اللہ ذوالجلال کی توحید کا اعلان '' لا الہ الا اللہ‘‘ ہے‘ ختم المرسلینﷺ کی رسالت کا اعلان ''محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ دونوں کا اعلان جس آخری آسمانی کتاب میں ہے اس کا نام ''قرآن‘‘ اور ''فرقان‘‘ ہے۔ پاکستان کی عسکری تاریخ کو اس وقت لگے چار چاند جب میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر جناب شہباز شریف نے بطور وزیراعظم قلم اٹھایا اور جو نام لکھا‘ وہ ایک حافظِ قرآن کا نام تھا۔ پاک وطن کی 77 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا تھا۔ امتیاز یہ تھا کہ جناب سید حافظ عاصم منیر نے قرآن مجید کی دہرائی کرکے اپنے حفظ کے ارمان کو باکمال کیا تو حرمین شریفین کی سرزمین پر کیا۔ طرۂ امتیاز یوں بھی اپنے جمال کو پہنچا کہ سعودی عرب میں دو سالہ قیام نے عربی زبان میں کلام اللہ اور قرآن مجید کے ترجمہ و تفہیم کو آسان کر دیا۔
قارئین کرام! حقائق پر مبنی میں نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ایران نے جب پاکستان کے صوبہ بلوچستان پر حملہ کیا تو اس پر ہمارے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر نے جو کچھ کیا‘ جیسا کردار ادا کیا اس عسکری کردار سے قرآن کی خوشبو سارے جہان میں پھیل رہی ہے جس میں ہر لمحے کا پیغام امن وامان ہے۔ کیسے؟ ملاحظہ ہو قرآن کا پیغام جو قیامت تک ہے‘ مومنوں کے نام۔ فرمایا ''اسے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی خبر لے کر آ جائے تو اس خبر کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ جہالت کی وجہ سے کسی قوم (ملک) پر حملہ آور ہو جائو پھر جو کر بیٹھو تو اس پر شرمندگی سے منہ چھپاتے پھرو‘‘ (الحجرات: 6)۔
ایران جو ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے‘ وہاں علماء کرام کی حکومت ہے‘ حفاظِ قرآن کی حکومت ہے۔ مجھ جیسا قرآن مجید کا طالب علم سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں سے بغیر تحقیق کے حملہ ہوگا۔ یہ ہو گیا تو میرا دل پاش پاش ہو گیا کیونکہ علماء کرام کی حکمرانی میں قرآنی کردار کے برعکس کردار ہو تو یہ ہم جیسے اہلِ درد کو درد سے دوچار کر دیتا ہے۔ کہا گیا کہ ہم نے دہشت گردوں پر حملہ کیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کرنا اور اجازت لے کر باہم مل کر کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ یکطرفہ کارروائی جارحیت ہے! دوسری بات یہ ہے کہ جس گھر پر حملہ ہوا‘ وہاں معصوم بچے شہید ہوئے‘ دو بچے زخمی ہوئے اور بچوں کی ماں بھی زخمی ہوئی۔ واضح ہو گیا کہ قرآن کے مندرجہ بالا فرمان کو نظرانداز کیا گیا۔
اگلی بات یہ تھی کہ غلطی ہو گئی تھی تو قرآن مجید کے مندرجہ بالا فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے ندامت کا اظہار کیا جاتا اور معذرت کر لی جاتی مگر اس کام میں نہ صرف یہ کہ تاخیر کی گئی بلکہ ایران کے وزیر دفاع کی جانب سے جو بیان سامنے آیا‘ وہ یوں تھا کہ ہم آئندہ بھی ایسا کریں گے۔ اب اس کا مطلب دو برادر مسلم ملکوں میں سراسر جنگ تھا۔ اللہ اللہ! اس جنگ کو ٹالنے پر لگا ہوا تھا تو ایٹمی قوت کی حامل فوج کا سپہ سالار‘ اہلِ اسلام کو بربادی سے محفوظ کرنے کے لیے کوشاں تھا تو دنیا کی چھٹی بڑی فوج کا سپہ سالار۔ جدید ترین میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی کی حامل افواج کا سالار۔ اس سالار کا نام حافظ سید عاصم منیر ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ حکام نے روس، چین اور ترکیہ سے کہا کہ ایران کا کوئی اعلیٰ افسر بھی ندامت و معذرت کا اظہار کر دے یعنی قرآنِ مجید پر عمل کا نمونہ پیش کر دے تو ہم خاموش ہو جائیں گے مگر جب ایسا نہ کیا گیا تو اپنے رب کریم اور اہلِ پاکستان کو جوابدہ سالار پاکستان نے جواب دیا۔ سات عدد اہداف پر حملہ ہوا۔ اس میں چند دہشت گرد ایران کی سرزمین پر مارے گئے۔ ان کے نام بھی بتلا دیے گئے۔ ایران نے تسلیم کیا کہ مارے جانے والے ایرانی نہیں تھے۔ جی ہاں! کسی ایرانی شہری کو خراش تک نہ آئی۔ یہ تھا قرآنِ مجید پر عمل کہ سزا صرف ظالموں کو ملی۔ دنیا بھر میں اعلان ہو گیا کہ یہ پاکستان پر حملہ کرنے والے دہشت گرد تھے‘ جو ایران کی سرزمین پر موجود تھے۔ اب دنیا کو کلبھوشن یادیو بھی دوبارہ یاد آ گیا جو انڈین نیوی کا اعلیٰ آفیسر تھا۔ وہ ایران میں رہتا تھا مگر پاکستان کے صوبے بلوچستان اور کراچی کے چکر لگاتا رہتا تھا۔ وہ دہشت گردی کراتا تھا۔ آفرین ہے پاک افواج کے شیروں پر کہ انہوں نے ایران کا بھرم رکھا۔ کلبھوشن پر ایران میں کارروائی نہیں کی‘ اسے پاکستان میں دبوچا اور اب وہ جیل کاٹ رہا ہے۔ اس کی پاکستان کی جیل میں موجودگی بھارت اور ایران کی یک جہتی کا ایک ثبوت ہے۔ ایک مزید ثبوت ایران نے ذرائع ابلاغ میں زندہ کر دیا۔ اب جو حملہ ایران نے برادر ملک پاکستان پر کیا تو اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر تہران میں موجود تھا۔ گویا یہ اعلان تھا کہ ایرانی کنکر میں جے شنکر کا شر بھی یقینا موجود تھا۔ اس شر کو مزید آگے بڑھنے سے روکنا قرآن کا تقاضا تھا۔ اہلِ پاکستان کا یہ مطالبہ تھا؛ چنانچہ خراجِ تحسین ہے پاک افواج اور اس کے سپہ سالار کے نام کہ انہوں نے اسلامی بھائی چارے کی داد کو بھی سمیٹا‘ حملے کے بعد کی ایرانی معذرت و ندامت کو بھی قبول کیا‘ صبر و حوصلے اور برداشت کے ہمالیہ کو اپنی وردی کا سمبل بنایا‘ اہلِ پاکستان کو خوش کیا اور اہلِ شر کے شر کو بھی دکھ کا کنکر مارا۔ یوں سارے جہاں کو اپنی اخلاقی اور عسکری دھاک کا سندیسہ سنایا۔آخری بات یہ کہ اپنے رب رحمن کا سجدے میں گر کر‘ آنسو بہا کر شکر ادا کیا کہ اے مولا کریم! جو تیرا انعام ہے یہ صرف اور صرف تیرے برکتوں بھرے قرآن کا انعام ہے‘ جو نازل ہوا ہے اس ہستی پر جن کا نام نامی اور اسم گرامی حضرت محمد ذیشان اور عالیشان ہے، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اب ہم اہلِ پاکستان اور اہلِ ایران بھائی بھائی ہیں‘ اپنے رب کے حضور دعا ہے کہ یہ واقعہ نہر پر ایک ٹھوکر اور جھال بن جائے کہ تعلقات کا بہتا پانی جو بہت سست ہو چکا تھا‘ یہ اچھے تعلقات کی رفتار کو تیز کر دے۔ ایران اور عراق سمیت سارے جہاں میں اہل علم کا جو سب سے بلند مرتبہ لقب ہے‘ اسے ''آیت اللہ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی علمی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی۔ کوئی پندرہ سال قبل ایران کے 10 ''آیت اللہ‘‘ علماء تھے‘ ان میں آیت اللہ تسخیری بھی شامل تھے۔ وہ عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کی اس مجلس کے ممبر بھی تھے جو سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بنائی تھی۔ یہ دونوں بزرگ ہستیاں اب دنیا میں نہیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت کرے اور ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین! آیت اللہ تسخیری لاہور میں ماڈل ٹائون میں واقع ایک مدرسہ میں تشریف لائے۔ میں بھی مدعو تھا مگر قدرے لیٹ ہو گیا۔مدرسے سے ان کا قافلہ لاہور گورنر ہائوس کی جانب چلنے کو تیار ہو گیا تو میں پہنچا۔ محترم آیت اللہ تسخیری کو میری آمد کا بتایا گیا۔ وہ مجھ سے ملے اور فرمانے لگے: میں آپ کے ساتھ بیٹھوں گا‘ پھر جائوں گا۔ دوبارہ اندر چلے گئے۔ میرے سامنے کھانے پینے کا سامان رکھا گیا۔ میں نے چند نوالے لیے۔ محترم آیت اللہ تسخیریؒ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: آپ نے تحریکِ حرمتِ رسولﷺ میں جو کردار ادا کیا ہے‘ میں بھی آپ کی تحریک کا ممبر ہوں۔ یقین جانیے! مجھے ان کی اس پُرشفقت ادا نے اپنا اسیر بنا لیا۔ یعنی جتنا بڑا کوئی عالم ہے‘ اتنا بڑا وہ عاجزی اور انکساری والا ہوتا ہے اور حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق: جس نے اللہ کی خاطر عاجزی اختیار کی‘ اللہ اسے رفعت سے نوازتا ہے۔
اسی طرح میں ایران کے سفیر ماشاء اللہ شاکری کو بھی نہیں بھول سکتا جو سکردو میں ایک کانفرنس میں مدعو تھے جس کا عنوان تھا ''حسین رضی اللہ عنہ سب کا‘‘۔ تب سکردو‘ بلتستان اور گلگت میں مذہبی فسادات کافی ہو رہے تھے۔ اس کانفرنس میں راقم نے جو تقریر کی‘ رات کو عشائیہ میں‘ جہاں گلگت و بلتستان کی مذہبی اور سیاسی شخصیات موجود تھیں‘ ان کی موجودگی میں ماشاء اللہ شاکری صاحب نے فرمایا ''آج کی کانفرنس کے مین آف دی میچ مولانا امیر حمزہ ہیں‘‘۔ میری یہ تقریر کئی دن تک ریڈیو پر گونجتی رہی اور جلد ہی علاقے میں امن قائم ہو گیا۔
میں آج اپنے اس کالم کے ذریعے گزارش کروں گا کہ ایران میں محترم آیت اللہ تسخیری جیسے علماء اور سیاستدان آگے بڑھیں‘ ماشاء اللہ شاکری جیسے بیورو کریٹ آگے بڑھیں۔ ہماری طرف سے ہمارے سپہ سالار محترم سید حافظ عاصم منیر صاحب کا کردار واضح ہے جو قرآن کی ضیا پاشیوں میں امن و امان اور اسلامی بھائی چارے کے تحفے اور ہدیے کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں مشاہد حسین سید جیسے کئی دانشور ہیں‘ میرے یہ اچھے دوست بھی ہیں۔ ایسے لوگ دونوں جانب سے آگے بڑھیں۔ میری گزارش ہے کہ ہم اگر مقابلہ کریں تو علم کے میدان میں کریں۔ ''مرگ بر‘‘ کے نعرے اپنے ملکوں میں موجود جہالت اور دہشت گردی کے خلاف لگائیں۔ پاکستان کا پیغام یہی ہے۔ اس پیغام پر ہم یک جہت ہو جائیں۔ یہ علم کا پیغام ہے۔ قرآنِ مجید کا پیغام ہے۔ رحمت دو عالمﷺ کا پیغام ہے۔ اہلِ بیت کرامؓ اور صحابہ کرامؓ کا پیغام ہے۔ اسی میں دنیا اور آخرت کا امن اور امان ہے۔