اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ النصر‘‘ مکہ کی فتح سے کچھ عرصہ قبل نازل فرمائی۔ پہلی آیت کا ترجمہ یوں ہے ''جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے‘‘۔ پہلی آیت ہی میں پیغام دے دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! فتح ملنے والی ہے۔ فتح کے مناظر تم اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہو۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اس کے بعد تم لوگوں نے کرنا کیا ہے؟ اس کے بعد تمہارا لائف سٹائل کیسا ہو جانا چاہیے‘ یہ بات قابلِ غور ہے لہٰذا تیاری کر لو۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ کی موجودگی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے مندرجہ بالا سورۃ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اللہ کے رسولﷺ کے وصال کا پیغام ہے۔ یہ ہے مومنانہ بصیرت! جس نے قرآن مجید سے ایسا پیغام اور ایسی خبر تلاش کر لی جس کا ظہور دو سال بعد ہونے والا تھا۔ جی ہاں! دنوں پر دن گزرتے گئے یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا۔ سارے عرب کے قبائل اور ان کے سردار اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ اگر مدینہ والوں نے مکہ فتح کر لیا تو یقینا خدا کی مدد ان کے ساتھ ہے۔ پھر بلاشبہ یہ سچے نبی ہیں اور ہم بھی انہیں مان لیں گے۔ پھر وہی ہوا۔ اب دوسری آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کریمﷺ کو مخاطب کر کے آگاہ فرماتے ہیں ''آپ لوگوں کو دیکھ لیں گے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں‘‘۔ جی ہاں! حضور کریمﷺ نے مکہ فتح کیا تو سب عرب کے لوگ سرنڈر ہو گئے۔ حضورﷺ کی سواری دس ہزار‘ قدسی انفاس پاکباز صحابہ کے درمیان یوں تھی جیسے تاروں بھری رات میں چودھویں کا چاند ہو۔ حضورﷺ عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے ساتھ لگا رہے تھے‘ جیسے سجدہ فرما رہے ہوں۔ زبان مبارک پر سورۃ الفتح کی تلاوت تھی۔ اب سورۃ النصر کی آخری آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ''آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے۔ اللہ سے استغفار کیجئے۔ کیا شک ہے وہ تو ہمیشہ ہمیشہ سے مسلسل توبہ قبول فرمانے والا ہے‘‘۔
ہمارے رب کریم نے پاک وطن کو فتح سے نوازا ہے۔ وطن عزیز کے 25کروڑ عوام فاتح ہیں۔ یہ 25 کروڑ عوامی افواج ہیں۔ یاد رہے! میں عوام کو اس لیے افواج کہہ رہا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے اُن تمام قبائل کو افواج کہا ہے‘ جو فتح مکہ کے موقع پر کئی دن تک مکہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ حضورﷺ جب واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے تب بھی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں یہ قبائل حاضر ہوتے رہے‘ اسلام قبول کرتے رہے اور افواج کا حصہ بنتے رہے۔ حضورﷺ تو دو سال بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر ان دو برس میں موجودہ سعودی عرب‘ یمن‘ عمان‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ کویت اور بحرین یہ تمام علاقے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر عوامی افواج کا روپ دھار چکے تھے۔ حضورﷺ اس دنیا سے فردوس میں تشریف لے گئے تو سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں دنیا کی دو سپر پاورز اسی عوامی فوج کے ہاتھوں میں مفتوح ہو چکی تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضورﷺ نے فتح مکہ کے بعد تسبیح و تحمید اور استغفار کی کثرت فرما دی تھی۔ جس طرح مدینہ کے مہاجرین مکہ میں پسنے کے بعد مدینہ آئے تھے اور فتح مکہ کے بعد چھا گئے تھے‘ اسی طرح اہلِ پاکستان ہندوستان سے پستے ہوئے یہاں آئے ہیں اور 78سال بعد ان کے دنوں کے بدلنے اور پلٹنے کا آغاز ہوا ہے۔ لہٰذا سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ سبحان اللہ‘ الحمدللہ اور استغفار کا وِرد کثرت سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کے دربار میں حاضری کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔
ہندوتوا کے ہاں ''پَون‘‘ ایک مقدس ہستی ہے‘ اس کا بیٹا بجرنگ بلی پیدائش کے وقت سے ہی شدید طاقتوں کا مالک تھا۔ اسی حوالے سے بجرنگ کا لقب ہنومان (بندر دیوتا) بھی ہے کیونکہ ہنومان ہی رام کی بیوی سیتا کو سری لنکا میں اغوا سے چھڑوا کر لایا تھا۔ یاد رہے! سَنگھ پریوار کی ایک متشدد اور دہشت گرد تنظیم کا نام بھی ''بجرنگ دَل‘‘ ہے۔ ان کی آرمی کا نعرہ ''بھارت ماتا کی جے‘‘ ہے۔ عوامی نعرہ ''بجرنگ بلی کی جے‘‘ ہے۔ ان سب کے مقابلے میں ہمارا فوجی اور عوامی نعرہ ''تکبیر‘‘ ہے۔ ''اللہ اکبر‘‘ ایک ایسا جواب ہے جس میں توحید کی خوشبو ہے۔ بجرنگ اور ہنومان جیسی دیوتائی شخصیات دیو مالائی ہیں جن کا تاریخی وجود سوائے ہندوئوں کے کوئی نہیں تسلیم کرتا۔ ہمارے پاس سیدنا حمزہ‘ سیدنا علی حیدرِ کرار اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہم جیسی عظیم شخصیات ہیں جو انسانی تاریخ کی ٹھوس حقیقت ہیں‘ ان کی قبریں موجود ہیں‘ ان کے کردار زندہ ہیں۔ انہوں نے جو علاقے فتح کیے آج بھی وہاں مسلم حکمرانی ہے۔ ہم نے اپنے عقیدے اور اپنی عالیشان اور روشن تاریخ کو سامنے رکھ کر بھارت کے چھ طیارے گرائے۔ تین عدد مقبوضہ کشمیر میں گرائے۔ ایک کا پائلٹ سرینگر ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ دوسرا بھی وہیں زیر علاج ہے جبکہ تیسرا پائلٹ‘ جس کا نام کیشور یادیو ہے‘ اس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اُدھم پور کے کمانڈر ہسپتال میں 22مئی کو دم توڑ چکا۔ اسی طرح دو طیارے مشرقی پنجاب کے شہر بٹھنڈہ میں گرے۔ آخری اور چھٹا جہاز جموں کے علاقے اکھنور میں گرا۔ للت اس کا پائلٹ تھا‘ جو وہاں کے ملٹری ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ان سب بھارتی طیاروں کو پاکستان کے جے 10سی نے PL-15 میزائلوں کے ذریعے گرایا۔ کیا خوبصورت اتفاق ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی آزادی چاہتے ہیں‘ وہاں تین جہاز گرے۔ مشرقی پنجاب کے سکھ خالصتان بنانا چاہتے ہیں‘ وہاں دو جہاز گرے۔ جموں بھی متنازع علاقے ہے‘ وہاں ایک جہاز گرا۔ گرنے کو ''سقوط‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیا مستقبل میں ان تینوں خطوں کا بھی سقوط ہونے جا رہا ہے؟ ہاں! اگر انڈیا نے اپنے کمزور مظلوموں کا خیال نہ رکھا تو...
آج سے کوئی 30 سال قبل میں نے بلوچستان بھر کا دورہ کیا تھا۔ کوئٹہ سے جب تفصیلی دورے کیلئے روانہ ہوا تو نواب آف قلات‘ میر احمد یار خان مرحوم کے بیٹے میر دائود جان سے کوئٹہ میں انکے محل میں ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات مجھے کہنے لگے: وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانے میں میرے ابا جی بلوچستان کے گورنر تھے۔ بھٹو مرحوم چین کے دورے پر گئے تو چیئرمین مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی۔ میر دائود جان کہتے ہیں: میں بھی اس ملاقات میں ان کیساتھ تھا۔ مائوزے تنگ کا کوٹ پرانا تھا‘ اس پر پیوند بھی لگا ہوا تھا۔ میرے ابا جی نے پوچھ لیا: چیئرمین صاحب! آپ اس قدر عظیم لیڈر ہیں اور کوٹ پر پیوند لگا ہوا ہے۔ کہنے لگے: میں نے دیانت اور یہ سادگی تمہارے جنرل عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی سے سیکھی ہے۔ لوگو! آج چیئرمین مائو کے جانشین چین کے صدر شی جن پنگ ہیں۔ چین کی فوج کو ''پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں عین ممکن ہے کہ انہوں نے یہ نام ''سورۃ النصر‘‘ کے لفظ ''افواج‘‘ سے لیا ہو کیونکہ یہاں افواج سے مراد ''عوامی افواج‘‘ ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اسی طرف چلے تھے۔ انڈیا نے جب مئی 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکا کیا تو چیئرمین بھٹو نے کہوٹہ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعے ایٹمی منصوبے کی بنیاد رکھی۔ ساتھ ہی انہوں نے ہائی سکولوں اور کالجوں کی سطح پر جونیئر کمیشنڈ افسران کے ذریعے طلبہ کیلئے عسکری تربیت شروع کر دی تھی۔ میں نے خود 1975ء میں میٹرک اسی فوجی تربیت کے ساتھ کیا‘ یعنی بھٹو صاحب پوری قوم کو عوامی فوج بنانا چاہتے تھے۔ یاد رہے! پاک وطن کی اصل لڑاکا افواج تین ہی ہیں۔ انکے بعد ان کے تعاون کیلئے ہمارے نوجوان طبقے کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ اسی طرح پوری قوم کو نظریاتی اعتبار سے پاک فوج کا پشتیبان ہونا چاہیے۔ یہ ہے ''سورۃ النصر‘‘ کی خوشبو! اسی خوشبو کا چین علمبردار ہے۔ یہی خوشبو میرے پاک وطن میں حالیہ فتح کے دوران ہر گلی اور ہر بازار میں مہک اٹھی ہے۔ اسی سے ہم نے فتح حاصل کی ہے۔ اسی کو لے کر ہم آگے بڑھیں اور پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی مہم چلائیں۔ اس مہم کا اولین تقاضا دیانت ہے۔