اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ''العدل‘‘ ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوائے عدل کے کچھ سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ دنیا آزمائش کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں مکمل عدل کا ملنا ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر ایک قاتل نے دس یا بیس لوگوں کو قتل کیا۔ اگر عدل کرتے ہوئے جج اسے سزائے موت دیتا ہے تو عادل جج نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔ حضور کریمﷺ کے ایک فرمان کے مطابق‘ اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے تلے مقام عطا فرمائے گا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایک قتل کی سزا تو قاتل کو مل گئی' باقی ماندہ مقتولوں کی سزا کا کیا بنے گا؟ ایسے قاتل کو باقی افراد کے قتل کی سزا قیامت کے دن ملے گی۔
کئی سال قبل اسلام آباد میں ایک تقریب میں میری ملاقات سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سلطان بشیرالدین محمود (ستارہ امتیاز) سے ہوئی۔ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے اہم ساتھی تھے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنایا۔ اسی وقت مجھے پتا چلا کہ ان کے ایک بیٹے پاک فوج میں میجر ہیں۔ چند روز قبل ان کی پریس کانفرنس سنی تو وہ شکوہ کر رہے تھے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی نو مئی کے ملزمان کو سزا نہیں ملی۔ اب وہ ماشاء اللہ میجر جنرل بن چکے ہیں۔ میجر جنرل احمد شریف چودھری آئی ایس پی آر کے ڈی جی ہیں۔ ان کے والد سلطان بشیر محمود نے قرآن مجید کے ابتدائی حصے کی سائنسی تفسیر بھی کی ہے۔ ان کی دیگر کتب میں ''قیامت اور حیات بعد الموت‘‘ انتہائی اہم ہے۔ مجھے چونکہ سائنس اور متعلقہ شعبوں سے انتہائی شغف ہے‘ لہٰذا میں اس کتاب کا دو بار مطالعہ کر چکا ہوں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آزمائش کے اس ظاہری جہان میں عدل کا نظام بے لاگ ہونا چاہیے اور یہ سب کو جلد از جلد میسر ہونا چاہیے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر نو مئی کے ایک سال بعد بھی کیسز کا فیصلہ نہیں ہو رہا‘ مزید نجانے کتنا وقت گزر جائے گا تو وہاں ہم جیسے ہما شما کا کیا حال ہوگا؟ قوم کو چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ سے بہت سی امیدیں ہیں‘ دعا ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں۔ میجر جنرل احمد شریف نے واضح کردیا ہے کہ وہ اقدامات جو پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں‘ غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں اور اس زد میں ادارے کا بھی کوئی فرد آتا ہے‘ چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز رہا ہو تو عدل کی راہ میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جنرل سید عاصم منیر کے عہد میں ایسی مثالیں قائم ہو چکی ہیں‘ اور مزید قائم ہونے جا رہی ہیں تو ان سے پاک وطن مزید آگے بڑھے گا۔
ہمارے عظیم دوست چین کے تعاون کے ساتھ ہم اپنا چاند مشن بھی الحمدللہ کامرانی کے ساتھ لانچ کر چکے ہیں۔ یوں پاکستان پہلی مسلم ایٹمی پاور بننے کے بعد عالم اسلام کی پہلی خلائی قوت بننے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔ مزید آگے بڑھنے کیلئے ہمیں ایک مضبوط معاشی قوت بننا ہوگا اور اس کیلئے سی پیک اور گوادر پورٹ پروجیکٹ کی تکمیل انتہائی ضروری ہے اور الحمد للہ وہ جاری و ساری ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک سعودی عرب ہر منصوبے میں ہماری مدد کرتا آیا ہے۔ اب بدلتے حالات میں سعودی عرب اور پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ باہمی تجارت کے ذریعے مستقبل کے تعلقات کو مضبوط کریں گے‘ اس سے ہماری معاشی حالت مضبوط ہو گی‘ پاکستان مضبوط ہوگا۔ پاک وطن مضبوط ہوگا تو عالمی برادری میں اپنے پُروقار مقام کو عدل و انصاف کے قیام میں بھرپور طریقے سے استعمال کر سکے گا۔
اس وقت عالمی امن کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سے ہے۔ غزہ میں بے گناہوں پر آتش و بارود برس رہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر‘ وسطیٰ غزہ اور خان یونس میں بمباری کرکر کے اہلِ فلسطین سے کہا کہ وہ رفح میں چلے جائیں‘ چنانچہ اس وقت پندرہ لاکھ لوگ رفح اور گردو نواح میں خیمے گاڑ کر بیٹھے ہیں مگر اسرائیل نے وہاں بھی فضا سے پمفلٹ گرا دیے ہیں کہ یہاں سے بھی نکل جائو۔ ساتھ ہی ٹینک لاکر کھڑے کر دیے ہیں۔ اس صورتحال میں چین کے صدر شی جن پنگ نے پیرس میں فرانس کے صدر میکرون سے ملاقات کی۔ دونوں نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے وہ حل چاہیں گے جس سے بین الاقوامی قانون کو سامنے رکھتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام حاصل ہو سکے۔ دوسرے لفظوں میں رفح سے اہلِ فلسطین کے زبردستی انخلا سے عالمی امن و استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ امریکی حکام کا ایک طبقہ بھی اسی مؤقف کا حامل ہے‘ مصر بھی کہہ چکا ہے کہ اسرائیل نے رفح پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے۔ سعودی عرب نے اس پر خاصا سخت مؤقف دیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کووارننگ دی ہے کہ اس کی قابض فوج رفح کو اس طرح ٹارگٹ کرنے جا رہی ہے جیسا کہ اس کے خونیں اور طوفانی دھاوے نے پوری غزہ پٹی کو خون آلود اور غزہ کے رہائشیوں کو بے گھر کر دیا۔ جی ہاں! اسرائیل کو وارننگ کا مطلب واضح ہے کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اسے اہلِ پاکستان! یاد رکھیں۔ سعودی عرب‘ مصر‘ پاکستان‘ متحدہ عرب امارات‘ اردن اور قطر کی پُرامن افواج غزہ میں تعینات ہو سکتی ہیں۔ بات چل رہی ہے‘ لہٰذا ہمیں وہاں کردار ادا کرنا ہے اور جس قدر جلد ہو سکے اپنے ملک میں حالات کی اصلاح کرکے سیاسی اور معاشی استحکام لا کر ملک کو آگے بڑھانا ہے۔ ہماری جغرافیائی پوزیشن اور 25کروڑ عوام کی تعداد بھی یاد دہانی کرا رہی ہے کہ اندرونی مسائل سے جلد باہر نکلو اور بین الاقوامی برادری میں کردار ادا کرو۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی مختلف پیرائے میں اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ جلد اور تیزی کے ساتھ بڑھنا ہے۔
امریکہ اور یورپ کے حکمران اس وقت سخت پریشر میں ہیں۔ جوبائیڈن کسی عوامی مقام پہ میں جائیں تو Shame on you کے آوازے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ٹونی بلنکن کی پریس کانفرنس میں ایک طالبہ کھڑی ہو گئی‘ جو کہتی ہے: فلسطینی جانور نہیں ہیں‘ اہلِ فلسطین کی نسل کشی کیلئے (اسرائیل کو) فنڈنگ بند کرو۔ جنگ بندی کرو۔ غزہ بارڈر کو ملٹری سے آزاد کرو۔ امریکہ اور یورپ کی تمام یونیورسٹیوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ طلبہ اور طالبات نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی خاطر خیمے لگائے ہوئے ہیں۔ پولیس ان خیموں کو اکھیڑتی ہے تو طلبہ ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے لہراتے ہیں۔ فلسطینی رومال ان کے سروں‘ کندھوں پر ہوتا ہے۔ پولیس گرفتار کرتی ہے تو وہ رہا ہو کر واپس یہیں آ جاتے ہیں۔ وہ ڈنڈے اور ظلم سہہ رہے ہیں مگر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ انسانی محبتوں اور اخوت کا جذبہ ہے۔ اس کا علاقے‘ مذہب‘ رنگ اور زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ اے اہلِ پاکستان! ہمیں دنیا بھر کی انسانیت کے ساتھ کھڑے ہو کر کردار ادا کرنا ہے یا کولہو کے بیل کی طرح اپنے ارد گرد ہی چکر کاٹتے رہنا ہے؟
تین مئی کو عالمی یوم صحافت تھا۔ جنوبی پنجاب میں ڈاہرانوالہ ایک معروف قصبہ ہے‘ یہاں میں نے جامع مسجد ابوہریرہؓ میں افتتاحی جمعہ پڑھایا۔ تمام مسالک کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں تشریف لائے۔ مسجد کی چاروں منزلیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ صحافی برادری کے معروف افراد بھی شامل ہوئے۔ اسرائیل نے جس طرح غزہ میں صحافی برادری کا قتلِ عام کیا‘ اس پر ڈاہرانوالہ پریس کلب کے صدر میاں میر احمد سہروردی‘ قاری سیف اللہ‘ حاجی شوکت‘ حاجی عثمان اور ملک الیاس سمیت سب نے ان تمام صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جنہوں نے غزہ میں جان کی قربانیاں پیش کیں۔ زخمی صحافیوں کی جلد صحت یابی کی دعائیں کی۔ الغرض! اہلِ غزہ کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہر انسان کا دل دھڑک رہا ہے۔ روزنامہ دنیا کابھی اس میں اہم کردار ہے۔ پیغام یہی ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھنے دو۔