اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں ایک سورت ہے جس کا نام ''الرعد‘‘ ہے‘ اس کے معنی ہیں: بادل کی گرج۔ اس گرج کو انگریزی میں تھنڈر (Thunder) کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''وہی ہے جو بھاری بادلوں کو اٹھا کر (آسمان میں) پھیلاتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ (ان بادلوں میں چمکتی بجلی میں) گرج اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے‘‘ (الرعد: 12 تا 13)۔
چین کے تعاون کے ساتھ پاکستان میں ''جے ایف 17 تھنڈر‘‘ بمبار طیارہ تیار ہوا۔ اس طیارے کی گرج انڈیا کی جان نہیں چھوڑ رہی۔ پہلے خبر یہ تھی کہ اس تھنڈر کی گرج سے انڈیا کے پانچ طیارے گرے۔ اس کے بعد یہ تعداد چھ ہو گئی۔ پاکستان میں ٹی شرٹس بن گئیں جن کے فرنٹ پر ''6-0‘‘ لکھا ہے اور اوپر ''بنیانٌ مرصوص‘‘ پرنٹ ہے۔ ابھی یہ خبریں تازہ ہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے تصحیح کی کہ گرائے جانے والے جہازوں میں تین نہیں چار رافیل تھے۔ ابھی یہ تعداد بھی حتمی نہیں ہے۔ بعض ذرائع گرائے جانے والے طیاروں کی تعداد ایک درجن تک بتا رہے ہیں۔ ان میں غالباً وہ بھی شامل ہیں جو مجروح ہونے کے بعد اڑان کے قابل نہیں رہے۔ اب چین نے کمال محبت اور دوستی کا حق ادا کیا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ''جے 35‘‘ بھی پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح یورپی ملک اٹلی کے حوالے سے خبریں گردش میں ہیں کہ اس نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ اس کے ہوا بازوں کو پاکستان میں تربیت دی جائے۔ یورپ کے دیگر ممالک بھی عنقریب یہ درخواست کرنے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کاکول میں دنیا کے بعض ممالک اپنے کیڈٹس کو ٹریننگ کے لیے بھیجتے ہیں‘ یہ کام اب پاک فضائیہ میں بھی شروع ہو رہا ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو بری فوج کے بعد اب پاک فضائیہ کو بھی حاصل ہو چکا۔ یاد رہے! پاک بحریہ کو ابھی اپنی مہارتوں کے تجربات کا موقع نہیں ملا‘ ان کو موقع مل جاتا تو مجھے یقین ہے کہ دنیا ان سے بھی سیکھنے کی گزارشات کے ساتھ آگے بڑھتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ہم اہلِ پاکستان پر۔ فَلِلّٰہِ الحمد!
بری فوج کے جوانوں کی وہ وڈیو اس وقت بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک خوبرو نوجوان بڑی مسرت اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دوست کو کہہ رہے کہ میں شہید ہو گیا تو میرے جنازے میں ضرور آنا۔ اسی طرح پاک فضائیہ کے ہوا باز جب جے ایف تھنڈر میں سوار ہو کر بادلوں میں جانے کے آرڈر سنتے ہیں تو پہلے شہادتوں کے وصیت نامے پر خوشی خوشی دستخط کرتے ہیں۔ یہ ہے جذبہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ ہے تو چین خوش ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی کو پاک فضائیہ کے شیروں کے ایمان اور ان کی مہارت نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ جی ہاں! ٹیکنالوجی کے ساتھ ایمان ہو اور مہارت ہمرکاب ہو تو اللہ کی مدد سے نظاروں کا رنگ ایمان افروز تاریخ بناتا ہے۔ قارئین کرم! اب ہم ساڑھے چودہ سو سال قبل کا ایک ایمان افروز واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں جو مدینہ منورہ کی زمین پر رونما ہوا اور اس کا آخری منظر آسمانی بادلوں میں اختتام پذیر ہوا۔ کیسے؟ ملاحظہ ہو!
اللہ کے آخری رسولﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ منورہ میں دو بڑے قبیلے تھے جو انصار کہلائے۔ ایک خزرج تھا جبکہ دوسرا اوس تھا۔ خزرج قبیلے کا سردار عبداللہ بن ابی تھا۔ اس قبیلے کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا مگر عبداللہ بن ابی اندر سے منافق تھا۔ سرکارِ مدینہﷺ کے خلاف جو سازش اٹھتی اس میں عبداللہ بن ابی کی منافقت کا پورا پورا حصہ شامل ہوتا۔ البتہ اس کی بیٹی جمیلہ اور بیٹا عبداللہ پکے مومن تھے۔ اسی طرح اوس قبیلے کا سردار ابو عامر تھا‘ اس کا سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا‘ جو تھوڑے سے لوگ رہ گئے ان پر سرداری کی خاطر مدینہ میں ٹھہرنا اس نے مناسب نہ سمجھا؛ چنانچہ وہ مکہ پہنچا اور مکہ کے سرداروں کو اکسایا کہ تم مدینے پر حملہ کرو‘ میرا قبیلہ تمہارا ساتھ دے گا۔ اس کے بیٹے کا نام حنظلہ تھا۔ یہ نوجوان پختہ مؤمن تھا۔ احد کی جنگ سے ایک دن پہلے حنظلہؓ بن ابی عامر کا جمیلہؓ بنت عبداللہ بن ابی سے نکاح ہوا۔ اللہ کے رسولﷺ نے اسلامی فوج کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور طے یہ پایا کہ صبح یہیں سے احد کی جانب روانگی ہوگی ۔ حضرت حنظلہؓ نے حضور ﷺ سے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے آج میری شبِ رفاف ہے‘ اجازت ہو تو یہ رات میں گھر میں گزار لوں اور صبح حاضر ہو جائوں گا۔ حضورﷺ نے اجازت عطا فرما دی۔'' المغازی للواقدی‘‘ میں ہے کہ حضرت حنظلہؓ صبح اٹھے‘ فجر کی نماز ادا کی اور اللہ کے رسولﷺ کی جانب چلنے لگے تو بیوی نے کچھ دیر کے لیے روک دیا۔ مزید تھوڑی دیر وہ نئی نویلی دلہن کے پاس ٹھہر گئے۔ اب وہ تاخیر کا شکار ہو چکے تھے؛ چنانچہ غسل کے بغیرہی جلدی سے روانہ ہونے لگے تو ان کی بیوی نے انہیں ذرا ٹھہرنے کا کہا اور جلدی سے اپنے خاندان کے چار افراد کو بلا لائی تاکہ انہیں گواہ بنا سکے کہ انہوں نے حقِ زوجیت ادا کیا ہے۔ پوچھا گیا کہ گواہ بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اس پر حضرت جمیلہؓ نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا کہ آسمان پھٹا ہے اور حنظلہ اس میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان کے اوپر چڑھنے کے ساتھ ہی آسمان پہلے کی طرح بند ہو گیا۔ میں سمجھ گئی کہ حنظلہ ؓ شہادت کی راہ پر ہیں؛ چنانچہ میں نے گواہ اس لیے بنائے تاکہ حنظلہ سے میری اولاد ہو تو معاشرے کو علم ہو کہ حنظلہ میرے ہاں رات گزار کر راہِ جہاد کے راہی بنے ہیں۔
حضرت حنظلہؓ اب کافی تاخیر کا شکار ہو چکے تھے؛ چنانچہ وہ دوڑے اور سرکارِ مدینہﷺ کے قافلۂ جہاد کے سپاہی بن کر احد کی جانب چل دیے۔ احد پہنچ کر منظر اب یوں تھا کہ دونوں لشکر آمنے سامنے تھے۔ اسلامی لشکر کے سالار محمد رسول اللہﷺ تھے تو دوسری جانب مشرکین مکہ کا سالار ابو سفیان تھا۔ حضرت حنظلہؓ کا ٹارگٹ وہی تھا۔ معرکہ شروع ہوا تو صفوں کو چیرتے‘ لڑتے بھڑتے تلواروں کو اپنی ڈھال پر روکتے اور دائیں ہاتھ سے تلوار کے وار کرتے کرتے آخر کار وہ ابو سفیان کے گرد جنگجوئوں کا حصار توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب ابوسفیان سامنے تھا۔ حضرت حنظلہؓ کس قدر خوش ہوئے ہوں گے کہ جان سے بڑھ کر عزیز نبی کریمﷺ کا دشمن ان کے سامنے‘ ان کی تلوار کی زد میں تھا۔ انہوں نے تلوار سونتی مگر وار گھوڑے پر لگا‘ گھوڑا بدک گیا۔ ابوسفیان نے چیخ ماری اور زمین پر گر پڑا۔ حضرت حنظلہؓ اس کا گلا کاٹنے کو لپکے مگر اسی دوران شداد بن اسود مدد کو پہنچ گیا۔ اس نے حضرت حنظلہؓ کے پیٹ میں نیزہ دے مارا۔ حضرت حنظلہؓ دوبارہ اٹھے اور شداد پرجھپٹنے لگے تو اس نے دوسرا وار کر دیا۔ اب حنظلہؓ اپنے رب کریم کے پاس پہنچ چکے تھے۔
حضرت حنظلہؓ کی روح آسمانوں کے اوپر فردوس میں تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا '' میں نے دیکھا فرشتے حنظلہ کو آسمان اور زمین کے درمیان چاندی کے برتنوں میں بادلوں کے پانی سے غسل دے رہے ہیں‘‘ (سیرت انسائیکلوپیڈیا‘ دارالسلام بحوالہ موسوعۃ الغزوات)۔ ابو اسید ساعدیؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ان کی نعش مبارک کے پاس گئے تو دیکھا کہ واقعی ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اب حضورﷺ نے حکم دیا کہ حنظلہ کی بیوی نے پوچھ کر آئو تاکہ معاملے کا پتا چلے۔ حضرت جمیلہؓ نے تمام واقعہ حضورﷺ کو بیان کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ''یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے حنظلہ کو غسل دیا‘‘(مستدرک حاکم‘ سنن الکبریٰ ‘ معجم الکبیر طبرانی)۔ جی ہاں! حضورﷺ کی مبارک زندگی میں حنظلہ ہی وہ مبارک شہید ہیں جو ''غسیل الملائکہ‘‘ کے لقب سے ملقب ہیں۔ شہدا کے مرتبے کو سلام! لوگو! تھنڈر طیارے کے پس منظر میں مجھے حضرت حنظلہؓ یاد آگئے‘ کہ ان کی یادوں میں ہمارے ہواباز اوپر جانے کو بیتاب تھے۔ حضرت جمیلہؓ کو اللہ نے ایک بیٹا دیا‘ جو بڑا ہو کر نامور صف شکن بنا۔ کہا کرتا تھا: میں غسیل الملائکہ کا بیٹا عبداللہ ہوں۔ جی ہاں! یہ ہے سرچشمہ جہاں سے ملتا ہے دلاوری کا خزینہ۔ پاکستان زندہ باد!