اللہ علیم و حکیم کی حکمتوں پر صدقے‘ قربان! جنوبی افریقہ جیسا انسان دوست ملک عالمی عدالتِ انصاف میں جا پہنچا۔84 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کر دی کہ اسرائیل متواتر غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے‘ لہٰذا فوراً جنگ بندی عمل میں لا کر اس پر پابندی لگائی جائے‘ اسے سزا سنائی جائے۔ نیدرزلینڈ کے شہر ''ہیگ‘‘ میں عالمی عدالت کا ہیڈ کوارٹر ہے‘ وہاں امریکہ، روس، چین، فرانس، آسٹریلیا، برازیل، جرمنی، مراکش، لبنان اور بھارت وغیرہ کے 16جج تشریف فرما ہوئے۔ عالمی قوانین کے نامور ماہرین ہال میں بیٹھے تھے۔ سماعت کا آغاز ہوا۔ سارا جہان اس سماعت کا منظر ٹی وی سکرینوں پر لائیو ملاحظہ کر رہا تھا۔ جنوبی افریقہ نے دنیا بھر کے ان ماہرینِ قانون کی خدمات حاصل کی تھیں جو بین الاقوامی قوانین کے ماہر تھے‘ انسانیت کے ہمدرد تھے اور فلسطینی عوام کے دکھوں اور اسرائیل کے مظالم سے آگاہ تھے۔ اس طویل سماعت کو میں نے بھی ملاحظہ کیا۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ جنوبی افریقہ کے اُس وکیل سے آغاز کروں کہ جن کی عمر47سال کے لگ بھگ ہے اور جو ہانسبرگ کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے تورات کی تلاوت شروع کر دی ''اور خداوند ہمارے خدا نے اسے (دشمنوں کے ملک کو) ہمارے حوالے کر دیا اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹوں کو اور اس کے سب آدمیوں کو مار لیا(یعنی قتل کردیا) اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہروں کو لے لیا(قبضہ کر لیا) ہر آباد شہر کو عورتوں اور بچوں سمیت بالکل نابود کر دیا اور کسی کو باقی نہ چھوڑا لیکن چوپایوں اور شہروں کے مال کو‘ جو ہمارے ہاتھ لگا‘ لوٹ کر ہم نے اپنے لیے رکھ لیا‘‘ (تورات، باب: 3، آیات: 34 تا 36)۔ جنوبی افریقہ کے جس وکیل نے (تحریف شدہ ) تورات کی مندرجہ بالا آیات پڑھیں اس کا نام ٹیمبیکا (Tembeka Ngcukaitobi) ہے۔جنابِ ٹیمبیکا نے عالمی عدالت انصاف کا یہ اصول بھی بتایا کہ جو گروہ کسی گروہ کی نسل کشی کا ارادہ کرے‘ اس کا ذرا سا اظہاربھی ہو جائے تو وہ نسل کشی کا مجرم قرار پائے گا۔ عالمی عدالت کے ہال میں ایک بڑی سی سکرین لگی ہوئی تھی۔ مذکورہ (تحریف شدہ) آیات کے بعد جنابِ ٹیمبیکا نے وہ وڈیو چلا دی جس میں اسرائیل کی آرمی کا ایک دستہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے گیت گا کر اپنے مذموم ارادے کا اظہار کر رہا تھا۔
قارئین کرام! مذکورہ وڈیو کی رپورٹنگ کو میں نے بڑی محنت کے بعد اسرائیل کے اخبار (Haaretz) کی 5 نومبر 2023ء کی اشاعت میں ڈھونڈ نکالا۔ تفصیل اس طرح ہے کہ اسرائیلی فوج کے ''نحل بریگیڈ ٹریننگ مرکز‘‘ پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صہیونی فوج کے ربی امیکائی فرائیڈمین (Rabbi Amichai Friedman) کو بھی بلایا گیا۔ اپنے خطاب میں فرائیڈ مین نے کہا ''وہ وقت آنے والا ہے کہ نہ کوئی قتل ہو گا‘ نہ کوئی یرغمالی بنے گا‘ نہ ہی لوگ زخمی ہوں گے۔ (یعنی کوئی فلسطینی ہی باقی نہ رہے گا اور سب مارے جائیں گے تو اسرائیلی محفوظ ہو جائیں گے) فرائیڈمین کی تقریر‘ جو عبرانی زبان میں تھی‘ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا جو ترجمہ اسرائیل کے اخبار (Haaretz)نے شائع کیا ہے‘ وہ یہاں درج کروں تاکہ قارئین بھی ان کے خیالات ملاحظہ کر لیں:
Whole country is ours, including Gaza and Lebanon, the entire promised land. we were born 75 years ago as a new people, we built a foundation, we started working on our bodies, and we grew, finding our identity and what we wanted to do with ourselves. What is good, bad, evil and impure and what we wanted to preach to the world, we will achive with god's help. Israel teaches the world what goodness and justice are and what morality and values are. Rabbi voving that israel "will eliminate evil and uproot hamas, we will destroy our enemies destroy all of them".
''سارا ملک (مشرقِ وسطیٰ) ہمارا ہے۔ اس میں غزہ، لبنان اور وہ ساری مقدس زمین شامل ہے‘ جس کا ہم سے خدا نے وعدہ کیا ہے۔ ہم 75سال (قیامِ اسرائیل کے وقت) پیدا ہوئے۔ بطور ایک نئی قوم کے ہم نے بنیاد ڈالی۔ ہم نے اپنی جسمانی قوت سے کام کا آغاز کیا اور آگے بڑھے۔ ہم نے اپنی پہچان حاصل کی اور جو چاہا‘ کیا۔ کیا اچھا ہے‘ کیا برا ہے‘ کیا شیطنت ہے اور کیا گندگی ہے (ہمیں پتا ہے)۔ ہم نے جو چاہا وہی دنیا کو سمجھایا۔ ہم خدا کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کریں گے۔ اسرائیل ساری دنیا کو سکھائے گا کہ اچھائی کسے کہتے ہیں‘ انصاف کسے کہتے ہیں‘ اخلاقیات کیا ہوتی ہیں اور اقدار کیا ہیں۔ سب کو تعلیم ہم نے ہی دینی ہے۔ ہمارا عزم اور قسم ہے کہ اسرائیل برائی کو ملیامیٹ کر دے گا۔ حماس جیسی خود رو بوٹیوں کو اکھاڑ پھینکے گا۔ ہم اپنے دشمنوں کو تباہ کر دیں گے۔ان سب کو ملیامیٹ کر دیں گے‘‘۔
قارئین کرام! جنوبی افریقہ کے وکیل نے عالمی عدالت انصاف کے معزز جج حضرات سے کہا کہ اس گفتگو کے دوران آپ نے دیکھا کہ وہ نسل پرستانہ نعرے لگا رہے ہیں‘ رقص کر رہے ہیں‘ گا رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں یعنی جو ان کی نیت اور نظریہ ہے اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ جناب ِٹیمبیکا نے عالمی عدالت انصاف کے سامنے ایک اور وڈیو چلائی۔ اس میں ''الشجاعیہ‘‘ کے علاقے میں‘ جو غزہ کا ایک محلہ ہے‘ فوج کا کمانڈر ایک جگہ میزائل گرانے کا حکم دیتا ہے‘ میزائل گرتا ہے اور وہ علاقہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ٹیمبیکا اب جسٹس صاحبان اور عدالت کی خاتون سربراہ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ یہ ساری بربادی ان لوگوں کی ریاستی پالیسی ہے۔ یہ غزہ کے ہر گھر اور ہر فرد کو قتل کر رہے ہیں لہٰذا اسے فوراً روکا جائے اور ان جرائم پر اسرائیل کے ذمہ داران کو سزا دی جائے۔
جب رحمتِ دو عالم حضور نبی اکرمﷺ کی شانِ اقدس میں توہین کا ارتکاب کیا گیا‘ آپﷺ پر نازل ہونے والی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید کو بار بار نذرِ آتش کیا گیا تو کہا گیا کہ اس کتاب میں دہشت گردی کی تعلیم ہے‘ نعوذ باللہ! آج دنیا کے ایک عالمی فورم پر سارے جہان کے لوگوں نے دیکھا کہ دہشت گردی کا ارتکاب کون کر رہے ہیں اور وہ لوگ کیا پڑھ کر یہ کر رہے ہیں۔ جس وقت قرآنِ حکیم کو مغربی ممالک میں نذرِ آتش کیا جا رہا تھا‘یعنی آج سے کوئی بارہ‘ چودہ سال قبل‘ اس وقت میں نے ایک کتاب لکھی تھی ''میں نے بائبل سے پوچھا قرآن کیوں جلے؟‘‘۔ اس کتاب میں تحریف شدہ تورات کے ایسے اقتباسات بھی شامل کیے گئے تھے جو نسل پرستانہ اور مذہبی منافرت کے احکامات دیتے ہیں۔ میں نے اپنی اس کتاب کو عربی اور انگریزی میں ترجمہ کرا کے بھی شائع کیا۔ مذکورہ کتاب کو دنیا کے تمام عالمی فورمز کے ذمہ داران اور اہم شخصیات کو بھیجا۔ اس کے بعد جب میں مدینہ منورہ گیا تو وہاں کے مشہور عرب عالم الشیخ ابو عامر نے یہ کتاب پڑھ رکھی تھی‘ انہوں نے میری ضیافت کی۔ عرب علماء کو بلایا۔ مسجد قبا کے خطیب‘ جنہوں نے یہ کتاب پڑھی ہوئی تھی‘ کو جب معلوم ہوا کہ میں مدینہ منورہ میں آیا ہوں تو انہوں نے اپنے گھر پر میری ضیافت کی اور فرمایا: آپ کی یہ کتاب عالمِ اسلام کی طرف سے فرضِ کفایہ ہے۔ ان کا یہ جملہ مجھ جسے خطا کار اور طالبعلم کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
راقم کی تحریک پر کتنے ہی نامور صحافیوں نے بین الاقوامی فورمز پر اسلام اور قرآنِ مجید کا دفاع کرتے ہوئے تحریف شدہ تورات کے حوالے دیے‘ ان سب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسی ہی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ حقائق دنیا کے ایک سب سے بڑے فورم یعنی عالمی عدالتِ انصاف تک جا پہنچے اور سارے جہاں کو پتا چل گیا کہ دہشت گردی کی نیت و نظریہ کہاں سے لیا گیا ہے۔ یہاں میں گزارش کرنا چاہوں گا اپنے اُن اہلِ اسلام سے کہ جو مسلمانوں ہی کو کافر قرار دیتے ہیں اور پھر ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں‘ ایسی شدت و شفاوت بھی اسلام اور قرآنِ مجید کی توہین کا باعث بنتی ہے۔ سب انسانوں کے لیے سراپا رحمت بن کر آنے والے سرکارِ مدینہ حضور نبی کریمﷺ کی توہین کا باعث بنتی ہے۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ دنیا اور آخرت کی رسوئی ہے۔
اے اہلِ اسلام، اے اہلِ پاکستان! شدت و شفاوت اور خونریزی صہیونی یہود کا شیوہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اہلِ کرم اور اہلِ رحم بنیں۔ سچے پاکستانی بن جائیں۔ موجودہ مخدوش عالمی حالات میں اپنے وطن میں ہونے والے انتخابات کو پُرامن بنائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے معاون بن جائیں۔ غلطیوں کی اصلاح اچھے اخلاق اور مثبت انداز سے کریں۔ اپنی نسلوں کے لیے کریمانہ اخلاق کے رویے چھوڑ کر جائیں۔ پاکستان زندہ باد!