودی مظلوم ہیں‘ یہ جھوٹ تو نہ بولتے۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ 75 سال کے بعد آج غزہ میں 40روزہ جنگ نے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے۔
قرآنِ مجید کی اسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کا پول کھول دیا تھا۔ اے غزہ کے مظلومو! اے دنیا بھر کے انصاف پسند لوگو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو ارشاد فرمایا ''اعلان کر دو! سچ آ گیا، باطل (دھوکا باز جھوٹ) مٹ گیا۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ فریبی جھوٹ نے مٹنا ہی ہوتا ہے‘‘ (بنی اسرائیل:81)۔
فریبانہ اور دھوکا باز جھوٹ کے خلاف ساری دنیا کی انسانیت ایک ہو چکی ہے، باہم متحد ہو چکی ہے۔ مظلوم اہلِ غزہ کے حق میں کھڑی ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ زوردار طریقے سے مسیحی برادری کھڑی ہوئی ہے۔ حق بھی انہی کا بنتا تھا اور انہوں نے خوب حق ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں نے ہی اسرائیل نامی ریاست کو ایک ایسی عرب سرزمین پر گاڑ ڈالا جہاں یہودیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پچھلے دو ہزار سال سے ان کا یہاں کوئی وجود نہ تھا۔ مغربی ممالک مصنوعی طریقے سے ان کے وجود کو یہاں بڑھاتے چلے گئے۔ اسرائیل نامی ملک کے ایک کونے پر ایک چھوٹی سی زمینی پٹی غزہ کے نام سے باقی رہ گئی تھی۔ 40کلومیٹر سمندری ساحل ہے تو 14کلو میٹر کی سرحد مصر کی سرزمین کے ساتھ ہے۔ اسرائیل اب اس کا خاتمہ کر کے یہاں باقی دنیا سے لا کر یہود کو بسانا چاہتا ہے، یہاں سے تیل کے ذخائر نکالنا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ یہاں سے ایک سمندری راستہ نکالنا چاہتا ہے جو نہر سویز کے متبادل کے طور پر کام کرے گی۔ بہرحال اس کا جو بھی پلان ہو‘ حیران کن جھوٹ یہ ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو ظالم کہتا ہے اور خود کو مظلوم کہتا ہے۔ نام نہاد مظلوموں کی فوج دیکھیں تو ایک لاکھ انہتر ہزار فوج ہمہ وقت فعال ہوتی ہے۔ چار لاکھ پینسٹھ ہزار ریزرو فوج اس کے علاوہ ہے۔ نیم فوجی دستوں کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔ یہ فوج کل تعداد کے لحاظ سے چھ لاکھ بیالیس ہزار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کی یہ اوّلین اور منفرد فوج ہے جس کے ٹینکوں کی تعداد 2200 ہے۔ توپیں 530ہیں۔ یہ حقائق بری فوج سے متعلق ہیں‘ جہاں تک فضائیہ کی بات ہے تو اس کے پاس 339 فائٹر طیارے ہیں۔ جدید ترین ایف 35کی تعداد 30عدد ہے۔ ایف 16کی تعداد 336 جبکہ 36 عدد ایف 15 ہیں۔ ہیلی کاپٹروں کی تعداد 42 ہے۔ خصوصی اپاچی 13عدد ہیں۔
بحری فوج کو دیکھیں تو ایٹمی آبدوزوں کی تعداد 15 ہے۔ ساحلوں کی حفاظت کے لیے انتہائی قیمتی اور جدید ترین ''Combats‘‘ کی تعداد 49 ہے۔ امریکہ کے عطا کردہ آئرن ڈوم کے علاوہ اسرائیل میں ایرو دفاعی نظام بھی نصب ہے جو بحیرہ احمر کی جانب سے داغے جانے والے میزائلوں کو اسرائیل میں آنے سے روکتا ہے۔ دنیا پہلے ہی جانتی تھی کہ اسرائیل ایک ایٹمی قوت ہے اور اس نے صرف اس کا اعلان نہیں کیا ہوا۔ اب غزہ کے معاملے میں اسرائیل کے وزرا نے دو مرتبہ بیان دیا کہ وہ غزہ پر ایٹم بم پھینک سکتے ہیں یعنی اسرائیل نے اپنے ایٹمی پاور ہونے کا نہ صرف اعلان کر دیا بلکہ ایٹمی قوت کو غزہ کے ''ظالموں‘‘ پر استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ واضح رہے کہ یہ دھمکی دینے والا اسرائیل خود کو ''مظلوم‘‘ کہتا ہے۔
''مظلوم اسرائیل‘‘ کی تین لاکھ فوج نے غزہ کو زمین اور سمندر کی جانب سے گھیر رکھا ہے۔ لوگو! اس بیچارے مظلوم کے مقابلے میں ظالم حماس اور بقول ''مظلوم‘‘ اسرائیلیوں کے ظالم القسام کے دہشت گردوں کی تعداد 30ہزار ہے جن کا کُل اسلحہ چھوٹے راکٹ ہیں اور بچاؤ کے لیے صرف سرنگیں۔ نہ ان کے پاس ٹینک ہیں اور نہ ہی فضائی طاقت ہے۔ اگلی بات یہ ہے کہ 57 مسلمان ملکوں میں سے کوئی بھی نہ تو سرعام حماس کو تسلیم کرتا ہے‘ نہ اس کی مدد کرتا ہے۔ نہ ہی یو این اس کو تسلیم کرتا ہے جبکہ دوسری جانب ''انتہائی کمزور‘ مظلوم و مقہور‘‘ اسرائیل کی امداد امریکہ کرتا ہے۔ وہ فضا اور سمندر کے ذریعے اسے متواتر اسلحہ بھیج رہا ہے۔ سمندر میں بحری بیڑے اس کے مدد کے لیے کھڑے ہیں۔ سارا یورپ اور دنیا کے دیگر کئی دیگر طاقتور ملک بھی اس کی مدد کر رہے ہیں۔ ''بے چارہ کمزور اور مظلوم‘‘ اسرائیل انتہائی طاقتور اہلِ غزہ پر بمباری کرتا ہے‘ ہسپتالوں کو ملیا میٹ کرتا ہے۔ گھروں کو کھنڈر بنا دیتا ہے۔ کھنڈر بننے والے ہزاروں گھر ظالموں کے ٹھکانے ہیں۔ ان گھروں، ہسپتالوں اور سکولوں میں ہزاروں دودھ پیتے بچے‘ وقت سے قبل دنیا میں آ جانے والے بچے اور ابھی پیدا ہونے والے بچے‘ یہ سب ظالم ہیں۔ اسرائیل کے بموں کی خوفناک اور دہشت ناک آوازوں کی وجہ سے جو بچے قبل از وقت اس دنیا میں آ گئے‘ یہ بھی ظالم ہیں لہٰذا ''مظلوم‘‘ اسرائیل ان کو سزائیں دے رہا ہے۔ غزہ کی مسجدیں بھی ظالم ہیں‘ چرچ بھی ظالم ہیں۔ اسرائیل نے ان سب کو بھی کھنڈر بنا دیا ہے۔ چند ہی عبادت خانے ہیں جو اب تک بچ پائے ہیں۔ سینکڑوں صحافی قتل ہو چکے ہیں یہ سب اس لیے قتل ہوئے کیونکہ ان کی رپورٹوں سے ثابت ہو رہا تھا کہ اسرائیل سفاکانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے 100سے زائد اہلکار بھی اسرائیل نے مار دیے ہیں‘ اس لیے کہ وہ اہلکار غزہ کے ظالم بچوں اور ظالم عورتوں کی مدد کر رہے تھے۔ ظالموں کے ایسے مددگار عالمی کارکنان کا مارا جانا انتہائی ضروری ہو چکا تھا۔
لوگو! گزشتہ پون صدی سے امریکہ، یورپ اور دنیا کے کئی ممالک کے نزدیک اسرائیل مظلوم تھا اور فلسطینی ظالم تھے۔ غزہ کی چالیس روزہ لڑائی میں ثابت ہو گیا کہ اسرائیل ظالم ہے، فاشسٹ ہے، جابر ہے جبکہ فلسطینی لاچار ہیں، بے بس ہیں، مظلوم ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ساری دنیا کی انسانیت نے 75سالہ جھوٹ کا لبادہ تار تار کر دیا ہے۔ اس کے چیتھڑے اب امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کی سڑکوں، چوراہوں اور راستوں پر اُڑ رہے ہیں۔ چند دن قبل فرانس کے ایک معروف بین الاقوامی وکیل جناب گیلس ڈیورز (Gilles Devers) نے اعلان کیا کہ انہوں نے دنیا بھر کے وکلا کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنا دیا ہے لہٰذا ہم اہلِ غزہ کی نسل کشی اور جنگی جرائم کا مقدمہ بنائیں گے‘ اسرائیل کے وزیراعظم، وزیر دفاع اور اس کی فوج کے افسران کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا دلائیں گے‘ یہ ظالم ہیں۔ انہوں نے سوموار کو نیدرلینڈز میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ تین دن پہلے نیو یارک کے مجسمہ آزادی کے پاس سینکڑوں یہودی مرد، خواتین اور بچوں نے اسرائیل کے حکمران کو ظالم قرار دیا اور کہا ''غزہ کو جینے دو‘‘۔ ٹیسلا کمپنی کے جناب ایلون مسک نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی رائے عامہ جس طرح غزہ کے معصوم بچوں اور عورتوں کے لیے سراپا احتجاج بن گئی ہے‘ خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو عنقریب امریکہ اور یورپ کے اُن حکمرانوں کے خلاف خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے جو اسرائیل کے ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں، لہٰذا تاج اچھل سکتے ہیں‘ تحت گرائے جا سکتے ہیں اگر غزہ پر ظلم جاری رہا۔
لوگو! سورۂ بنی اسرائیل میں آخری رسولﷺ کا الہام آج بھی تازہ ہے۔ فرمایا ''اعلان کر دو! سچ آ گیا، باطل (دھوکا باز جھوٹ) مٹ گیا۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ فریبی جھوٹ نے مٹنا ہی ہوتا ہے‘‘ (بنی اسرائیل:81)۔