اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ الرحمن‘‘ میں فرمایا: (رحمن نے) انسان کو بولنا سکھلایا۔ بولنے کے نظام پر ریسرچ کی تو پتا چلا کہ امریکہ کا سائنسی ادارہ جس کا نام ''Max Planck Society‘‘ ہے‘ اس کی متعدد شاخوں میں سے ایک شاخ جرمنی میں بھی ہے‘ پروفیسر انجیلا اس کی ڈائریکٹر ہیں۔ یہ انسانی دماغ کی پروفیسر ہیں اور اُس حصے کی سپیشلسٹ ہیں جو بولنے کے نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے 25 جولائی 2018ء کو اپنی ریسرچ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا:
We propose that language is best described as a biologically determined computational cognitive mechanism that yields an unbounded array of hierarchically structured expressions.
زبان کو حیاتیاتی طور پر طے شدہ کمپیوٹیشنل علمی طریقہ کار کے طور پر بہترین انداز سے بیان کیا گیا ہے‘ اس درجہ بندی کی ایک لامحدود رینج ہے جو بولنے کیلئے بنائی گئی ہے۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ جب انسان بولتا ہے تو دماغ کے کنکشن انتہائی تیزی کیساتھ حرکت میں آتے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کیساتھ معاونت کرتے ہوئے بولنے کے سسٹم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 20 ستمبر 2023ء کے سائنسی میگزین 'New Scientist‘ نے لکھا کہ ایسے لگتا ہے جیسے سارا دماغ بولنے کے عمل میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ 3 جنوری 2024ء کو MIT Department of Brain and Cognitive Sciences نے اپنی ریسرچ میں لکھا:
This language net work is highly selective to language but if is bern harder to actually figure out what is going on in these language regions.
''زبان و بیان کا جو نظام ہے یہ انتہائی اونچی سطح پر زبان و بیان کیلئے منتخب کیا گیا ہے‘ حقیقت میں اسے سامنے لانا بہت مشکل رہا ہے کہ بولنے کے علاقوں میں کیا چل رہا ہے‘‘۔ قارئین کرام! 2018ء سے لے کر 2024ء تک کی تازہ ترین ریسرچ یہی بتاتی ہے کہ انسانی دماغ میں بولنے کا نظام لامحدود ہے‘ دماغ میں بولنے کے علاقوں میں کیا ہو رہا ہے کچھ معلوم نہیں۔ یہ نظام بہت بلند سطح پر وضع کیا گیا ہے۔ اس نظام میں دماغ کے تمام نیورونز اپنا کردار ادا کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دماغی نیورونز کنکشنز کی تبدیلی سے مختلف کردار بھی ادا کرتے ہیں یعنی ایک نیورون متعدد کردار ادا کر سکتا ہے۔انسان کی عمر کیساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی نشوونما پاتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ شعور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس شعور میں دنیا کے اچھے برے تجربات بھی شامل ہوتے جاتے ہیں۔ انسان کے دل و دماغ میں شیطانی وسوسے بھی ڈیرے لگاتے ہیں‘ انسانی نفس بھی اس دنیا کے شر سے متاثر ہوتا ہے۔ فرشتہ خیر اور بھلائی کے خیالات سے انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اب انسان کیا بولتا ہے‘ اس کا اسے اختیار ہے لیکن فائنل کنٹرول اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے؛ البتہ فیصلہ انسان نے کرنا ہے کہ اس نے کس سوچ کے تحت کیا بولنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بولنے کا نظام بھی بنا دیا اور بولنا بھی سکھلا دیا‘ اب انسان کیا بولتا ہے‘ یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ زبان کے ایک جملے سے بھانبڑ مچ اٹھتے ہیں اور یہ بھی زبان سے ادا کردہ ایک جملہ ہوتا ہے جو آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ شیطان چونکہ آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا غضب اور بھڑکائو اس کی جانب سے ہے۔
سوشل میڈیا ایک ہتھیار ہے‘ یہ نہ اچھا ہے اور نہ برا ہے۔ اسے اچھے لوگ استعمال کریں گے تو نتائج اچھے نکلیں گے‘ برے لوگ اسے استعمال کریں گے تو معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہوتا چلا جائے گا۔ لہٰذا شر کو روکنے کیلئے بھی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ نئی حکومت کو اس جانب توجہ مبذول کرنا ہو گی۔ یہ ہٹلر کی تقریروں کے جملے ہی تھے جنہوں نے اس سفاک شخص کو جرمنی کا پاپولر لیڈر بنا دیا تھا۔ اس نے بارہ سال حکومت کی اور اس دوران عوام کو نفرتوں کے بھڑکتے بھانبڑوں میں جھونک دیا۔ نتیجہ دوسری عالمگیر جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔ آٹھ کروڑ انسان مارے گئے‘ جرمنی تباہ ہو گیا۔ تباہی کے بعد بھی ہٹلر کے جیالے اپنے نفرت انگیز نظریات کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے چنانچہ اتحادیوں کو برین واش کا نظام بنانے اور ان کی اصلاح کرنے میں کئی سال لگ گئے۔ آج وہی جرمنی ترقی یافتہ‘ انسان دوست ملک ہے جس نے مظلوم شامی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔
الحمدللہ! پاکستان میں پُرامن الیکشن ہوئے‘ ہمارے اندرونی اور بیرونی دفاع کے ذمہ داروں نے دن رات ایک کرکے انتخابات کو پُرامن بنایا۔ عوام نے سب سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا۔ آرمی چیف نے سب کو مبارکباد دی‘ چیف جسٹس نے گزشتہ زیادتیوں کو بھلا کر عادلانہ ریلیف دیا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ 24 کروڑ عوام کیلئے مل کر بیٹھنا ہے‘ ان کی معاشی حالت کو سنوارنے کا عزم کرنا ہے۔ کوئی ایک جماعت تنہا یہ نہیں کر سکتی‘ سب کو مل کر آگے بڑھنا ہے۔ میثاقِ معیشت کرنا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیڈر حضرات گفتگو کریں کہ ملک کو معاشی بحران سے کیسے نکالیں‘ سب اپنی تجاویز دیں۔ صحت کے نظام پر گفتگو کریں۔ ہماری ہر گفتگو کو فرشتے لکھ رہے ہیں۔ گفتگو کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ جملے ہمارے وطن عزیز کو عدم استحکام سے بھی دوچار کر سکتے ہیں اور استحکام سے بھی ہمکنار کر سکتے ہیں۔ استحکام ملے گا تو 24 کروڑ لوگوں کو جو خیر و برکت ملے گی‘ وہ عظیم اجر بن جائے گا۔ دنیا آئی ٹی کے شعبے میں اب AI یعنی مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ ایلون مسک دماغ میں چپ لگا چکا ہے‘ دنیا کی مختلف کمپنیاں اب اس دوڑ میں بھاگم بھاگ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہم ابھی تک آپس میں ایک دوسرے کو گرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ گفتگو کی تمام قوت Chat Gpt پر منفی انداز میں صرف کرنے کے بجائے مثبت میدان میں آگے آئیں‘ اپنے نوجوانوں کو علم کے میدان کا شہ سوار بنائیں‘ زراعت کو جدید سائنسی بنیاد پر ایک صنعت بنانے کا عزم کریں۔ ہمارے سیاستدان اور دانشور ان موضوعات پر گفتگو کریں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے ہی موضوعات پر مذاکرے ہوتے ہیں۔ پولیس کیسے بہتر ہو گی‘ لوگوں کو عدالتوں میں جلد انصاف کیسے ملے گا‘ ان مسائل پر گفتگو کریں۔ ہمارے اینکرز موضوع کے مطابق دانشور اور سائنسدان حضرات کو بھی اپنے پروگراموں میں بلائیں۔معاشرے دنیا میں اعلیٰ مقام تب پاتے ہیں جب علم پر مبنی نئے نئے نظریات سامنے آتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں بڑی ذہانت ہے۔ ہم ان کیلئے چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائیں‘ سستی بجلی کے منصوبے بنائیں‘ بجلی کی قیمتوں کو اس سطح پر لے کر آئیں کہ ہم چین اور دیگر ملکوں کے صنعتی مال کا مقابلہ بین الاقوامی منڈیوں میں کر سکیں۔ ہم کاریں بھی بناتے ہیں تو اس پر اجارہ دار بنا دیتے ہیں۔ جب تک صحتمند مقابلے کا رجحان پیدا نہ ہوگا‘ ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ اس رجحان کی آبیاری کیلئے ہمارے وزرا‘ ممبران اسمبلی و سینیٹ اور قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین آکر گفتگو کریں۔ جو ممبر کسی شعبے میں بھی گفتگو نہ کر سکے‘ اس کے بارے میں عوام کو بتایا جائے تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ انہوں نے کیسا نمائندہ اسمبلی میں بھیجا ہے اور ان ایوانوں نے کسی صلاحیت کا مالک چنا ہے۔ ہمارے پاس وقت انتہائی کم ہے‘ دنیا جنگ کی جانب لپکتی چلی جا رہی ہے۔ ہم ایٹمی پاور ہیں ہم نے وہاں بھی پُرامن کردار ادا کرنا ہے‘ یعنی ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے سیاسی استحکام کی جانب اس تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہے جس تیزی کا تقاضا ہے۔ آئیے! اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتِ گویائی کو اپنے خاندان‘ اپنے آس پڑوس‘ اپنے شہر اور اپنے پیارے ملک کی فلاح کیلئے صرف کریں اور سب آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ پاکستان زندہ باد!