اللہ تعالیٰ کا شاہکار ہے ہر انسان‘ جو کھربوں خلیات اور نیورونز سے بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر ریکارڈو کہتے ہیں: اگر اس کے خلیات کی معلومات یعنی ڈیٹا یو ایس بی میں جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو جائے گی کہ اس سے ٹائی ٹینک سائز کے دو ہزار بحری جہاز بھر جائیں گے۔ بیالوجی کے سائنسدانوں کی کوشش ہے کہ ''ڈی این اے‘‘ میں موجود معلومات کو مزید جاننے کے لیے کوانٹم فزکس کی سطح پر جایا جائے۔ اگر آنے والے وقت میں سائنس دان اس سطح پر پہنچ جائیں تو تب معلومات کا کیا حال ہو گا۔ قارئین کرام! میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آٹھ ارب انسان جس گھر میں رہتے ہیں‘ اتنے ہی پورشن میں انسانی ڈی این اے کی معلومات کو جدید یو ایس بی میں منتقل کر دیں تب بھی انسانی ڈیٹا مکمل نہیں سما سکے گا۔ جدید سائنس ابھی صرف یہاں تک پہنچی ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے ماں باپ کا پتا لگایا جا سکتا ہے‘کچھ پشتیں پیچھے بھی جایا جا سکتا ہے۔ ایسی ایک کوشش بھی کی گئی کہ تمام براعظموں کے مختلف ملکوں کے خواتین وحضرات کے ڈی این اے لیے گئے تو رزلٹ یہ آیا کہ گورے مرد اور عورتوں کے خاندان افریقہ میں جا نکلے‘ جو اصلاً کالے تھے۔ اسی طرح سیاہ فام افراد کے اجداد یورپ اور ایشیا میں جا نکلے۔ خاندانوں کا ادل بدل ہجرت کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ رزق کی تلاش میں لوگ مختلف علاقوں میں جاتے ہیں۔ وہیں شادیاں کر لیتے ہیں۔ جنگوں کی صورت میں بھی لوگ جنگ زدہ علاقوں سے پُرامن خطوں میں جا کر بس جاتے ہیں‘ یوں انسانیت آپس میں گھلتے ملتے ہوئے زمین پر پھیلتی رہتی ہے۔ علاقے‘ رنگ‘ زبان اور نسل کا امتیاز کرکے جو لوگ قتل کرتے ہیں انہیں شاید نہیں معلوم کہ وہ اپنے اجداد کی اولاد ہی کو قتل کر رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ نے رنگ‘ زبان‘ نسل اور علاقائی برتری کے نظریے کو کچل ڈالا۔ اس بنیاد پر قتل کو جاہلانہ قرار دیا۔
لاہور میں قریب دس لاکھ پشتون رہتے ہیں‘ ان کے سربراہ امیر بہادر خان ہوتی ہیں۔ وہ اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی ہیں اور میرے انتہائی قریبی دوست ہیں۔ چند سال قبل ''حرمت رسولﷺ‘‘ کے تحفظ کی قراردادیں ہم نے صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں سے پاس کرانے کا عمل شروع کیا تو محترم امیر بہادر نے فون کیا۔ میں پنجاب اسمبلی میں پہنچا تو میاں افتخار حسین میرے انتظار میں موجود تھے۔ سپیکر اسمبلی اور چند ایم پی ایز بھی موجود تھے۔ میں نے جو قرارداد لکھوائی وہ اگلے ہی دن پاس ہو گئی۔ غلام احمد بلور‘ جو تب وفاقی وزیر تھے‘ لاہور تشریف لائے تو ایک تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ میں نے بھی وہاں تقریر کی۔ جناب امیر بہادر خان ہوتی سے ایک بار سیاسی گفتگو ہوئی تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کے دور کا تقاضا ہے کہ یومِ پاکستان پر حب الوطنی کی بات کی جائے؛ چنانچہ 14 اگست 2024ء کو امیر بہادر صاحب نے بھی ریلی نکالی۔ ہر جانب سبز پرچم لہرا رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ہم پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے پاکستان‘ قائداعظمؒ اور پاکستانی افواج کے لیے زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ یہ ہے قومی دھارا! اسی طرح میں کوئٹہ کئی بار جا چکا ہوں‘ وہاں رانا اشفاق صاحب‘ صدر مرکزی مسلم لیگ کی قیادت میں کئی کلومیٹر لمبا جھنڈا تھا‘ اس کی چھائوں میں آگے آگے مجھے کیا گیا۔ جھنڈے کے نیچے اور دائیں بائیں ہزاروں بلوچ تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے‘ ہمیں پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی بننا ہو گا۔ اس جملے پر ہم پوری طرح عمل پیرا ہوں گے تو پاکستان بلند پرواز ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ!
بلوچستان میں ہماری افواج کے آفیسرز اور جوان شہید ہوئے۔ اگست کے آخری دن اس قدر خونیں ثابت ہوئے کہ نہتے اور بے گناہ لوگوں کو علاقائیت کے نام پر گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ یہ خون کسی صوبے کا باسیوں کا نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کا خون ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ''جس نے ایک شخص کو قتل کیا کہ اس (مقتول) نے نہ کسی کو قتل کیا تھا نہ ہی زمین میں فساد (دہشت گردی) کا ارتکاب کیا تھا تو اس نے گویا ساری انسانیت کا قتل کر دیا‘‘ (المائدہ: 32)۔
غور فرمائیے! جس انسان کو قتل کیا گیا ہے شرعی اور سائنسی لحاظ سے اس کی پشت میں ان سب انسانوں کا ڈیٹا ہے جو قیامت تک زمین کو آباد کرتے رہیں گے۔ یہ انسان کروڑوں میں ہو سکتے ہیں۔ یوں ایک انسان کے قتل سے اتنی بڑی انسانیت قتل ہو گئی۔ مزید برآں! اس طرح قتل کا سلسلہ بڑے پیمانے پر (اللہ نہ کرے) شروع ہو جائے تو ساری انسانیت کا قتل ہے۔ کیپٹن محمد علی قریشی اور ان کے متعدد فوجی ساتھی شہید ہوئے۔ عام مسافر شہید ہوئے۔ یاد رہے! یہ ان سب شہداء کی آنے والی نسلوں کا بھی قتل ہے۔ قاتلوں کو یہ سب بھگتنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ''جو کوئی کسی مومن کو ارادہ بنا کر قتل کرے گا‘ اس (قتل) کا بدلہ جہنم ہے‘ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ کا اس (قاتل) پر غضب ہے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہے۔ اللہ نے اس کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ (النسآء: 93)۔
امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ دیت کی کتاب میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے قتل کی نسبت ساری دنیا کا زوال اللہ کے سامنے معمولی بات ہے‘‘۔ دوسری حدیث ''سنن نسائی شریف‘‘ میں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ایک مومن کا قتل ساری دنیا کی بربادی سے بڑھ کر عظیم حادثہ ہے‘‘۔ نسائی شریف کے جس باب میں مندرجہ بالا حدیث ہے اس کا عنوان ''حرمتِ خون کی کتاب‘‘ ہے۔ جی ہاں! حضورﷺ کا انتباہ ہے کہ خون کی حرمت اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا بھر کی جو دولت ہے‘ وہ سمندروں میں ہے یا خشکی پر‘ پہاڑوں میں مدفون ہے یا جدید ترین ٹیکنالوجی کی دولت ہے‘ اس سب کے مقابلے میں مومن کے خون کی حرمت پھر بھی بھاری اور قیمتی ہے۔ ترمذی شریف میں ایک اور حدیث ہے۔ فرمایا ''اگر آسمان اور زمین کے سارے لوگ کسی مومن کا خون بہانے میں باہم اکٹھے ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیں گے‘‘ (ترمذی: کتاب الدیات)۔ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان میں ہے: حضورﷺ نے فرمایا ''جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اللہ اللہ! کس قدر شدید انتباہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ مقتولوں کو اپنے ساتھ ملا کر ''ہم‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں کہ اللہ‘ اس کا رسولﷺ اور ساری امت ایک جانب ہے اور دہشت گرد قاتل دوسری جانب کھڑے ہیں۔ فریق دوم کا فریق اول سے تعلق ختم ہو گیا ہے۔
مندرجہ بالا منظر قیامت کے روز سامنے آنے والا ہے جب قاتل لوگ بے شمار فرشتوں‘ کھربوں انسانوں کی موجودگی میں ندامت و شرمندگی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھڑکتی جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ''جو شخص تلوار نکال کر ہم پر لہرائے‘ وہ بھی ہم میں سے نہیں‘‘۔ مزید فرمایا ''جو شخص اپنے بھائی کو لوہے کے کسی ہتھیار سے ڈرائے‘ فرشتے اس پر تب تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آ جائے۔ اگرچہ ڈرایا جانے والا اس کے باپ اور ماں کی جانب سے سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (صحیح مسلم) یعنی ایسا مذاق بھی نیکی‘ رشتے داری کا لحاظ اور اسلامی آداب کے منافی ہے۔ لوگو! ہمارے حضورﷺ کو خدشہ ہے کہ کہیں مذاق میں بھی ان کا امتی قتل نہ ہو جائے اور قاتل آخرت میں خدا کے ہاں ہلاک نہ ہو جائے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ پاکستان کے جانثاروں نے دہشت گردی کی فصل کو پہلے بھی کاٹا ہے‘ اب بھی اس فصل کا مقدر یہی ہے۔ پاکستان زندہ باد رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔