اللہ کے آخری رسولﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ ہیں۔ ایک بیٹے ابراہیمؓ کے علاوہ حضور نبی کریمﷺ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہے۔ حضورﷺ کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ حضورﷺ کے سارے بیٹے اور بیٹیاں آپ کی حیات ہی میں وصال کر گئے‘ صرف حضرت فاطمہؓ ہی تھیں جن کا وصال آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہوا۔ اُس وقت حضرت فاطمہؓ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے حضرت حسنؓ ،جو سات سال کے تھے اور چھوٹے حضرت حسینؓ، جو لگ بھگ چھ سال کے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت فاطمہؓ کے یہ دونوں فرزندان حضورﷺ کے دل کی ٹھنڈک اور آنگن کے خوشبودار پھول تھے۔
دس محرم کا دن جوں جوں قریب آتا ہے‘ شہادتِ امام حسینؓ کی مظلومانہ داستان دل کے چاروں خانوں کو غم اور کرب سے لبالب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حضرت حسینؓ ابھی اس دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ حضورﷺ کی چچی نے ایک خواب دیکھا۔ یہ چچی حضرت عباسؓ کی اہلیہ تھیں‘ جو اُمِ فضل کے نام سے مشہور ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بتایا کہ رات میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا۔ حضورﷺ نے پوچھا: کیا دیکھا ہے؟ عرض کیا: انتہائی کربناک خواب ہے۔ فرمایا: بتلایئے تو سہی کیا دیکھا؟ کہا: میں نے ایسے دیکھا کہ جیسے آپﷺ کے جسم کے ایک حصے کو کاٹ دیا گیا ہو اور اس حصے کو میری گود میں رکھ دیا گیا۔ یہ سن کر حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ''آپ نے اچھا خواب دیکھا ہے‘‘۔ پھر خواب کی تعبیر کرتے ہوئے کہا ''ان شاء اللہ فاطمہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا اور وہ بچہ آپ کی گود میں ہو گا‘‘ (سلسلہ صحیحہ)۔ قارئین کرام! یہ خوبصورت ترین بچہ دنیا میں آ گیا اور حضورﷺ نے اس کا نام حسینؓ رکھا۔ حضرت اُمِ فضلؓ کہتی ہیں کہ تعبیر اس طرح پوری ہوئی کہ ایک دن یہ بچہ میری گود میں تھا۔ اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے ننھے حسینؓ کو حضور نبی کریمﷺ کی گود مبارک میں رکھ دیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ حضورﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ پوچھا: کیا ہوا؟ فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے‘ انہوں نے بتایا کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے تعجب سے پوچھا: اِس کو؟ فرمایا: ہاں۔ جبرائیل تو اس کی قبر کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے‘‘ (سلسلہ صحیحہ)۔
اللہ نے اپنے رسولﷺ پر خواب کے ذریعے واضح کر دیا کہ حضرت حسینؓ اپنے نانا کے مبارک جسم کا ایک مبارک ٹکڑا ہیں۔ اب جن لوگوں نے کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے حملے کیے‘ انہوں نے آخری رسولﷺ کے مبارک جسم پر حملے کیے۔ دوسری بات یہ کہ حضرت حسینؓ کا مقام اس قدر بلند ہے کہ ان کی قبر مبارک جس مٹی سے بنی‘ وہ مٹی حضرت جبرائیل نے اٹھائی اور حضورﷺ کے سامنے پیش کی۔ فضیلتِ شہادت حسینؓ کی یہ وہ رفعت ہے جس میں صحابیت اور اہلِ بیت کے جہان کو دیکھوں تو انفرادیت اور خصوصیت صرف اور صرف سیدنا حسینؓ کی قسمت میں ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ کو بتایا '' میرے پاس ایک فرشتہ آیا جو آج سے قبل کبھی میرے پاس نہیں آیا۔ اس نے کہا: آپ کا یہ بیٹا‘ حسین شہید ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اُس زمین کی مٹی بھی دکھلا دیتا ہوں جس میں انہیں شہید کیا جائے گا۔ آپﷺ نے بتایا کہ پھر وہ فرشتہ سرخ رنگ کی مٹی لے کر آیا‘‘(سلسلہ صحیحہ)۔ اللہ اللہ! یہ حقیقت ملحوظ رہنی چاہیے کہ خواب سے آگے بڑھ کر دو حقائق ایسے ہیں کہ جن سے اللہ کے ہاں شہادتِ حسینؓ کی خبر کی عظمت کا پتا چلتا ہے۔ پہلی یہ کہ فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام اس خبر کو لے کر خود حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر سرخ مٹی حضورﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ پھر ایک ایسا فرشتہ آتا ہے جو زمین پر پہلی بار آیا۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ آخری بار‘ آخری رسول کے پاس آیا اور صرف اور صرف شہادتِ حسینؓ کی خبر دینے آیا۔ تربت کی سرخ مٹی بھی حضورﷺ کی خدمت میں لے کر آیا۔ میری جان قربان شانِ حسینؓ پر کہ جس کا اعلان رب رحمن نے کئی سال قبل ہی اپنے حبیب ذی شانﷺ کے سامنے کر دیا۔ سیدنا حسینؓ کی عظمت کو بے شمار سلام۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فرشتہ بھیج کر شہادت کے ساتھ جو اہم ترین خبر دی وہ ''اِبنک ھذا حسین‘‘ آپ کا یہ بیٹا کہ جس کا نام حسینؓ ہے‘ یہ آپ کے جسم کا حصہ اور آپ کا بیٹا ہے۔ مندرجہ بالا احادیث کو امام حاکم اور امام حنبل لائے ہیں۔ علامہ ناصر الدین البانیؒ نے ان کو صحیح قرار دیا۔ حضرت اُمِ فضلؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار کسی بات پر میں نے حضرت حسینؓ کے کندھے پر ہلکی سی چپت لگائی تو حضورﷺ نے کہا ''آپ نے میرے بیٹے کو درد دیا‘‘ (ابن ماجہ)۔ حافظ زبیر علی زئیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی زبان مبارک سے واضح کیا کہ میری اولاد قیامت تک حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے چلے گی۔ فرمایا ''دنیا میں یہ میرے دو پھول ہیں‘‘ (بخاری)۔ امت کیلئے کس قدر خسارہ ہے کہ بڑے پھول کو زہر دے کر مسل دیا گیا تو چھوٹے پھول کر کربلا کی سرخ مٹی میں لہولہان کر دیا گیا۔ یہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس سے بڑھ کر امت کیلئے کوئی کرب‘ کوئی مصیبت اور کوئی تکلیف نہیں۔
حضورﷺ نے فرمایا: لوگو! میں تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم لوگ انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت (اہلِ بیت) ہے (ترمذی‘ صحیح)۔ امام جمال الدین انصاری''لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں '' عترہ‘‘ واحد ہے اس کی جمع ''العتر‘‘ ہے۔ یہ ایک پودا اور بوٹی ہے‘ جو تہامہ اور یمن وغیرہ کے علاقے میں پیدا ہوتی ہے۔ چشمے کا شفاف پانی اس پر بہتا ہے تو افادیت بڑھ جاتی ہے۔ پودے کی صورت میں اس کا بیر جتنا سرخ پھل رسیلا اور مزے دار ہوتا ہے۔ اسی نام سے سبزی بھی ہے۔ ان کی جڑوں کو کاٹا جائے تو دودھ جیسا سفید پانی بہہ نکلتا ہے۔ اس کا پھل سینے کی بیماریوں میں مفید ہوتا ہے۔ امام جمال الدین مزید لکھتے ہیں کہ اس پودے کے تنے اور شاخوں کو شجرۂ نسب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ قارئین! مطلب یہ ہوا کہ حضورﷺ نے عترت کا جو لفظ استعمال فرمایا تو اہلِ بیت کے وسیع دائرے میں۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما حضورﷺ کی عترت ہیں۔ امام جمال الدین یہی مراد لیتے ہیں کہ ''عتر‘‘ کو ''اصل‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی احداث و حوادث اور مشکلات کے بعد پھر اپنی اصل پر آ جاتے ہیں۔ کوفہ کے یزیدی گورنر عبیداللہ بن زیاد نے حضرت حسینؓ کے بچ جانے والے واحد بیٹے حضرت علی بن حسین المعروف زین العابدینؓ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت زینب بنت علیؓ کے دلیرانہ کردار سے اللہ نے انہیں بچا لیا اور آج دنیا بھر میں حسینی اولاد بے شمار ہے مگر یزیدی کوئی نہیں ملتا۔
صحیح مسلم میں وارد حدیث کے مطابق حضورﷺ نے امت کو قرآن کو مضبوطی سے تھامنے کی وصیت فرمائی۔ (قرآن کی بات ہو تو حدیث اور سنت اس میں شامل ہوتی ہے) آپﷺ نے اسے بھاری قرار دیا۔ دوسری بھاری چیز اہلِ بیت کو قرار دیا (سلسلہ صحیحہ)۔ ایک حدیث میں حضورﷺ نے اپنے بعد اختلاف کی صورت میں خلفائے راشدین کی سنت کو تھامنے کی وصیت فرمائی۔ میری تحقیق یہ ہے کہ یہاں دونوں جگہ سیاسی سنت مراد ہے۔ حضورﷺ کا دیا ہوا وہ سیاسی نظام جس میں موروثیت نہیں‘ اقربا پروری نہیں‘ وصیت نہیں‘ بلکہ امت کا یہ حق ہے کہ باہم مشورے سے اپنا حاکم بنائے۔ جب یہ حق چھینا گیا تو حضرت حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہ ہے عترتِ حسینؓ کی خوشبو۔ یہ اہلِ اسلام کی مشترکہ خوشبو ہے۔ یہ انسانیت کی خوشبو ہے۔ آئیے! سب مل کر اس خوشبو سے دل و دماغ کو معطر کریں۔