آخری الہامی کتاب ''قرآنِ مجید‘‘ ہے‘ اس کتاب کی قوت اور طاقت کے علمی سرچشمے لاتعداد اور بے شمار ہیں۔ آج ہم اپنے قارئین کو صرف ایک سرچشمے سے علم کے جام پلائیں گے۔ میرے دوست عمران ادیب ایک محقق ہیں اور مختلف علمی موضوعات پر تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ ایک ملاقات پر انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ''چیٹ جی پی ٹی‘‘ سے پوچھا: کیا آرٹی فیشل انٹیلی جنس قرآن کا متبادل لکھ سکتی ہے؟ جواب ملا: یہ میری ہمت اور قوت سے باہر ہے۔ دوسرا سوال تھا: تمہارے پاس گزشتہ چودہ سو سالوں کے قرآن کے علم کا ڈیٹا موجود ہے‘ لاتعداد تفاسیر ہیں‘ احادیث کی کتابیں ہیں‘ لاکھوں علما کی تحریر کردہ لاکھوں کتابیں ہیں جو قرآن مجید اور اسلام کے بارے میں ہیں تو کیا اس ڈیٹا کی مدد سے قرآن کی سورتوں کے مثل کوئی سورت لکھی جا سکتی ہے؟ جواب ملا: قرآن کی عربی زبان انتہائی وسیع ہے‘ قرآن کا انداز انتہائی گہرا ہے‘ اس کو اپنانا ناممکن ہے۔ اس کی ایک بڑی قوت مستقبل کی پیشگوئی ہے جیسا کہ موت کے بعد ایک زندگی ہے‘ اس زندگی کی تفصیلات ہیں۔ مصنوعی ذہانت موت کے بعد زندگی کی بات کرے تو اس کا ایک نیا خاکہ اور تفصیلات کیا پیش کر سکتی ہے؟ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے اور میری طاقت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کے بعد جو اگلا سوال تھا کہ جو باقی مذہبی کتابیں ہیں‘ کیا ان جیسی کتاب لکھنے سے بھی قاصر ہو؟ جواب ملا: نہیں! اس معاملے میں بے بسی نہیں ہے‘ ان پر لکھا جا سکتا ہے۔
حضرت محمدﷺ پر قرآن کو نازل ہوئے ساڑھے چودہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ قرآن نے ایک پیشگوئی کی‘ ملاحظہ ہو! ''(اے رسول) آپ ضرور بالضرور ان لوگوں (یہود) کو زندگی کا حریص پائو گے۔ اُن لوگوں میں سے بھی بعض کو پائو گے جنہوں نے (بت پرستی کا) شرک کیا‘ ان میں ہر ایک کی شدید خواہش ہے کہ اسے ہزار سال کی زندگی مل جائے۔ عذاب سے تو پھر بھی وہ زندگی جان نہ چھڑا سکے گی۔ خواہ کسی قدر بھی عمر مل جائے۔ اللہ ان کی حرکتوں کو دیکھ رہا ہے جو یہ کر رہے ہیں‘‘ (البقرہ: 96)۔ قارئین کرام! لمبی زندگی ماضی میں محض خواہشات تک محدود تھی جبکہ آج کے زمانے میں اس پر تجربات کیے جا رہے ہیں۔ 2023ء اور 2024ء ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ میں نے سائنس کا معروف بین الاقوامی جریدہ ''نیچر‘‘ دیکھا تو اس کے ٹائٹل پر ''ہزار سال عمر‘‘ لکھا تھا۔ مزید ریسرچ کی تو برمنگھم (برطانیہ) یونیورسٹی کے پروفیسر آف مالیکیولر بائیو گرونٹولوجی (Biogerontology) جناب Joao Pedro Magalhaes دکھائی دیے‘ جو فرماتے ہیں کہ If we eliminated ageing at the cellular level, humans could live for 1000 years to potentially as long as 20,000 years.
یعنی ہزار سال کا ٹارگٹ حاصل کر کے پھر اسے بیس ہزار سال تک لے جا سکتے ہیں۔ اللہ اللہ! یہی بات حضور ختم المرسلینﷺ کی الہامی زبان مبارک سے ادا ہوئی کہ پہلی خواہش ان کی ہزار سال کی عمر ہے اور پھر یہ خواہش یہیں پر نہیں رکے گی بلکہ آگے بڑھے گی۔ وہ آج بڑھ گئی ہے۔ انٹرنیٹ پہ مسٹر ڈیوڈ وینگر پوچھتے ہیں:If you could live for a 1,000 years, what would you do in those years?یعنی یہاں بھی ہزار سال کی بات ہے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں لندن یونیورسٹی اور University of Essex سے وابستہ عالمی شہرت یافتہ صحافی Victoria Burrows لکھتی ہیں:
Can we live to be 1,000 years old? how science is on a mission to slow aging and extend the human life span.
یعنی ہر جانب ہزار سال جینے کے پروگرام ہیں۔ صدقے قربان قرآن کی صداقت اور قوت پر کہ ہزار سالہ لائف پروجیکٹ پر سب سے زیادہ جو قوم محنت کر رہی ہے‘ جس کے سائنسدان دن رات ایک کیے ہوئے ہیں وہ یہودی ہیں۔ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ یہود ہی سے متعلق ہے۔ اس سورت کے نام میں اُس گائے کا ذکر ہے کہ جسے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس بچھڑے کا بھی ذکر ہے جسے سامری نے سونے سے بنایا تھا اور قوم کو اس کی عبادت پر لگا دیا تھا۔ جب ہزار سالہ عمر کی خواہش کا مذکورہ سورت میں ذکر کیا گیا تو تذکرہ یہود کا چل رہا تھا۔ یہ اس قدر اور اتنی مضبوط ترین پیشگوئی ہے جو آج ساڑھے چودہ سو سال بعد عملی شکل وصورت اختیار کرنے جا رہی ہے۔ یہ قرآن کی قوت اور پیش گوئی کی وہ طاقت ہے کہ جس کے سامنے ''چیٹ جی پی ٹی‘‘ نے اپنی بے بسی اور بے کسی کا اظہار کیا اور یہ اظہار مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔
وہ کیڑے مکوڑے جو ایک خلیے پر زندگی کا مدار رکھتے ہیں‘ ان کی عمر بڑھائی جا چکی ہے۔ چوہوں پر تجربہ کرکے ان کی عمر میں بھی اضافہ کیا جا چکا ہے‘ اب انسانی وجود پر تجربات جاری ہیں۔ قرآنِ مجید کی پیش گوئی کو سامنے رکھیں تو یہ تجربات کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ موت سے چھٹکارا ہرگز نہ ملے گا۔ کسی بیماری اور وائرس کا اچانک حملہ ہو سکتا ہے‘ ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے‘ آگ لگنے سے جان جا سکتی ہے‘ سیلابی پانی سے بندہ مر سکتا ہے۔ ڈی این اے میں چھیڑ چھاڑ سے طبعی عمر بڑھ سکتی ہے مگر نئی جسمانی پیچیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ آتش فشاں پہاڑ اور زلزلے بھی جان لے سکتے ہیں۔ جنگوں کا شکار بھی ہوا جا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جو ایٹم بم چلایا تھا‘ وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں لوگوں کی جان لے گیا تھا۔ انسانیت کو تباہ کرنے کیلئے اب کہیں زیادہ ہلاکت خیز ہتھیارتیار ہو چکے ہیں۔ ایک دن اس زمین نے ویسے بھی تباہ ہو جاناہے۔ جدید سائنس پوری کائنات کی تباہی کی بات تسلیم کر چکی ہے۔ یعنی انسان کب تک جئے گا‘ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ بتاتی ہے کہ لمبی عمر پا گیا تو بھی انسان موت ‘ اللہ کی گرفت اور سزا سے بچ نہ پائے گا۔ آج اہلِ غزہ اور اہلِ فلسطین پر ظلم کے جو پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اس کے ذمہ دار اللہ کی سزا اور گرفت سے بچ نہیں پائیں گے۔
ابھی انسان کی بنیادی خواہش ہزار سال کی ہے‘ یہ خواہش آگے بڑھے گی۔ سورۃ البقرہ نے دونوں حقائق آشکار کر دیے۔ قرآن مجید کی پہلی سورت دعائیہ سورت ہے جس کا نام 'الفاتحہ‘ ہے۔ اس کی آیات صرف سات ہیں۔ اس کی بعد قرآن کی اولین سورۃ البقرہ ہے جس نے ہزار سال اور پھر اس سے اگلی مدتوں کا بتایا۔ قرآنِ مجید کے وسط میں ایک سورت آتی ہے‘ جس کا نام ''بنی اسرائیل‘‘ ہے اس کا معنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہے۔ یہ اولاد ہی آگے چل کر یہود کہلانے لگی۔ اس سورت میں بھی ایک خواہش کا تذکرہ ہے۔ ملاحظہ ہو زندگی کی ہوس کی تیسری قسط ... ارشاد ہوا ''(اے رسول) ان لوگوں کو آگاہ کر دو کہ تم پتھر یا لوہا بن جائو یا اپنے آپ کو کسی (دھاتی) وجود میں ڈھال لو کہ جو تمہارے سینوں میں بہت بڑا (ناقابلِ تسخیر وجود) ہے‘( بچ پھر بھی نہ پائو گے‘ اور کافر) کہتے ہیں: کون ہمیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ (میرے رسول) بتلا دیجئے۔ وہی (دوبارہ زندہ کرکے کھڑاکرے گا) جس نے تم لوگوں کو پہلی بار پیدا کیا‘‘(بنی اسرائیل:50 تا 51)۔ آج یہی کوشش ہو رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایلون مسک نے (نیورا لنک) برین چپ کو ایک انسان کے دماغ میں فٹ کر دیا ہے۔ پروگرام یہ ہے کہ انسانی شعور کو ایک ایسے مصنوعی دماغ کے اندر منتقل کر دیا جائے جس کی صلاحیت اصل انسانی دماغ کے نیورونز اور نیٹ ورک کے مطابق ہو۔ پھر اسے روبوٹک جسم کے ساتھ فٹ کر دیا جائے اور اسے رہتی دنیا تک زندگی دی جائے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ روح تو نہ ہو گی‘ روح تو اللہ کے پاس ہی ہوگی۔ اس پر تفصیلی گفتگو پھر سہی۔ یاد رہے! یہ بودا پن بھی قرآنی قوت کے سامنے ڈھیر ہے۔