اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک کی قسمت بنانے والا ہے۔ ہر ایک کا کام بنانے اور سنوارنے والا ہے۔ اس کے لیے فارسی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو انتہائی دلکش اور خوبصورت ہے۔ یہ اصطلاح ہے ''خدائے کِردگار‘‘، جس کا مطلب ہے کارساز، کام بنانے والا۔ ہندوستان پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال سے زائد عرصہ حکمرانی کی ہے، مسلم بالخصوص مغل دور میں ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔''خدائے کِردگار‘‘ کی اصطلاح کا استعمال اس وقت خوب تھا۔یاد رہے! اللہ تعالیٰ تمام جہانوں اور سب انسانوں کا رب ہے یعنی سب کی ضرورتیں پوری فرمانے والا ہے مگر جب مسلمانوں کا کردار ایسا ہو گیا کہ وہ اپنی ضرورتوں کی خاطر دوسروں کی ضرورتوں کو مسلنے اور روندنے لگے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے ''کِرد گار‘‘ نہ رہا۔ ان کی حکمرانی جاتی رہی اور برطانیہ عظمیٰ سارے ہندوستان کا حکمران بن گیا۔انگریز کے یہاں سے جانے کے بعد ہمیں پاکستان کی صورت میں ایک عظیم تحفہ مل گیا۔
پاکستان کا تحفہ اسی صورت میں ملا تھا جب ہندوستان کے وہ مسلمان بھی پاکستان کے حامی تھے جنہیں معلوم تھا کہ ان کے علاقے مجوزہ پاکستان سے دور بھی ہیں اور ہندو اکثریت کے حامل بھی۔ لہٰذا وہ پاکستان کی حمایت کر کے بھی پاکستانی نہ بن سکیں گے اور نہ ہی ان کے علاقے پاکستان میں شامل ہو سکیں گے۔مگر وہ اپنے دیگر مسلم بھائیوں کی خاطر''لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کو چندے دے رہے تھے اور قربانیاں بھی دے رہے تھے۔ یہ ساری نسل اب اپنے اللہ کے پاس جا چکی ہے۔اب نئی نسلیں آ چکی ہیں۔ جذبے روایتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ضرورت ہے اس بات کی کہ ان جذبوں کو ایک ٹھوکر لگائی جائے۔ بالکل اس طرح کی ٹھوکر کہ جب دریا ہموار چلتے چلتے سست پڑ جاتا ہے تواس کے پانی کی روانی کو تیز کرنے کے لیے ایک ٹھوکر بنائی جاتی ہے۔ فارسی میں ''مہمیز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جیسے گھوڑے کو ایڑ لگائی جاتی ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ الیکشن مہم میں پوری قوم کو ایسی ٹھوکر‘ ایسی مہمیز لگانی چاہئے کہ جس سے پاکستانیت کے جذبے تیز ہو جائیں۔ سب پاکستانی بن جائیں اور آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ سیاسی اور مذہبی اختلاف علمی حد تک رہے۔ میں نے بھائی چارے کے جذبے کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی بابرکت اور نورانی فضائوں میں تلاش کیا تو دل مسرت سے جھوم اٹھا۔
تیسری صدی ہجری کے معروف عالم اور مؤرخ امام ابوبکر بلاذری اپنی معروف کتاب ''انساب الاشراف‘‘(270/1) میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول حضور نبی کریمﷺ نے مکہ میں نئے نئے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہے تھے۔ زمین ان پر تنگ کر دی گئی تھی؛ چنانچہ باہمی ہمدردی اور غمخواری کے لیے حضورﷺ نے اپنے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کو بھائی بنایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کو باہم بھائی بنایا۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو بھائی بنایا۔ حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھائی بنایا۔ حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو بھائی بنایا۔ حضرت مصعبؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو بھائی قرار دیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور حضرت حذیفہؓ بھائی بن گئے۔ حضرت سعید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبداللہؓ بھائی بن گئے۔ حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان بھائی چارے کی روایت حضرت انس بن مالکؓ بھی لائے ہیں جسے امام محمد بن اسماعیل البخاری ؒ اپنی کتاب ''الادب المفرد:569‘‘ میں لائے ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ اس حدیث کو ''سلسلہ صحیحہ: 3166‘‘ میں لائے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے مکہ مکرمہ میں بھی بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔
جب حضور کریمﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو چونکہ مہاجرین اپنا گھر بار اور مال و دولت سب مکہ میں چھوڑ آئے تھے لہٰذا ان کو اب اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے انصار کو مہاجرین کا بھائی بنا دیا۔ مہاجرین اور انصار کے بھائی چارے کی قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے تعریف کی اور ان کے جذبوں کو سراہا۔ اللہ کے رسول حضورنبی کریمﷺ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خونی رشتے میں بھائی بھائی (کزن) تھے۔ حضرت ابوطالب جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد تھے‘ وہ آنحضورﷺ کے والد گرامی حضرت عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔ مکی زندگی کی دشوار راہوں میں بھی رسول کریمﷺ اور حضرت علیؓ بھائی بھائی بن گئے اور جب مدنی زندگی کا آغاز ہوا تو وہاں حضور نبی کریمﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت احنف بن قیسؓ کو اپنا بھائی بنایا تھا مگر اپنے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھائی قرار دینے کے ایک منفرد اعزاز سے یوں معزز فرمایا کہ جب حضور نبی کریمﷺ غزوہِ تبوک پر روانہ ہوئے تو حضرت علی المرتضیٰؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا جانشین مقرر فرما دیا، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میدانِ جنگ سے پیچھے‘ عورتوں اور بچوں میں رہنا گوارا نہ کیا اور کر بھی کیسے سکتے تھے کہ وہ حیدرِ کرار تھے۔
حضورﷺ نے بدر سے پہلے جنگی مہمات کا آغاز کیا تو پہلی مہم ''غزوۂ عشیرہ‘‘ میں حضور نبی کریمﷺ کے ہمراہ حضرت علیؓ حیدر کردار تھے۔ بدر کا جو بڑا معرکہ ہوا اس کا آغاز''میدانِ مبارزت‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ وہ سوائے تبوک کے‘ ہر غزوہ میں حضور نبی کریمﷺ کے ہمراہ تھے۔ اب جب وہ تبوک کی جنگ میں نہیں جا رہے تھے تو غمزدہ تھے مگر حضور نبی کریمﷺ نے حیدر کرارؓ کو ایک منفرد اعزاز سے نوازتے ہوئے فرمایا: علی!(رضی اللہ عنہ) آپ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ ہارون علیہ السلام کا جو مقام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاں تھا‘ وہی تمہارا مقام میرے ہاں ہے، یعنی جس طرح وہ موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اسی طرح آپ بھی میرے بھائی ہو اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے تو ان کو اپنا جانشین بناتے اسی طرح میں تمہیں اپنا جانشین بنا رہا ہوں۔ہاں! مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں یعنی وہ دونوں بھائی بنی تھے‘ ہم بھائی تو ہیں مگر نبوت مجھ پر ختم ہے۔
ہماری جدید دنیا میں ایک سیاسی رواج ہے کہ دو ملکوں میں غریب ملک کے کسی شہر کو امیر ملک کے کسی شہر کا ''جڑواں شہر‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے جیسا کہ لاہور کو استنبول کا جڑواں شہر قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر ملک اپنے برادر ملک کے شہر کو بھی اُس سطح پر لانے میں تعاون کرے گا جس سطح پر اس کا اپنا شہر ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ آتی ہے کہ جیسے یہ تصور ہمارے حضور نبی کریمﷺ سے لیا گیا ہے۔ اگر تمام ممالک لڑ لڑ کر مخالف کے شہروں کو برباد کرنے کے بجائے بہتر کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو ہماری دنیا امن اور بھائی چارے کی ایک لازوال مثال بن سکتی ہے۔
اسرائیل جو غزہ کو بمباری سے برباد کر چکا ہے اور بربادی سے اس کی سنگدلی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں اس موقع پر نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ، سیدنا حیدر کرارؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے بھائی چارے کی مثال دے کر انسانیت کے شہروں کو امن کی طرف لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم خود تو اس کی مثال پیش کریں۔ پُرامن جمہوریت کی مثال جو دنیا میں موجود ہے‘ بہت سارے ملکوں میں پُرامن انتقالِ اقتدار کی جو روایت موجود ہے‘ اسے اپنے ملک پاکستان میں تو رواج دیں۔ نصیحت کے قابل تو اس کے بعد ہی ہوں گے۔
دریا پر جو ہیڈورکس بنتا ہے وہاں سے دو یا تین بڑی نہریں نکلتی ہیں۔ ہیڈ ورکس کے ذریعے نہروں میں جانے والے پانیوں کو ٹھوکریں لگائی جاتی ہیں چنانچہ پانی تیز چلتا ہے۔ اسی طرح جہاں دو دریا ملتے ہیں اس جگہ کو ''سنگم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی ہیڈ ورکس بنتا ہے اور بڑی نہریں نکلتی ہیں۔ بڑی نہروں سے چھوٹی نہریں نکلتی ہیں تو وہاں بھی چھوٹی سطح پر مندرجہ بالا سسٹم کام کرتا ہے۔ نہر کا پانی چلتے چلتے سست ہو جائے تو وہاں پختہ ڈھلوان بنا دی جاتی ہے اس کے ذریعے پانی رفتار پکڑ لیتا ہے۔ زراعتی زمین کے آخری حصے کو ''ٹیل‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی آخر میں کھالوں اور نالوں کے ذریعے ساری زمین کو سیراب کر دیا جاتا ہے۔ اسی سے باغات میں پھل لگتے ہیں، طرح طرح کی فصلوں کا اناج منڈیوں میں آتا ہے جو دکانوں اور ریڑھیوں کے ذریعے سب انسانوں تک پہنچ جاتا ہے اور اسی طور زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔ سیاست کا نظام بھی اسی طرح ہے کہ اسے چلتے رہنا چاہئے۔ اسے استحکام ملے گا تو معیشت مستحکم ہو گی۔ الحمد للہ! پاکستان کی حکمرانی کا نظام‘ ملک کے سیاسی نظام کو رواں کرنے پر کام شروع کر چکا ہے۔ سیاستدانوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنے مفاد کی جمہوریت کو تو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں مگر بلدیات کی سیاست کو بے اختیار رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاسی نظام کی افادیت کا پانی ''ٹیل‘‘ تک نہیں پہنچتا۔ تجویز یہ ہے کہ سیاستدان اس پر بھی میثاقِ جمہوریت سامنے لائیں۔ اقربا پروری کے خلاف بھی میثاقِ جمہوریت سامنے لائیں۔ پاکستان اور پاکستان کے محافظ اداروں کے ساتھ محبت کا میثاق بھی سامنے لائیں تو خدائے کِردگار ہماری اصلاح فرما دیں گے۔ حضور نبی کریمﷺ اور حیدر کرارؓ کا باہم بھائی چارہ ہم اپنے پاکستان میں لاگو کریں گے تو پاک وطن اور اہلِ پاکستان زندہ باد ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔