اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر ''بیت اللہ شریف‘‘ کے ایک کونے کا نام ''رکنِ یمانی‘‘ ہے۔ حجرِ اسود کے بعد رکنِ یمانی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسے اللہ کے رسولﷺ نے اپنے دست مبارک سے چھوا ہے‘ اسے Touchکیا ہے۔ رکنِ یمانی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس سمت میں ''یمن‘‘نامی ملک پایا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے (دوبارہ) آباد کیا تھا اور مکہ کی آبادی جب کافی بڑھ گئی تو حضرت عبداللہ بن عباسؓسے مروی ہے کہ ''مکہ کے عرب لوگ جزیرۃ العرب میں پھیلنے لگ گئے۔ لہٰذا ان میں سے جو لوگ دائیں طرف گئے‘ ان کا علاقہ یمن کے نام سے معروف ہو گیا‘‘۔ عربی زبان میں یمن کا معنی دایاں بھی ہے اور بابرکت بھی ہے۔ (معجم البلدان)
بحرِہند سے جب بحری جہاز پاکستان کے سمندری علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو بحرِ عرب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے بائیں جانب بحرِ عرب کے کنارے پر عمان اور پھر ساتھ ہی یمن کا ساحل شروع ہو جاتاہے۔ بحرِ عرب کو چھوڑ کر جب بحری جہاز بحرِ احمر میں داخل ہونے لگتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ یہاں ایک سمندری درہ عبور کرنا پڑتا ہے۔ اس سمندری درے کا نام ''باب المندب‘‘ ہے۔ اس پر اہلِ یمن کا کنٹرول ہے۔ دنیا کا لگ بھگ ستر فیصد تجارتی سامان اسی سمندری درے سے گزر کر جاتا ہے۔ یورپ، افریقہ، عرب اور مشرقی یورپ کے ملکوں کے بحری جہاز مصر کی نہر سویز پار کر کے جب بحرِ احمر میں داخل ہوتے ہیں تو ''مندب‘‘ سے گزر کر ہی جنوبی افریقہ، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا، انڈونیشیا، چین، روس، جاپان، کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک جاتے ہیں اور اسی راستے سے واپس آتے ہیں۔ اسرائیل کی تجارت بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ اہلِ یمن اب تک یہاں سے گزرنے والے متعدد اسرائیلی بحری جہازوں کو پکڑ کر قبضے میں لے چکے ہیں۔ اسرائیلی جہازوں کی مدد کرنے والے بحری جہازوں پر حملہ بھی کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ظلم کرتے ہوئے اہلِ فلسطین کی شہری آبادی پر بمباری کر رہا ہے، عورتوں اور بچوں کو شہید کر رہاہے، ان بحری جہازوں میں اسرائیل کے لیے اسلحہ جاتا ہے اور یہ اسلحہ بے گناہ اور معصوم شہریوں پر استعمال ہوتا ہے لہٰذا اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے لیے ہم ایسا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
کمان سے جب تیر انتہائی تیزی کے ساتھ نکلے تو تیر نکلنے کی آواز کو بھی عربی میں ''مندب‘‘ کہتے ہیں۔ میت پر رونے‘ دھونے اور آہ و بکا کرنے کو بھی ''مندب‘‘ کہا جاتا ہے۔ (معجم المعانی الجامع) یعنی اہلِ یمن ایک تیر چلائیں اور جس کو وہ تیر لگے وہ قتل ہو جائے تو مقتول کی میت پر رونے دھونے کو ''مندب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیل ایک ظالم اور ناجائز ریاست ہے لہٰذا اسے اہلِ یمن جو سزا دے رہے ہیں یا اہلِ غزہ کے مظلوموں کا اپنے تئیں جو بدلہ لے رہے ہیں‘ اس پر اسرائیل جو آہ و بکا کر رہا ہے اسی کا نام ''مندب‘‘ ہے۔
تیر کو آج کی زبان میں میزائل کہا جا سکتا ہے اور کمان کو لانچر کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عتبہ بن عبدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے اہلِ یمن کے بارے میں فرمایا ''وہ اپنے تیروں کے استعمال کے ساتھ سخت جنگجو لوگ ہیں‘‘ (مسند احمد بن حنبل: 17647، سندہٗ حسن) لوگو! حضور نبی کریمﷺ نے اہلِ یمن کے بارے میں امتِ مسلمہ کو نصیحت فرمائی تھی ''جب اہلِ یمن تمہارے قریب سے اس کیفیت میں گزریں کہ ان کے ہمراہ ان کی خواتین ہوں‘ وہ اپنے بچوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں تو آگاہ رہنا! یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں‘‘۔ (مسند احمد: 17647، طبرانی کبیر: 123/17، مسند کی سند کا درجہ ''حسن‘‘ ہے) یعنی وہ مظلوموں‘ کمزوروں‘ بچوں اور عورتوں کے تحفظ کا عزم کیے ہوئے ہیں تو ان کی عورتوں اور بچوں کا احترام لازم ہے۔
حضرت جبیر بن مطعمؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ اللہ کے رسولﷺ کے ہمراہ تھے اور مکہ کے راستے پر موجود تھے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ہم لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ''ابھی کچھ دیر بعد یمن کے کچھ لوگ آپ لوگوں کے پاس آنے والے ہیں۔ یہ لوگ(کردار کے لحاظ سے) ایسے ہیں جیسے بادل ہوتے ہیں۔یہ روئے زمین کے تمام لوگوں سے بہتر لوگ ہیں‘‘۔ (مسند احمد: 16779،ابن ابی شیبہ:33103، اسنادہٗ حسن)
یاد رہے! اہلِ غزہ کے لیے جنگ بندی ہوئی۔ اولاً چار دن کے لیے ہوئی، بعد ازاں دو دن کا اضافہ ہوا۔ پھر ایک دن کا مزید اضافہ ہوا، لہٰذا اس سات روزہ ریلیف میں کافی بڑا حصہ اہلِ یمن کا بھی ہے جو انہوں نے ''مندب‘‘ کے سمندری راستے پر اپنے کردار سے ادا کیا۔ یہ کردار اہلِ غزہ کے لیے تپتی دھوپ میں بادلوں کا سایہ ثابت ہوا۔ آگے چل کر یہ بادل ضرور برسیں گے اور مظلوموں کے لیے رحمت کا باعث بنیں گے جبکہ ان کی کڑک، گرج اور چمک ظالم دشمنوں کی آنکھوں کو اچک لے گی، ان کے کانوں کے پردے پھاڑ ڈالے گی، ان کے کلیجے منہ کو آ جائیں گے اور گلے کی پھانس بن جائیں گے۔ ان شاء اللہ!
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بتاتے ہیں ایک موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''ایمان اس علاقے میں ہے اور پھر اپنے دستِ مبارک سے یمن کی جانب اشارہ فرمایا‘‘(صحیح بخاری: 4387، صحیح مسلم: 51)لوگو! ثابت ہوا ایمان کا تقاضا ہے کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوا جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ظالم کو اس کے ظلم کا احساس دلایا جائے، اس کے ظالم ہاتھ کو پکڑا جائے، اس کی خونخوار باچھوں میں لگام ڈالی جائے۔
بحرِ احمر جس کو ''Red Sea‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور بحرِ قلزم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے‘ ہندی زبان میں اسے ''لال ساگر‘‘ کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ وہی سمندر ہے جس میں فرعون اور اس کا لشکر ڈوب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اُس ظالم کا سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ بچوں کو ذبح کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے بچے تھے جو فرعون کے ظلم کا شکار ہوئے تھے۔اس فرعون کی لاش آج بھی محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کی حفاظت کی خبر قرآنِ مجید میں دی ہے۔ آخری الہامی کتاب میں فرعون کی لاش کو باقی رکھنے کی خبر دینے کا ایک مقصد غالباً یہ تھا کہ دنیا کے تمام لوگ آگاہ ہو جائیں کہ جب اسرائیلی لوگ غزہ کے بچے مارنے لگ جائیں‘ فرعون کی جگہ سنبھال لیں‘ فرعون کے جانشین بن جائیں تو مغربی حکمران اسرائیلی فرعونیوں کا ساتھ مت دیں مگر اس کے باوجود وہ ساتھ دے رہے ہیں۔ ہاں البتہ! ان کی پبلک کے کروڑوں لوگ اسرائیل کے فرعونی کردار کے خلاف بھرپور احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم اس کردار پر دنیا بھر کی انسانیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ یمنی کردار ہے۔ یہ مبارک اور بابرکت کردار ہے۔
بزدل ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور بہادر رحمدل ہوتا ہے۔ بہادر انسان انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے۔ ٹیسلا کمپنی کا مالک ایلون مسک بھی ایک بہادر انسان ہے۔ وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں نمبرون ہے۔ وہ اسرائیل کی دعوت پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے پاس گیا تو نیتن یاہو نے غزہ کے مظلوموں کے لیے میڈیا کی بندش کا مطالبہ کیا۔ ایلون مسک نے مطالبہ رد کیا تو نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اسرائیل اور صہیونی یہودی اس کی کمپنیوں کو اشتہارات نہیں دیں گے، جواب میں ایلون مسلک نے ایک سخت جملہ کہہ کر اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
برطانیہ کے ایک سابق پارلیمنٹرین نے کہا ہے کہ اسرائیل نامی ملک جس طرح عورتوں اور بچوں، ہسپتالوں اور سکولوں، یو این ورکرز اور صحافیوں کو شہید کر چکا ہے اور کر رہا ہے‘ ایسے ملک کو دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا کردار بہادر لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں۔ اہلِ یمن اسی کردار کے حامل لوگ ہیں؛ چنانچہ ساڑھے چودہ سو سال قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس وقت‘ جب اہلِ یمن حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں آکر بیٹھ چکے تھے‘ ارشاد فرمایا ''تمہارے پاس اہلِ یمن آئے ہیں، وہ انتہائی ملائم دل ہیں۔ (شہد جیسی نرمی کے حامل) رقیق دل کے مالک ہیں۔ ایمان بھی یمنی ہے اور دانائی بھی یمنی ہے‘‘ (بخاری: 4388، مسلم:52)۔
لوگو! جس دن اہلِ یمن والی خوبیوں سے ہم اہلِ اسلام مزین ہو گئے‘ دنیا کو اس دانائی کی جانب لانے میں کامیابی کا عزم کر لیا۔ مظلوم اہلِ فلسطین کو امن مل جائے گا، اہلِ یمن جیسے کردار سے ساری دنیا کو امن مل جائے گا، ان شاء اللہ!