اللہ تعالیٰ پاکستان کا ترقی اور خوشحالی کے ہر میدان میں حامی و ناصر ہو۔ 8 فروری2024ء کے انتخابات ہو گئے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستانی قوم اور جیتنے والے تمام امیدواران کو مبارکباد دی‘ انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ اس الیکشن کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو‘ ہمارا پیارا وطن امن اور خوشحالی کا مرکز بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم گزشتہ چند سالوں سے سیاسی افراتفری کا شکار ہیں‘ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگردی نے نئے سرے سے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ الیکشن کا انعقاد بھی دہشت گردانہ دھمکیوں کا شکار تھا مگر ہمارے دفاعی اداروں نے شبانہ روز کی محنت سے دہشتگردی کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔ چند واقعات ہوئے مگر امن کے سائے میں الیکشن کی کامیابی کے پھل کو رکابی میں رکھ کر قوم کو پیش کردیا۔اب محترم آرمی چیف تمنا کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستانی قوم نے جن جماعتوں کو اقتدار کا مینڈیٹ دیا ہے‘ وہ باہم مل کر حکومت کریں تو پاکستان آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ اتحاد و اتفاق کی برکت سے 24کروڑ عوام کو بھی معاشی خوشحالی کا پھل ملے گا۔ اقتدار کی رکابی کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے اہلِ پاکستان کو اپنے حصے سے بڑھ کر کھلانے کا عزم کیا تو پاکستان ایک مثالی ملک بن جائے گا۔ جو لوگ اپوزیشن میں بیٹھیں‘ اقتدار کے مزے وہاں بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ایک شیڈو کابینہ بنائیں۔ پولیس اور عدلیہ کی بہتری کیلئے قانون سازی کا پروگرام ایوان میں رکھیں۔ بجلی کی پیداوار اور صنعتوں کو چالو کرنے کا پروگرام لائیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی تجاویز لائیں۔ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو بحال کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو مہار پہنانے کی قانون سازی کریں۔ الغرض اپوزیشن کے ایسے تعمیری اقدامات اسے آئندہ حزبِ اقتدار بنا سکتے ہیں۔ دنیا تو چند روز کی زندگی ہے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ دونوں کا تعمیری کردار انہیں فردوس کا مکین بنا سکتا ہے اس کیلئے مدینہ منورہ کے ایک عظیم سردار کا اسوہ پیش خدمت ہے۔
اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ کو جب مکہ میں ستایا جا رہا تھا تو آپﷺ اپنے ایک صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو یثرب روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں دعوت کا آغاز کیا تو یثرب کے ایک قبیلے ''اوس‘‘ کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے یثرب کے ایک گھر کو اپنا دعوتی مرکز بنایا ہوا تھا۔ حضرت سعدؓ اس مرکز کا جائزہ لینے آئے اور مسلمان ہو گئے۔انہوں نے اپنے قبیلے کو دعوت دی اور شام تک سارا قبیلہ مسلمان ہو چکا تھا۔ حضرت سعدؓ تب 30 برس کے نوجوان تھے۔ حضورﷺ جب یثرب میں تشریف لائے تو یثرب''مدینۃ الرسول‘‘ بن گیا۔ حضورﷺ نے اس کو طابہ اور طیبہ کا نام دیا۔ ان دونوں ناموں کا مطلب پاک سرزمین ہے۔ آج کالم میں ہم نے جائزہ لینا ہے کہ مدینہ طیبہ کے استحکام کیلئے حضرت سعدؓ کا کیا کردار تھا اور ہم کیا کریں کہ ہمارا کردار بھی حضرت سعدؓ جیسا ہو جائے۔ حضرت سعدؓ نے حضور نبی کریمﷺ کے ہمرکاب مکہ کے مشرکین کے خلاف بدر اور اُحد کی جنگ بھی لڑی۔ غزوۂ احزاب کا موقع آیا تو انہوں نے پھر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کی کلائی کے اوپر ایک تیر لگا جس سے خون رکتا نہ تھا‘ اس پر انہوں نے اللہ کے حضورایک دعا کی۔ اس دعا میں حضورﷺ کیساتھ محبت ملے گی‘ سرزمین طیبہ کیساتھ الفت ملے گی اور قبیلہ بنو قریظہ کے لوگ‘ جنہوں نے جنگ کے دوران حملہ آور مشرکوں کے ساتھ ساز باز کر لی تھی‘ ان کو غداری کا مزہ چکھانے کی خواہش ملے گی۔ دعا کے وہ الفاظ‘ جنہیں امام احمدؒ اپنی مسند میں‘ امام ابن ہشام اپنی سیرت میں اور حافظ ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں لائے ہیں‘ یہ ہیں: ''اے اللہ! اگر آپ نے قریشِ مکہ کے خلاف ہماری لڑائیوں کو مزید اپنی تقدیر میں لکھا ہے تو مجھے زندگی دیجئے کیونکہ مجھے ان (بت پرستوں) سے لڑنا بہت مجبوب ہے جنہوں نے تیرے رسولﷺ کو ستایا‘ انہیں جھٹلایا اور انہیں اپنے وطن سے نکالا اور اگر ان کے ساتھ جنگ ختم ہو گئی ہے تو اس زخم کو میرے لیے شہادت کی وجہ بنا دے اور مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک ان کے ساتھ ساز باز کرنے والے اندرونی دشمن بنو قریظہ کے (غداروں کے) انجام سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا نہ کر دے‘‘۔ قارئین کرام! مدینہ طیبہ کی پاکیزہ سرزمین کا محاصرہ کرنے والے دس ہزار مشرکین بھاگ گئے۔ اندرونی دشمنوں کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذؓ نے کیا۔ ان کے تمام جنگجو غداروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔فیصلے کیساتھ ہی حضرت سعد بن معاذؓ کی رگ دوبارہ کھل گئی اورخون بہنے لگا۔ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ شہید ہو گئے۔ جب وہ آخری سانس لے رہے تھے تو ان کی نگاہیں حضورﷺ کے چہرہ مبارک پر مرکوز تھیں اور حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کالم لکھتے ہوئے قاری عمر جٹھول صاحب سے گفتگو چل رہی تھی کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین پاک سرزمین کے بیرونی دشمنوں کیساتھ ایسے عزائم رکھتے ہیں جو حضرت سعدؓ کے تھے اور وہ جو پاک وطن کو نقصان پہنچانے کیلئے دشمنوں سے ساز باز کرتے ہیں‘ ان کے خلاف ہماری ایسی تمنائیں ہیں جو حضرت سعدؓ کی تھیں؟آیئے! ہم سب آگے بڑھیں‘ پاک وطن کو استحکام دیں‘ امن و امان کا نظام دیں‘ باہمی محبت اور رواداری دیں‘ عدل و انصاف کے تقاضوں کی تمیز داری دیں اور جب اس دنیا سے جائیں تو حضرت سعد بن معاذؓ سے ملاقات کریں‘ ایسے وقت میں کہ جب وہ سرکارِ دوعالمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں ۔
آیئے! دوبارہ ساڑھے چودہ سو سال پیچھے‘سرزمین طیبہ کو چلتے ہیں۔ علامہ ناصر الدین البانیؒ سلسلہ صحیحہ‘ امام طبرانی معجم الکبیر اور امام ہشام سیرت میں مرقوم ہیں کہ '' اللہ کے رسولﷺ صحابہ کو لے کر حضرت سعدؓ کے گھر کی جانب چل پڑے‘ آپﷺ اس قدر تیز قدم مبارک چل رہے تھے کہ آپﷺ کی چادر مبارک بار بار گرنے کو ہو رہی تھی۔ نعلین مبارک کے تسمے ٹوٹ گئے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے اس قدر تیز رفتاری کا سبب پوچھا تو فرمایا'' مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ جس طرح حنظلہ کو ہم سے پہلے فرشتوں نے غسل دے دیا تھا‘ کہیں سعد کو بھی ہم سے پہلے فرشتے ہی غسل کیلئے نہ لے جائیں‘‘۔ قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ فرشتوں سے پہلے پہنچ گئے۔ میں کہتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی تیز رفتاری کو دیکھا تو فرشتوں کو حکم دیا ہوگا کہ خبردار! میرے حبیب سے پہلے پہنچ کر پروٹوکول کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ قارئین کرام! اگلا منظر یوں بیان ہوا ہے کہ : حضرت سعدؓ کا جنازہ جب (بقیع) قبرستان کی جانب جا رہا تھا تو کچھ ساتھیوں نے کہا: اسے اللہ کے رسولﷺ! سعد کا جنازہ اس قدر ہلکا ہے کہ ہم نے ایسا بے وزن جنازہ کبھی نہیں اٹھایا۔ حضورﷺ نے بتایا: جنازہ بے وزن کیوں نہ ہو‘ آسمان سے آج اتنی تعداد میں فرشتے اترے ہیں کہ آج سے پہلے نہیں اترے‘ انہوں نے تمہارے ساتھ سعد کی چار پائی کو سہارا دیا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے مزید فرمایا کہ ''یہ وہ صالح بندہ ہے جس کیلئے عرش بھی جھوم اٹھا‘‘۔ لوگو! سورۃ الزمر کی آخری آیات سے دلیل لے کر علما نے لکھا ہے کہ قیامت کو جب ساری کائنات تباہ ہو جائے گی تو عرش تباہ نہیں ہو گا‘ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم اور بڑی شان والی مخلوق ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ حضرت سعدؓ نے اپنے قبیلے اوس کی سرداری کے تخت کو حضور نبی کریمﷺ کی تابعداری اور مدینہ طیبہ کے استحکام اور عظمت و خوشحالی کیلئے وقف کر دیا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب کی محبت سے نوازا اور اپنی عنایات سے بھی مالا مال فرما دیا۔ اے قائدین پاک وطن‘ آیئے! ہم بھی 24کروڑ اہالیانِ پاک وطن کی عظمت و خوشحالی کی خاطر متحد ہو کر اس دیس کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا عزم کریں‘ اس خدمت کا صلہ دنیا میں بھی ملے گا اور اگلے جہان میں بھی‘ ان شاء اللہ!