اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ نے انسانیت کو جس تہذیب سے روشناس کرایا‘ انسانیت کے لیے وہی اعلیٰ و اکمل تہذیب ہے۔ اس تہذیب کا ایک ورق''تہذیب الکمال‘‘ میں مجھے دکھائی دیا‘ جسے امام جمال الدین المزی نے صحیح سند کے ساتھ تحریر فرمایا ہے۔ آپ اپنے زمانے (آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل) کے ممتاز محدثین میں شمار ہوتے تھے۔تہذیبی حسن و جمال کا حامل باکمال صفحہ اس طرح ہے کہ طائف کے وہ قبائل جو بنو ثقیف اور بنو ہوازن کے نام سے معروف تھے اور جنہوں نے حضور نبی کریمﷺ جیسے عظیم مہمان کی میزبانی توہین آمیز فقرہ بازی سے کی تھی‘ آپﷺ کو پتھروں سے زخمی کرکے بدتمیزی کو اپنی پہچان بنایا‘ وقت نے پلٹا کھایا تو فاتح مکہ حضور نبی کریمﷺ کے ہاتھوں اہلِ طائف اور وہ قبائل بھی مفتوح ہو گئے۔ حضور نبی کریمﷺ کے پُررحمت اور در گزر کے سلوک نے انہیں اسلام کی عظیم نعمت سے مالا مال کیا۔ ان کا ایک سردار ابن عطیہ ایک بار اپنے بھاری وفد کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ ان لوگوں نے اپنے اونٹوں کو ایک جگہ ٹھہرایا اور ان کی نگرانی کے لیے ابن عطیہ نے اپنے دس‘ بارہ سالہ بیٹے عروہ کو یہاں بٹھا دیا۔ قافلے کے دیگر لوگ حضورﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچے۔ آپﷺ نے ان سب کے مسائل سنے‘ جس کی جو ضرورت تھی اسے پورا کیا۔ مجلس کے اختتام پر آپﷺ نے اہلِ مجلس سے پوچھا: کوئی رہ تو نہیں گیا کہ جس کی خدمت نہ ہو سکی ہو۔ جواب ملا: عروہ رہ گیا ہے‘ وہ ایک لڑکا ہے جسے ہم اپنے اونٹوں کے پاس بٹھا کر آئے ہیں۔ فرمایا: اسے بلائو۔ جب وہ بچہ آیا تو حضور کریمﷺ کی شفقت‘ محبت اور پیار کی دولت اس کو نصیب ہوئی۔ حضور کریمﷺ نے دیکھا کہ اس لڑکے میں وقار اور خودداری کی صفات پائی جاتی ہیں۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: عروہ! بیٹے لوگوں سے کبھی سوال نہیں کرنا۔ عروہ نے اس بات کو پلے باندھ لیا۔
بنو امیہ کی حکمرانی کا آغاز ہوا تو مروان کے بعد اس کا بیٹا عبدالملک حکمران بن گیا۔ عبدالملک کے بعد اسلامی دنیا کا حکمران اس کا بیٹا سلیمان بن گیا۔ سلیمان نے صحابی رسول حضرت عروہؓ کو یمن کا حاکم بنا دیا۔ حضرت عروہؓ جو حضور نبی کریمﷺ کے کم عمر ترین صحابہ میں سے تھے‘ جب گورنر بن کر یمن پہنچے تو عمائدین اور عام لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ان سب لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بعد ان سے جو خطاب فرمایا وہ کچھ یوں ہے '' تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ میرے پاس تین چیزیں ہیں۔ میری سواری ہے۔ میرا نیزہ ہے اور اللہ کی کتاب قرآن ہے۔ ان تین چیزوں سے ہٹ کر اگر میں یہاں سے کچھ واپس لے کر جاتا ہوں تو میں چور (خائن) ہوں‘‘۔ امام جمال الدین مزیؒ لکھتے ہیں: سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد حضرت عمر بن عبدلعزیز ؒ خلیفہ بن گئے۔ انہوں نے حضرت عروہؓ کو یمن کی حاکمیت پر برقرار رکھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بعد تیسرے حکمران نے بھی انہیں برقرار رکھا‘ اس کی وفات کے بعد چوتھا حکمران جب آیا تو اس نے حضرت عروہؓ کو واپس بلا لیا۔ اس وقت تک ان کی گورنری کی مدت کو بیس سال ہو چکے تھے۔ وہ 20سال بعد جب یمن سے واپس روانہ ہونے لگے تو الوداع کہنے والے اہلِ یمن کو مخاطب کیا کہ میں واپس جا رہا ہوں اور گواہ رہنا کہ انہی چیزوں کے ساتھ واپس جا رہا ہوں جن کے ساتھ میں یہاں آیا تھا۔
لوگو! ہمارے حضورﷺ نے حکمرانی کا جو کلچر اور جو تہذیب دس سالہ مدینہ طیبہ کی حکمرانی میں عطا کی تھی‘ اسی حکمرانی کے اثاثے کو لے کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حکمرانی کی۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے حکمرانی کی۔ حضرت عثمان‘ حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہم نے حکمرانی کی۔ یہ پانچوں افراد خلفائے راشدین ہیں۔ ان کا عرصۂ حکمرانی تیس برس پر محیط تھا۔ یہ نبوت کے راستے پر پُررحمت حکمرانی تھی۔ بنو امیہ ہی میں سے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز ایسے درویش صفت حکمران ابھر کر سامنے آئے جنہیں تمام امت نے متفقہ طور پر خلیفہ راشد اور چھٹا امیر المومنین قرار دیا۔ کمال و جمال کو پہنچا ہوا یہ ہے حکمرانی کا وہ کلچر اور تمدن جو حضورﷺ اور آپﷺ کے جانشین اہلِ اسلام اور دنیا کو دے کر گئے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ آج کے دور میں ایسی سادگی اور یہ کلچر ممکن نہیں مگر یہ بات اُس وقت غلط ثابت ہو جاتی ہے جب ہم یورپ کے بعض ملکوں میں اس کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ نیدر لینڈز‘ جسے ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے‘ میں چند ہفتے قبل اس کے وزیراعظم مارک روٹے 14سال تک وزیراعظم رہنے کے بعد جب وزیراعظم ہائوس سے نکلے تو خالی ہاتھ تھے۔ وہ اپنے دفتر سے نکلے اور اپنے سائیکل پر بیٹھ کر گھر کو چلے گئے۔ ان اقوام نے '' عمر لاء‘‘ کو اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور ان کے گورنرز کے طرزِ حکمرانی کو بطور ماڈل سامنے رکھا ہوا ہے۔ ان کی حکومت کے کلچر کو اپنایا ہوا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں‘ میں نے تو حالیہ ایک واقعہ ہی درج کیا ہے۔ جناب مارک روٹے چند ہفتوں بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔ لوگو! یہ اثاثہ ہمارا تھا مگر ہمارے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ دوسرے لوگوں نے اسے اپنا کر عزت کمالی ہے اور اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ بنا دیا ہے۔
میرے دوست قاری عمر جٹھول توجہ دلا رہے تھے کہ حضورﷺ کے صحابہ کرامؓ نے جب امن و رحمت کے ساتھ مکہ فتح کیا تھا تو وہ دس ہزار تھے۔ ان دس ہزار افراد کے کردار کی عظمت کا تذکرہ تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الفتح کی آخری آیت میں تورات اور انجیل کا نام لے کر حضورﷺ کے صحابہ کی عظمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ''سورۃ النصر‘‘ میں اس کردار کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ '' سب لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں‘‘۔
قارئین کرام'' سورۃ النصر‘‘ میں ''افواجاً‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضورﷺ کی فوج دس ہزار تھی اور عوام بھی جب فوج در فوج ہو گئے تو یہ سب مل کر '' افواج‘‘ بن گئیں۔ پاکستان کی تین افواج ہیں؛ بری‘ بحری اور فضائی۔ ان تینوں کو ملا کر 'افواج‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں افواجِ پاکستان کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج کے سالار جنرل عاصم منیر نے کہا ہے '' ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں‘‘۔ یہ ایک سنہری جملہ ہے‘ انہوں نے دبنگ انداز سے یہ سلوگن دیا ہے۔ان کا دوسرا جملہ سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے: '' جرنیل اور سیاستدان پاکستان پر قربان‘‘ یعنی افواجِ پاکستان اور اہلِ پاکستان‘ سب اس وطن پر قربان ہیں۔ جی ہاں! اسی بات کو آگے بڑھائیں تو ہم 25کروڑ عوام‘ سب افواجِ پاکستان ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر سورۃ النصر کا مذکورہ پیغام ہم سب پلّے باندھ لیں تو زندگی کے ہر میدان میں فتح و نصرت ہمارا ماتھا چومے گی۔
دھیرے دھیرے ہی سہی مگر بے لاگ عدل کی جانب قدم اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ ان قدموں کی عملی رفتار تیز سے تیز ہوتی چلی گئی تو پاکستان آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ ہمارا مستقبل ہمارا پاک دیس ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز جیسے حکمران اور حضرت عروہؓ جیسے حاکموں کے نقشِ قدم پر چل کر ہی ہم امن و سکون اور خوشحالی کی منازل کو پہنچ سکتے ہیں۔ حزبِ اقتدار نے اس عمل کی راہ پر چلنے کا آغاز کرنا ہے۔ دعا ہے کہ وہ آغاز کرے۔ حزبِ اختلاف بھی قدم اٹھائے اور دہشت گردی اور فرقہ واریت وطن عزیز سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے۔ اے مولا کریم! ہمارے پاک وطن کو باکمال تہذیب کا عالمی علمبردار بنا دے‘ آمین یا رب العالمین!