اسرائیل اور عربوں کو لڑتے ہوئے 75 سال بیت چکے ہیں۔ پہلی عرب‘ اسرائیل جنگ اس وقت ہوئی جب اسرائیل کے پہلے حکمران 'بن گوریان‘‘ 1948ء میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کے قیام کا اعلان کر رہے تھے۔ دوسری عرب‘ اسرائیل جنگ 1956ء میں ہوئی۔ تیسری عرب‘ اسرائیل جنگ 1967ء میں ہوئی۔ چوتھی اور بڑی جنگ 1974ء میں ہوئی۔ ان چاروں جنگوں میں جو آخری دو جنگیں ہیں‘ ان میں پاک فضائیہ کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے جسے آج ہم واضح کرنے جا رہے ہیں۔
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تو پاک فضائیہ کے افسر جناب سیف اللہ اعظم اردن میں تھے۔ سیف اللہ اعظم نے 1958ء میں سرگودھا کے ''پی اے ایف‘‘ سکول میں داخلہ لیا تھا۔ 1966ء سے وہ اردن میں تعینات تھے‘ وہاں وہ اردن کی فضائیہ کے ہوا بازوں کو تربیت دے رہے تھے۔ جب عرب‘ اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستان کی اجازت سے وہ اردن کی جانب سے والہانہ انداز سے اسرائیل کے خلاف لڑنے لگ گئے۔ اردن کا ایک ہوائی اڈہ تھا‘ جس کا نام ''مفرق‘‘ تھا۔ اسرائیلی طیارے اس ہوائی اڈے کو تباہ کرنے آئے تو پاک فضائیہ کے اس شیر دل جانبار نے اپنے جہاز کا رخ اسرائیلی طیاروں کی طرف کر دیا۔ وہ اکیلے ہی اسرائیلی طیاروں سے لڑنے لگ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیف اللہ اعظم نے دو اسرائیلی طیاروں کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ آگ اور دھویں کی نذر ہوتے یہ دونوں طیارے کٹی پتنگوں کی طرف اردن کی سرزمین پر آن گرے۔ باقی کے اسرائیلی طیارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اردن کے عرب عوام نے آسمان پر یہ منظر دیکھا تو عرب سرزمین کی فضا 'زندہ باد، پاک فضائیہ پائندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ یہ جرأت و بہادری ایک نئی تاریخ رقم کر گئی جبکہ اسرائیل اور اس کی فضائیہ پہ پاک فضائیہ کے ہوا بازوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ گونج سارے جہان کی فضائوں میں بلند ہوئی، بالخصوص ہر ملک کی فضائیہ کے افسران میں یہ موضوعِ گفتگو بن گئی۔
دو دن بعد ہی ایک اور منظر سامنے آیا۔ سیف اللہ اعظم اب صرف اردن تک محدود نہ رہے تھے۔ وہ اپنے نام کی لاج رکھ رہے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب ''سیف اللہ‘‘ تھا۔ یہ لقب انہیں اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے اس وقت عطا فرمایا تھا جب اردن ہی کی سرزمین پر انہوں نے جنگ موتہ میں رومی افواج کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ رومی لشکر کی تعداد دو لاکھ تھی جبکہ سرکارِ مدینہ حضور نبی کریمﷺ کی روانہ کی ہوئی فوج محض تین ہزار تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کہتے ہیں کہ انہوں نے اس جنگ میں لڑتے ہوئے 9 عدد تلواریں توڑیں۔ آخر میں ایک یمنی تلوار‘ جو قدرے چھوٹی تھی‘ اس کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی فاتحانہ فوج کو بچا کر واپس مدینہ منورہ میں لے کر آئے۔ یہ بہت حیرت انگیز اور ایک بڑی معجزانہ اور تاریخی کامرانی تھی۔ اب اسی اردن میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ایک روحانی جانباز بیٹا سیف اللہ اعظم پاکستانی فضائیہ کا اہلکار‘ اردن کی فضائوں میں اسرائیلی طیاروں کا پیچھا کرتے ہوئے عراق کی سرزمین تک جا پہنچا تھا۔ اسرائیلی طیارے عراقی فضائیہ سے لڑتے ہوئے جونہی عراق کے ایئرپورٹ کو نشانہ بنانے لگے تو سیف اللہ اعظم نے یکے بعد دیگرے دو مزید اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ وہ اب عرب فضائوں میں اسرائیل کے لیے ایک ایسی تلوار کی مانند تھے جو اللہ کی تلوار تھی۔ بادلوں کی کڑک اور گرج کی طرح عرب ملکوں کی فضائوں میں اسرائیل کے لیے یہ تلوار کڑک دار اور گرجدار بن چکی تھی۔ ''اعظم‘‘ کا معنی ہے: بہت بڑا۔ اور یہ تلوار اسرائیل کے لیے واقعی بہت بڑی بن چکی تھی۔
یہ جنگ صرف چھ روز تک لڑی گئی تھی۔ سیف اللہ اعظم کے اردنی ہوا باز شاگردوں نے بھی اس جنگ میں اپنے بھرپور جوہر دکھائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1967ء کی جنگ میں اردن کی فضائیہ محفوظ رہی جبکہ باقی عرب ملکوں کی فضائیہ کو شدید نقصان پہنچا۔ چھ دن کے بعد جنگ کا اختتام ہوا تو اردن کی جانب سے سیف اللہ اعظم کو ''وَسَّامُ الاستقلال‘‘ کا تمغہ دیا گیا جس کا معنی ہے ''تمغہ آزادی‘‘، یعنی اردن کی آزادی کے لیے سیف اللہ اعظم نے ایک عظیم کردار ادا کیا۔ اسی طرح عراق کی جانب سے سیف اللہ اعظم کو ''ناوۃ الشجاع‘‘ کا تمغہ دیا گیا۔ ناوۃ کا معنی ہے: رفعت اور بلندی، یعنی سیف اللہ اعظم کو شجاعت کی بلندی کا تمغہ ملا۔ بہادری کی رفعت کے تمغے سے نوازا گیا۔
سیف اللہ اعظم نے 1965ء کی پاک‘ بھارت جنگ کے دوران بھارت کا بھی ایک جہاز مار گرایا، انہوں نے بھارت فوجوں پر بارہ سے زائد کامیاب حملے کیے۔ اس پر صدرِ پاکستان محمد ایوب خان مرحوم نے انہیں ''ستارۂ جرأت‘‘ کے پاکستانی تمغے سے نوازا۔ یعنی یہ ایسا خوش قسمت جانباز اور غازی تھا جس نے یہود و ہنود کو فضائوں میں گھائل کیا اور تین ملکوں میں جنگی اعزازات اور تمغے وصول کیے۔
سیف اللہ اعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ ان کی ایک عظمت یہ بھی ہے کہ جب پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو سیف اللہ اعظم بنگلہ دیش کی فضائیہ کا حصہ بن گئے مگر ان کا دل ہمیشہ پاکستانی ہی رہا۔ 1980ء میں وہ بنگلہ دیشی فضائیہ سے ریٹائر ہوئے، اس کے بعد انہوں نے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1991ء میں بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ جب 14جون 2020ء کو وہ اس فانی دنیا کو چھوڑ کر گئے تو ان کی عمر 80 سال ہو چکی تھی۔ وہ 80 سال تک پاکستانی رہے۔ اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ان کی وصیت سامنے آئی، جس میں لکھا تھا کہ ان کے سفید کفن پر ان کے دل پر سبز و سفید پاکستانی ہلالی پرچم سی دیا جائے۔ وہ پرچم کہ جو سالہا سال ان کی وردی کا حصہ بنا رہا۔ پاک فضائیہ سے تعلق صرف مرنے تک ہی نہیں تھا‘ موت کے بعد‘ قبر میں بھی یہ ان کے دل میں تھی۔ پاکستان ان کے دل میں تھا۔ دل کی دنیا کا حال ان کی وصیت نے آشکار کیا۔ سیف اللہ اعظم کے لیے آج اہلِ پاکستان اور اہلِ غزہ درجات کی بلندی کی دعائیں کر رہے ہیں، ان کے لیے فردوس کی فضائوں میں اڑانوں کی التجائیں ہیں‘ اپنے عظیم رب کریم کے دربار میں! مولا کریم کی سرکار میں!
1974ء میں جب تیسری عرب‘ اسرائیل جنگ چھڑی تو تب میں نویں جماعت کاطالب علم تھا۔ سکول کی لائبریری میں چھٹی جماعت ہی سے اخبار پڑھنا میرا مشغلہ تھا۔ گھر آ جاتا تو ننکانہ صاحب کی میونسپل لائبریری میں تمام اخبارات اور من پسند کتب کا مطالعہ کرنا میرا علمی شوق تھا۔ ان دنوں کی یادیں کچھ اس طرح ہیں کہ حکومت پاکستان نے اس جنگ میں پاکستان ایئر فورس کے 16 پائلٹس خفیہ طور پر عرب دنیا کی جانب روانہ کیے۔ آٹھ‘ آٹھ جانبازوں کی دو ٹیمیں بنائی گئیں۔ آٹھ ہوا بازوں کو شام میں جا کر لڑنا تھا جبکہ باقی آٹھ ہوا بازوں کو مصر میں اسرائیلی فضائیہ سے دو‘ دو ہاتھ کرنا تھے۔ پاک فضائیہ کی اس فارمیشن کا نام ''شاہباز‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ پاکستانی شاہباز کراچی سے بغداد اور بغداد سے دمشق گئے۔ وہاں سے شاہبازوں کی ایک ٹیم مصر پہنچی۔ پاکستان کے ان شاہبازوں نے عرب اور اسرائیلی فضائوں میں جرأت و بہادری کے خوب جھنڈے گاڑے؛ تاہم ایک بات سامنے رہنی چاہئے کہ اسرائیل کے پاس دنیا کے مانے ہوئے اور جدید ترین امریکی اور یورپی جہاز تھے جبکہ شام اور مصر کے پاس روسی ساختہ ہوائی جہاز تھے جو قدرے پرانے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت کم معیار کے تھے۔ اس سب کے باوجود پاکستانی شہبازوں نے اسرائیل کے چار طیارے مار گرائے۔ یہ فرانس کے میراج طیارے تھے اور جو فینٹم طیارے تھے‘ وہ بھی زبردست طیارے تھے۔ جب چھوٹے اور معمولی جہازوں سے دنیا کے جدید ترین طیارے تباہ ہوئے تو اسرائیل سمیت دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی کہ ایسے کارنامے جو فضائوں میں کم معیار اور دوسرے درجے کے طیارے سر انجام دے رہے ہیں‘ یہ پاکستانی پائلٹ ہی ہو سکتے ہیں۔ جی ہاں! ہمارا پیارا وطن پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے‘ عربوں کے علاوہ جس نے اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا ہے۔
پاکستانی شاہباز جناب عبدالستار علوی نے جو ایئر کموڈور تھے‘ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں میں شامی ایئر فورس کی طرف سے لڑتے ہوئے مگ 21 کے ساتھ اسرائیلی فضائیہ کے فرانسیسی جہاز میراج کو مار گرایا تھا۔ شام کی حکومت نے انہیں دو تمغوں ''بسامِ شجاعت‘‘ اور ''وسامِ فارس‘‘ سے نوازا۔ محترم عبدالستار علوی جیسے پاک فضائیہ کے شاہباز نے جس اسرائیلی طیارے کو مار گرایا تھا وہ آج بھی شام کے ایک میوزیم میں موجود ہے جبکہ وہ صہیونی پائلٹ‘ جو اس فضائی جھڑپ میں قیدی بنا‘ اس کی وردی جناب عبدالستار علوی کو تحفتاً دی گئی۔ یہ وردی آج پاکستان میں پاکستان ایئر فورس کے میوزیم میں موجود ہے۔ دنیا میں یہ اعزاز بھی صرف پاکستان ہی کے پاس ہے کہ یہ یہود و ہنود کے ساتھ جنگیں لڑ چکا ہے۔
اب غزہ کی جنگ جاری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ آئندہ سالوں میں کیسی خبریں اور کیسی کہانیاں زندہ رہنے والوں کو سننے کو ملیں گی۔ میں بس اسی قدر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان زندہ باد! پاک افواج پائندہ باد!