اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس زمین پر ایک خطہ ایسا ہے جسے ''خراسان‘‘ کہا جاتا ہے۔ محدثین نے اس کے بارے میں ''خراسان بلادِ واسعۃ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے جس کا مطلب ہے کہ خراسان کا علاقہ وسیع و عریض ہے۔ اس میں انہوں نے وسطی ایشیا کو بھی شامل کیا ہے۔ آج وسطی ایشیا کے چھ ممالک معروف ہیں جو سوویت یونین سے آزاد ہوئے۔ چھ میں سے تین ممالک‘ ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان کا میں وزٹ کر چکا ہوں۔ ایران کا صوبہ خراسان بھی دیکھ چکا ہوں۔ افغانستان بھی طورخم سے دریائے آمو تک دیکھا ہے۔ پاکستان میرا وطن عزیز ہے۔ اس کا صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت‘ بلتستان اور چترال کا علاقہ بھی خراسان میں شامل ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ملحق صوبہ سندھ کا ایک حصہ بھی خراسان میں شامل ہے۔ اگر پنجاب کی بات کریں تومغربی پنجاب پنڈی‘ اسلام آباد تک خراسان میں شامل ہے۔ ترکی کا ایشین علاقہ بھی خراسان ہے، یعنی خراسان اتنا بڑا علاقہ ہے کہ میرے نشاندہی کردہ علاقوں سے بھی بڑا ہے۔ آیئے! اب خراسان سے متعلق ان دو احادیث اور ان کی صحت کا جائزہ لیتے ہیں جن کو ایک عرصہ سے کثرت سے بیان کیا جا رہا ہے اور جب سے غزہ میں حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہوئی تو ان احادیث کو کچھ زیادہ ہی بیان کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں جو پہلی حدیث بیان کی جاتی ہے اس کا ترجمہ اس طرح ہے: ''حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے۔ ان جھنڈوں کا کوئی طاقت مقابلہ نہ کر سکے گی۔ یہاں تک کہ ایلیا(القدس‘ یروشلم) میں(فتح ہونے پر) یہ گاڑ دیے جائیں گے‘‘(جامع ترمذی: 2269)۔ مذکورہ روایت کو امام احمدؒ بھی اپنی مسند میں لائے ہیں۔ انہوں نے اس روایت کے راوی''رشدین بن سعد‘‘ کو ضعیف کہا ہے۔ خود امام ترمذیؒ نے اس روایت کو''غریب‘‘ کہا ہے۔ امام حاکمؒ نے رشدین کو منکر کہا ہے۔ امام نسائیؒ نے اسے متروک کہا ہے۔ امام بزارؒ نے جھنڈوں والی روایات سے بے زاری کا اظہار کیا ہے۔ امام ابن جوزیؒ نے ''تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں اس روایت کو موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانیؒ نے ''سلسلہ ضعیفہ: 4825‘‘ میں اسے شامل کر کے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ذھبیؒ کی ''میزان الاعتدال‘‘میں اس روایت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ روایت کے دامن میں کچھ وزن نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ کی یونیورسٹی ''اُم القریٰ‘‘ میں شعبۂ حدیث کے پروفیسر ڈاکٹر الشریف حاتم بن عارف العونی نے اپنی تحقیق میں کہا: کالے جھنڈوں والی روایات سے دلیل لے کر اقدام کرنا غلط ہے، ان کی درست سند نہ تواللہ کے رسولﷺ تک ہے اور نہ ہی صحابہ کرامؓ تک ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سعد بن عبداللہ الحمید(سعودی عرب) فرماتے ہیں: داعش اور اس جیسے تکفیری گروپوں نے کالے جھنڈے بنائے ہوئے ہیں‘ ان جھنڈوں کے ساتھ یہ خوش ہوتے ہیں حالانکہ ایسی روایات کی اسنادی حیثیت کچھ بھی نہیں جس کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
قارئین کرام!دوسری روایت کا ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔''اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مشرق سے کچھ لوگ ظاہر ہوں گے جو حضرت مہدی کے لیے (یعنی ان کی حکومت کے لیے) زمین ہموار کریں گے‘‘(سنن ابن ماجہ:4088)۔
مذکورہ روایت میں ایک راوی''ابن لَھِیعہ‘‘ ہیں۔ امام بوصیریؒ جیسے عظیم محدث نے اپنی کتاب ''مصباح الزّجاجہ‘‘ میں اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی روایت کے ایک دوسرے راوی کا نام ''عمرو بن جابر‘‘ ہے۔امام ہیثمیؒ نے ''مجمع الزّوائد‘‘ میں اور امام طبرانیؒ نے''معجم الاوسط‘‘ میں مذکورہ راوی کو کذّاب قرار دیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانیؒ نے اور صوابی کے عظیم ماہرِ حدیث مولانا زبیر علی زئیؒ نے بھی مذکورہ روایت کو ضعیف قرار دیا۔
قارئین کرام! البتہ مدینہ منورہ کے مشرق میں خارجی اور تکفیری لوگوں کے نکلنے کی صحیح ترین احادیث ضرور ہیں۔ ان میں سے صرف ایک حدیث شریف ہم بیان کیے دیتے ہیں۔ یہ حدیث امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ اپنی صحیح (صحیح بخاری) میں لائے ہیں۔ ''اللہ کے رسول حضورنبی کریمﷺ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق سے نکلیں گے‘ قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دیے جائیں گے جس طرح (کمان) سے تیر پھینک دیا جاتا ہے‘ پھر یہ لوگ کبھی دین میں واپس نہیں آئیں گے‘ یہاں تک کہ تیر واپس کمان میں چلا جائے۔ پوچھا گیا: ان لوگوں کی علامت کیا ہو گی؟ فرمایا: سرمنڈھے ہوں گے‘‘(صحیح بخاری:7562)۔ یعنی یہ خارجی لوگ اپنی دہشت گردانہ حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے‘ مسلمانوں کو شہید کرنے سے نہیں رکیں گے۔
مکہ مکرمہ‘ مدینہ منورہ اور القدس شریف ۔ یہ تین ایسے شہر ہیں جو نظریاتی شہر ہیں۔ اس نظریے کے ساتھ ناتا جوڑنے والا دنیا بھر میں صرف ایک ملک ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ اس کا نام بھی نظریاتی ہے اور اس کی اساس بھی نظریاتی ہے۔ اس کی اساس ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ اسرائیل کو بعض لوگ نظریاتی کہہ دیتے ہیں حالانکہ اسرائیل کا نام بھی قومی ہے اور اس کی اساس اور مقصد بھی قومی ہے۔ یہودی قوم کو یہاں جمع کرنا ہی اس کا بنیادی مقصد ہے‘ یوں یہ نظریاتی ملک قطعاً نہیں ہے بلکہ انسانیت کو تقسیم کرنے والا ایک متعصب صہیونی یہودی ملک ہے۔ پوری دنیا میں نظریاتی ملک صرف ایک ہی ہے اور وہ پاکستان ہے۔ پاکستان اور فلسطین‘ قائداعظمؒ اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینیؒ کا تعلق نظریاتی تھا۔
دنیا کے معروف انگریزی جریدے Tribune نے 22 نومبر 2023ء کی اشاعت میں حقائق کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ 1939ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے چودھری خلیق الزمان اور عبدالرحمن صدیقی کو برطانیہ بھیجا تاکہ وہ حکومتِ برطانیہ کی گول میز کانفرنس میں شرکت کریں، مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی کو قائداعظمؒ کا پیغام پہنچائیں، آل انڈیا مسلم لیگ کے مؤقف سے گول میز کانفرنس کے شرکا کو آگاہ کریں کہ برطانیہ کا وہ وائٹ پیپر حقائق کے منافی ہے جس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ حضرت قائداعظم نے زور دے کر کہا کہ وہاں صرف ایک ہی ریاست قائم ہونی چاہئے اور وہ فلسطینی ریاست ہے، انہی (فلسطینی مسلمانوں) کی اکثریت ہے۔ لہٰذآل انڈیا مسلم لیگ اسی کی حمایت کرتی ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔
قارئین کرام! اس کے بعد23 مارچ 1940ء کو لاہور کے مینارِ پاکستان(سابقہ منٹو پارک) میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی صدارت میں سب سے پہلے فلسطین کی واحد ریاست کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد قراردادِ پاکستان پیش کی گئی۔ جی ہاں! پاکستان مسلم لیگ ایک نظریاتی پارٹی تھی۔ پاکستان ایک نظریے کا نام ہے اور اس نظریے کو حضرت قائداعظمؒ ہر قدم پر واضح کرتے چلے جا رہے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت قائداعظمؒ کے دبنگ مؤقف کی موجودگی میں اسرائیل قائم نہیں ہو سکا۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آ گیا مگر جونہی پاکستان کے حکمران محمد علی جناحؒ بیمار ہو گئے‘ بیماری شدت اختیار کر گئی‘ زمام کار ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں میں جانا شروع ہوئی تو 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا اور چند ماہ بعد 11 ستمبر1948ء کو حضرت قائداعظم اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ حضرت قائداعظمؒ کا جو نظریہ تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے آج تک پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ ہر طرح کے عالمی دبائو اور مالی ترغیب کو مسترد کر دیا مگر اپنے نظریے پر آنچ نہیں آنے دی۔
میں اپنے دوست قاری عمر جھٹول صاحب کو جب دونوں روایات کی صحت کے بارے میں بتلا رہا تھا‘ فلسطین کے ساتھ پاکستان کا نظریاتی تعلق بتا رہا تھا تو وہ بے ساختہ بولے: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ القدس (ایلیا) کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے لیے اہلِ فلسطین کے بعد عالمِ اسلام میں جن کا اہم کردار ہو گا‘ وہ پاکستان ہے۔ یہ اہلِ پاکستان ہیں اور پاکستان کی افواج ہیں‘ جن کا ماٹو ''ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ میں نے کہا: آپ یہ سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنا مدعا اور مقصد واضح کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں (بحمدللہ)۔ موجودہ حکومت نگران حکومت ہے‘ اس کی کارکردگی خاموش ہے مگر یہ بیانات کے حوالے سے خاموش ہے‘ عملی اعتبار سے گھن گرج کی حامل ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے کافی حد تک اشیائے صرف کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ مہنگائی میں کمی اور بہتری کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔آرمی قیادت حکومت کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ افغان پالیسی پر بھی قوم ایک ہو چکی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں کے حق میں لفظی لڑائیاں لڑنے کے بجائے پاکستانی بنیں۔ ہم سب مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور القدس کے پاسبان بننے کے بعد سب سے پہلے پاکستانی بننے کا عملی ثبوت دینا شروع کر دیں تو ان شاء اللہ پاک وطن کوترقی کے میدان میں چوکڑیاں بھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔