اللہ تعالیٰ اپنی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید میں آگاہ فرماتے ہیں ''(اے مسلمانو!) ان (یہودیوں) میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو اللہ کا کلام (تورات) سنتے تھے پھر اسے سمجھ لینے کے بعد اس میں (اپنے مفاد کے لیے) تبدیلی کر دیتے تھے حالانکہ انہیں علم ہوتا تھا (کہ یہ تبدیلی دنیا و آخرت میں بربادی کا باعث ہے)‘‘ (البقرہ: 75)۔ قارئین کرام! آج صہیونی یہودی اہلِ غزہ پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رہے ہیں‘ ان مظالم کی اہم ترین وجہ یہ تبدیلی اور تحریف ہی ہے۔ اس من گھڑت تبدیلی کا ایک منظر ملاحظہ ہو۔ تورات کا آخری چیپٹر ''اِستثنا‘‘ ہے، اس کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ ''صحرائے سینا‘‘ میں بھٹکتے ہوئے جب بنی اسرائیل کو 38 سال گزر گئے‘ پرانی نسل کے بیشتر لوگ مر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس آخری زمانے میں جہاد کا آغاز کیا ''حسبون‘‘ کے علاقے کا بادشاہ‘ جس کا نام ''سیحون‘‘ تھا وہ اپنی فوج لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر نکلا۔ آخرکار اس نے شکست کھائی اور قیدی بن گیا۔ اس کے قیدی بننے پر اسرائیلیوں نے کیا کیا‘ ملاحظہ ہو ''ہم نے اسے (سیحون بادشاہ) اور اس کے بیٹوں کو مار (قتل کر) دیا، ہم نے اسی وقت اس کے سب شہروں کو (قبضے میں) لے لیا اور ہر آباد شہر کو عورتوں اور بچوں سمیت نابود کر دیا۔ کسی کو باقی نہ چھوڑا لیکن چوپایوں اور شہروں کے مال (دولت) کو جو ہمارے ہاتھ لگا (سب کو) ہم نے اپنے لیے رکھ لیا‘‘ (باب اول: 31 تا 34)۔
جی ہاں! صہیونی فوج نے آج جس طرح بمباری کرکے غزہ کو کھنڈر بنایا ہے‘ اپنے عقیدے کے مطابق انہوں نے تورات کے احکامات پر عمل کیا ہے۔ اپنے تئیں انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت پر عمل کیا ہے حالانکہ ایسا ظلم نہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی اصلی تورات میں ہے اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول کی تعلیمات یا عمل ہی ایسا تھا۔ یہ بخدا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الزام اور بہتان ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ صہیونی یہودی جو کچھ اہلِ فلسطین کے ساتھ کر رہے ہیں‘ وہ اپنے مذعومہ عقائد کے مطابق کر رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ‘ جو ڈیڑھ ماہ چلی ہے‘ اور پھر چند دن کے لیے جنگ بندی ہوئی ہے‘ اس کے بارے میں اسرائیلی وزیر دفاع نے بیان دیا ''غزہ میں جو بھی فلسطینی ہے وہ (بچہ ہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا جوان، مرد ہو یا عورت) ہمارے لیے حماس کا فرد ہے۔ یعنی اس کو مارنا، ختم کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اسرائیل پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھے گا۔ اسی طرح فلسطینی بچوں کے قتل پر جب عالمی سطح پر تنقید ہوئی تو اسرائیلی وزیراعظم نے واضح طور پر اعلان کیا ''ان بچوں کو قتل کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے کیونکہ بڑے ہو کر یہ بھی حماس بنیں گے‘‘۔ قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کا وزیر دفاع جو بھی ظلم کر رہے ہیں‘ وہ اپنی تحریف شدہ مذہبی تعلیمات کے مطابق کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے تو یہ بھی کہا ہے کہ جنگ بندی ختم ہو گی تو ہم دوبارہ مزید شدت سے غزہ پر حملہ آور ہوں گے یعنی غزہ کا شہر، اس کے باقی قصبات اور دیہات، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور سکولوں، ہسپتالوں وغیرہ کو نابود کر دیں گے، انہیں کھنڈر بنا دیں گے۔ جنگ بندی کے دوران فلسطینی مرد و عورتیں اور بچے اسرائیل کی جیلوں سے آزاد ہو کر غزہ پہنچے تو اہلِ غزہ نے ان کے لیے خوشیوں کا جو اظہار کیا‘ اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر نے ان خوشیوں کو دہشت گردی قرار دیا اور کہا کہ ان کو خوشی منانے سے روکنا ضروری ہے۔ یعنی اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے گھروں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں کو کھنڈر بنا دے‘ بچوں کو شہید کر دے تو یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے جبکہ فلسطینیوں کا خوشی منانا بھی دہشت گردی ہے۔ یہ ہے اسرائیل نامی دہشت گرد ریاست جسے ''تکریم انسانیت‘‘ کے نام نہاد علمبرداروں نے قائم کیا اور اب اس کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ان مغربی ملکوں کے عوام کا کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کو برملا دہشت گردی قرار دیا اور لاکھوں انسانوں کے مظاہروں، ریلیوں اور احتجاج نے اسرائیل نوازوں کا گھنائونا چہرہ دنیا کے سامنے ننگا کر دیا۔
قیدیوں کی بات کریں تو اسرائیل کی جیلوں میں سات ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں جبکہ حماس کے پاس 184 اسرائیلی قیدی ہیں۔ سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے سے عام فلسطینیوں کو دھڑا دھڑا گرفتار کر کے پانچ ہزار افراد قیدی بنا لیے ہیں۔ اس ظلم پر دنیا ابھی تک خاموش ہے کیونکہ ساری توجہ فی الحال غزہ پر ہے۔ چلتے پھرتے عام شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کر دینا، انہیں قیدی بنا لینا اسرائیل کا مشغلہ رہا ہے۔ یاد رہے! فلسطینی شہریوں پر اسرائیل اپنے فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلاتا ہے جبکہ اسی اسرائیل میں جو یہودی باہر کی دنیا سے آکر بستے ہیں‘ ان کے لیے سول قانون ہے۔ اسرائیل کے فوجی قانون کے تحت کسی بھی فلسطینی کو بغیر فردِ جرم کے غیر معینہ مدت کے لیے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ عموماً گرفتاری کے بعد فوجی قانون کو بروئے کار لا کر فلسطینیوں کو معمولی باتوں پر کئی کئی سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ یہ ہیں وہ قیدی جن کو حماس کی اتھارٹی چھڑواتی ہے۔ چھڑوانے کا مرحلہ سالوں بعد اُسی وقت آتا ہے جب حماس کے پاس اسرائیلی یہودی فوجی قید ہوتے ہیں یا پھر جنگ کے دوران کچھ سول لوگ ان کو مجبوراً پکڑنا پڑتے ہیں تاکہ اسرائیلی قید میں موجود اپنے بے پناہ عورتوں اور بچوں کو سالہا سال کے ظالمانہ چُنگل سے چھڑوا سکیں۔
فلسطینی لوگوں کو کس طرح قیدی بنایا جاتا ہے‘ اس کے لیے یہ واقعہ ملاحظہ ہو‘ ایک کار جس میں ایک فیملی موجود تھی‘ دورانِ سفر اسرائیلی چیک پوسٹ کے قریب اچانک اس میں آگ لگ گئی۔ اسرائیلی چیک پوسٹ کے لوگوں نے کار میں جلنے والے افراد کی کوئی مدد نہ کی۔ ایک خاتون کا چہرہ اس حادثے میں جھلس گیا، بچوں کے جسم جل گئے، اسرائیلی فوجیوں نے حادثے کے بعد ان زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا اور پھر ان پر مقدمہ بنا دیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر ہماری چیک پوسٹ کے قریب گاڑی کو آگ لگائی۔ یہ فیملی ہسپتال سے فارغ ہوئی تو کئی سال تک جیل کاٹتی رہی۔ اسی طرح ایک جوان لڑکی‘ غزہ سے اسرائیل گئی تو وہاں چیک پوسٹ پر اسے اپنا نقاب ہٹانے کا کہا گیا۔ اس نے نقاب نہیں ہٹایا تو اسکے ساتھ زبردستی کی گئی۔ لڑکی نے اپنا دفاع کیا تو اسے چار گولیاں ٹانگوں پر مار دی گئیں۔ وہ تڑپتی رہی اور اسرائیلی فوجی تماشا دیکھتے رہے۔ جب آدھ گھنٹے بعد بھی وہ زندہ رہی تو پھر اسے ہسپتال پہنچایا گیا اور اس پر فوجیوں پر حملے کا مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ ہسپتال سے فارغ ہوئی تو وہ جیل جا پہنچی جہاں کئی سال کی جیل کاٹ کر اب قیدیوں کے تبادلے میں وہ رہا ہوئی ہے۔
7 اکتوبر سے جاری اسرائیل‘ حماس جنگ کے بعد اب حالیہ جنگ بندی کے دوران جو قیدی اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے ہیں‘ ان کی داستانیں سن کر معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے کس قدر اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پانچ‘ سات سال تک کے بچوں کو بھی فوجی قانون کے مقدمات کے تحت سالہا سال تک جیلوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں جو فلسطینی خواتین اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئی ہیں ان میں سے ایک خاتون کا بی بی سی نے انٹرویو کیا تو اس نے بتایا کہ جیل میں عورتوں کا ریپ بھی کیا جاتا ہے۔ سخت سرد موسم میں قیدی مردوں‘ عورتوں اور بچوں پر پانی ڈال دیا جاتا ہے، بیشتر قیدی نمونیے کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ کئی اسی حال میں مر جاتے ہیں۔ گالیاں، مکے اور ذہنی و جسمانی ٹارچر الگ ہے، اس کی کئی اقسام ہیں۔ آٹھ قیدیوں کے لیے چاول کی ایک پلیٹ ہوتی ہے۔ کئی کئی ہفتے تک قیدیوں کو نہانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
حالیہ دنوں میں جو اسرائیلی قیدی حماس کی جانب سے رہا کیے گئے ہیں‘ ان کے بیانات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ ان کی صحت بہتر ہے‘ وہ کہتے ہیں: حماس والے جو خود کھاتے تھے ہمیں بھی وہی کھلاتے تھے۔ پھل بھی دیتے تھے، ریڈیو، ٹی وی بھی مہیا کیا گیا تھا اس سے ہمیں جنگ کی صورتحال کا پتا چلتا رہتا تھا۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ ہمیں دوائیں بھی ملتی تھیں، جن کو نیند نہیں آتی تھی انہیں نیند کی گولیاں بھی مل جاتی تھیں۔ الغرض! یہ سارے قیدی حماس کا شکریہ ادا کر رہے ہیں‘ ان کے اخلاق اور کردار کی تعریف کر رہے ہیں۔ دنیا کو وسیع پیمانے پر پہلی بار معلوم ہو رہا ہے کہ اسرائیل جن کو دہشت گرد اور جانور کہتا ہے‘ وہ کتنے عظیم لوگ ہیں۔ یہی تکریم انسانیت کے حقیقی علمبردار ہیں۔ میڈیا پہ اُس اسرائیلی باپ کا واویلا بھی دنیا نے سنا جس نے کہا تھا کہ اس کی بیٹی حماس کے ہاتھوں مر گئی تو بہت اچھا ہو گا‘ وہ زندہ رہی تو نجانے حماس کے ''جانور‘‘ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اب اس لڑکی کو رہا کیا گیا ہے تو اس نوجوان لڑکی نے حماس کے حسنِ سلوک کے جو گن گائے ہیں‘ اس نے اس لڑکی کے باپ اور اسرائیلی میڈیا کے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے تارپود کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
لوگو! اہلِ فلسطین اور حماس کے حوصلوں اور حسن کردار کو دیکھ کر دنیا دنگ ہے۔ زاویۂ نظر تیزی سے بدل رہا ہے۔ بدر کے قیدیوں کے واقعات زندہ ہو کر دوبارہ حضور رحمت دو عالمﷺ کی مبارک سیرت کے نور کو عام کر رہے ہیں کہ ''سورۃ الدھر‘‘ میں اللہ نے تعریف کی کہ حضور کریمﷺ کے صحابہ کرامؓ خود بھوکے رہ لیتے ہیں مگر بدر کے دشمن قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور پھر صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ اے قیدیو! ہم تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں تو اللہ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں‘ ہم تم سے اس کا بدلہ یا شکریے کے الفاظ تک کی تمنا نہیں رکھتے۔ یہ ہے وہ کردار جو قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے۔ اسی کردار کو آج حماس کے لوگوں نے زندہ کیا ہے۔ یہ ہے فرق صہیونی یہود کے تحریف شدہ عقائد کا اور مسلمانوں کی آخری سچی کتاب قرآنِ مجید اور اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ کی پُررحمت سیرت پر عمل کرنے کا۔