اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز فرمایا تو ساتھ ہی وقت کو بھی پیدا فرمایا۔ خلا اور سپیس کے نام ہی یہ بتا دیتے ہیں کہ یہاں سوائے خالی جگہ کے کچھ بھی نہیں تھا۔ انسانی علم آگے بڑھا تو پتا چلا کہ سپیس کے اندر ہی ٹائم یعنی وقت بھی موجود ہے۔ ایٹم کی ساخت میں ننانوے فیصد سپیس موجود ہے یعنی پہاڑوں اور پتھریلی چٹانوں میں بھی 99 فیصد خلا ہی کا راج ہے، اسی کے اندر ٹائم بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شے کا ٹائم اور وقت مقرر ہے۔
حضور نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب آگاہ فرماتی ہے ''کوئی شک نہیں کہ اللہ کے ہاں اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور یہ تعداد اسی لمحے طے کردی گئی تھی جس لمحے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا‘‘(التوبہ: 36)۔ قارئین کرام! چاند اور وقت کی باہمی وابستگی کو دیکھیں تو ایک سال میں مہینے بارہ ہیں۔ سورج اوروقت کی باہم پیوستگی کو دیکھیں‘ تب بھی مہینے بارہ ہی ہیں۔ شمسی کیلنڈر سے دیکھیں تو آخری مہینہ دسمبر ہے۔ دسمبر کے مہینے میں ہم اہلِ پاکستان کو ایک عظیم سانحہ دیکھنا پڑا تھا۔ اس سانحے میں پاک وطن سے ایک ٹکڑا الگ ہو گیا تھا۔ یہ ٹکڑا آج بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے۔ اس سانحے کو باون دسمبر گزر چکے ہیں‘2023ء کا دسمبر بھی گزرا چاہتا ہے۔ کوئی تیس‘ بتیس سال پہلے میں بنگلہ دیش گیا تھا۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان کو دیکھا‘ ڈھاکہ کے عجائب گھر میں بھی گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا تھا جنہوں نے اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دیے جانے پر احتجاج کیا تھا۔ یہ واقعہ 1952ء کا ہے۔ اس کا مطلب مجھے یہ سمجھ آیا کہ پاکستان بنتے ہی زبان کی بنیاد پر لسانی فسادات شروع ہو گئے تھے۔میرے ذہن میں یہ سوال بھی اُبھرا کہ پنجاب، سندھ، سرحد (خیبر پختونخوا)اور بلوچستان میں بھی ان کی مادری زبانیں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی بولی جاتی ہیں مگر سب نے اردو کو تسلیم کر لیا تھا تو پھر اہلِ بنگال کو بھی یہ تسلیم کر لینا چاہئے تھا، انہوں نے اسے کیوں تسلیم نہ کیا؟ جی ہاں! یہیں سے بات آگے بڑھتی چلی گئی اور بالآخر 1971ء میں بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔
بنگلہ دیش لفظ کا مطلب ہے کہ یہ بنگالی زبان اور بنگالی نسل کے لوگوں کا وطن ہے۔ یہ ٹکڑا بنگالی زبان اور بنگالی قوم کے نظریے پر وجود میں آیا ہے۔ اگلی بات یہ ہے کہ اس کے قیام کے لیے ہمارے اُس ازلی دشمن نے بھرپور کردار ادا کیا ہے جو مسلم قومیت کے نظریے کا دشمن تھا۔ مسلم قومیت کے نظریے کی علمبردار جماعت پاکستان مسلم لیگ تھی جس کی قیادت حضرت قائداعظمؒ فرما رہے تھے۔ یاد رہے! پاکستان کے دو ٹکڑے نہیں ہوئے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا تھا یعنی دو حصوں میں بٹ گیا‘ وہ غلط کہتے ہیں۔ میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔ پاکستان ایک نظریہ ہے اور نظریہ کبھی دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا، نظریہ ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ لہٰذا پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
پاکستان اپنے نظریے کے ساتھ پہلے بھی دنیا کا واحد اور منفرد ملک تھا اور آج بھی دنیا کا واحد اور منفرد نظریاتی ملک ہے۔اس کی نسبت مدینہ منورہ کے ساتھ ہے۔ مدینہ منورہ کا مطلب ایسا شہر ہے جو ہمارے حضور نبی کریمﷺ کی نبوت کے نور سے منور ہے۔ نبوت کے نور کا نورانی کلمہ '' لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ ہے۔ آج کے مینارِ پاکستان لاہور میں جب مارچ 1940ء میں حضرت قائداعظم ؒ نے قراردادِ پاکستان پیش کروائی تھی‘ وہ خطاب کے لیے اٹھے اور اس قرارداد کے حوالے سے خطاب فرمایا تو ڈائس کے سامنے شامیانے کی جھالر پر لکھا ہوا تھا: پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ کا نام ''طابہ‘‘ اور طیبہ‘‘ بھی رکھا تھا اور فرمایا تھا: اللہ نے مجھے یہ نام رکھنے کا حکم دیا تھا۔ یاد رہے! طیبہ اور طابہ کا معنی پاکیزہ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ فارسی زبان سے لیاگیا ہے جس کا معنی ''پاک سرزمین‘‘ ہے یعنی پاکستان کا اگر عربی میں ترجمہ کیا جائے تو وہ طابہ اور طیبہ ہوگا۔ یہ ہے پاکستان کی نظریاتی نسبت جو ریاستِ مدینہ کے ساتھ ہے۔ نہ یہ نسبت ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی نظریہ ختم ہو سکتا ہے۔
جاپان جاپانیوں کے لیے ہے اور جاپانی زبان بولنے والوں کا ملک ہے۔ کوریا بھی ایسا ہی ملک ہے۔ روس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، فرانس سب ملکوں کے ایسے ہی نام ہیں۔ اسی طرح فارسی اصطلاح کے ساتھ افغانستان‘ افغانوں کی سرزمین ہے۔ تاجکستان تاجکوں کی سرزمین اور تاجک زبان بولنے والوں کا ملک ہے۔ ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ سب ملکوں کے نام اسی طرح کے ہیں جن میں علاقے، قومیت اور علاقائی زبان کی روایت ملتی ہے۔ ایران، فارس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں بھی علاقائی زبان اور علاقائی قومیت اور نسلوں کا اظہار ہوتا ہے۔ الغرض ! ساری دنیا کے ملکوں کے نام ایسے ہی ہیں۔ صرف تین ناموں؛ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور القدس شریف کا استثنا ہے۔
ختم المرسلین حضور نبی کریمﷺ نے جو آخری نبوی ریاست قائم فرمائی‘ وہ مدینہ منورہ کی ریاست ہے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق: اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے آخری رسولﷺ کو ہجرت کروائی اور اسی کو آخری رسولﷺ کی حکمرانی کا مرکز بنایا۔ ہمارے مسلم لیگی بزرگوں نے ''پاکستان‘‘ کا نام منتخب کرکے اسے ایک لازوال نظریے کیساتھ ہم آہنگ کر دیا۔ یہ ہم اہلِ پاکستان کا اعزاز ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔
عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور پاکستان الحمدللہ معاشی بھنور سے نکل آیا ہے۔اب الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ گزارش ہے کہ ہر سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنان اور لیڈران پہلے پاکستانی بننے کا حق ادا کریں۔ مفادات میں اولین ترجیح پاکستان کو بنائیں۔ دوسری ترجیح اپنی جماعت کو دیں۔ اپنی جماعتوں کے پرچم ضرور لہرائیں مگر تجویز ہے کہ پاکستانی پرچم ساتھ ضرور لہرائیں اور اس بات کا اہتمام کریں کہ پاکستان کے پرچموں کی تعداد زیادہ ہو بلکہ اس طرزِ عمل کو ایک معیار بن جانا چاہئے کہ جلسوں اور انتخابی ریلیوں اور جلوسوں میں وہ کون سی جماعت ہے جس نے پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار اپنی پارٹی سے بڑھ کر کیا۔
باہمی لڑائیوں، نفرتوں، بدکلامیوں کا جو چلن ایک عرصہ سے ہمارے ہاں رواج پا گیا ہے‘ علماء، صحافیوں اور سیاستدانوں سمیت اہلِ دانش کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر 'چھترول‘ اور اس سے ملتے جلتے غیر اخلاقی الفاظ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ''ریاستِ مدینہ منورہ‘‘ کیساتھ نظریاتی بندھن کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ کے رسولﷺ کے اخلاقی طرزِ عمل کو حرزِ جاں بنائیں۔ آپﷺ نے عبداللہ بن ابی جیسے منافق کی بھی ہمیشہ عزت کی۔ وہ حضور نبی کریمﷺ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں برے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرتا تھا مگر حضور نبی کریمﷺ نے اس کی تکریم کرکے مدینہ منور کی ریاست کو اس کی فتنہ پروری سے محفوظ فرما دیا۔ ہم سچے پاکستانی ہیں تو اس سچائی کا تقاضا ہے کہ اپنے مخالفین سے اختلاف کے باوجود ان کا احترام کریں۔ ان کی آرا کا جواب دیں تو مدلل اور انتہائی شائستگی اور انتہائی پاکیزگی کے ساتھ۔ اسی طرح ہمارے ملک میں امن و محبت کی فضا کی فروغ مل سکتا ہے۔ پاکستان زندہ باد!