اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید کے اٹھائیسویں پارے میں ایک سورت کا نام ''الحشر‘‘ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کی آخری دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے متعدد صفاتی ناموں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ پہلا صفائی نام ''الملک‘‘ ہے۔ اس کے معنی بادشاہ‘ شہنشاہ اور ایسے حکمران کے ہیں کہ وہ خود ہی تمام مخلوقات کا خالق ہے اور ہر تخلیق پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ انسانی دماغ میں تقریباً 86 ارب نیورونز ہیں تو ہر نیورون پر اس کا کامل اقتدار ہے۔ انسانی جسم میں کوئی ایک کھرب خلیات ہیں تو گوشت‘ چربی‘ خون‘ ہڈیاں‘ دل‘ جگر‘ معدہ‘ گردے‘ کان اور آنکھوں وغیرہ کے ہر خلیے کے فنکشن کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس پر پوری طرح حکمرانی فرما رہا ہے۔ دوسرا صفاتی نام ''القدوس‘‘ ہے‘ یعنی اس کی حکمرانی میں تقدس ہے۔ پاکیزگی ہے۔ ظلم و عدوان کا کوئی شائبہ نہیں۔ یہاں عدل ہی عدل اور توازن ہی توازن ہے۔ تیسرا صفائی نام ''السلام‘‘ ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ کی حکمرانی میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ چوتھا صفائی نام ''المومن‘‘ ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنی کائنات کی مخلوقات میں امن چاہتا ہے۔ فساد‘ دہشت گردی‘ ظلم وغیرہ کو بالکل پسند نہیں فرماتا۔ پانچواں صفاتی نام ''المہیمن‘‘ ہے۔ یعنی وہ متواتر‘ مسلسل اور ہر آن ہر ایک کی نگرانی فرما رہا ہے۔ جو بھی اس نظام کو برباد کرے گا غارت گری کو آباد کرے گا۔ اس سے اس دنیا میں بھی وہ نبٹنے گا اور آخرت میں تو فسادی دہشت گردوں کے ساتھ وہ جو کرے گا‘ جس حشر نشر سے ان کو دوچار فرمائے گا‘ مظلوموں کو وہ منظر راضی کر دے گا۔ مندرجہ بالا پانچوں نام مسلسل استعمال ہوئے ہیں۔ پوری انسانیت کو ان پاک ناموں کا ورد کرنا چاہیے۔ خاص طور پر انسانیت کی بربادی پر سوچ بچار کرنے والوں کو تاکہ وہ دنیا و آخرت کی بربادیوں سے بچ جائیں۔ دنیا کی ہر حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق کے صفائی ناموں کو سامنے رکھ کر اپنے حکومتی کردار کو داخلی اور خارجی سطح پر خوبصورت‘ حسین اور پُرامن بنائے۔
دنیا کی ظالم حکمرانی نے عراق کو تباہ کیا۔ لیبیا کو اجاڑ دیا۔ شام کو خونریزی میں دھکیلا۔ لبنان کو تباہ کیا۔ یمن کو خانہ جنگی کا شکار کیا۔ اریٹیریا کو ویران کیا۔ اراکھان کو آگ میں بھسم کیا۔ سوڈان کو تباہ حال کیا۔ افغانستان کو دوبار دو سپر پاوروں نے کھنڈرات میں تبدیل کیا۔ صومالیہ کو ظلم کے گڑھوں میں پھینکا۔ فلسطین کی تو بات ہی کیا کریں کہ 1948ء میں جونہی اسرائیل معرض وجود میں آیا تو اس کے گائوں ''دیر‘‘ کی خواتین کو برہنہ کرکے سڑکوں پر چلنے پر مجبور کیا گیا۔ بچوں کو قتل کیا گیا۔ ان مناظر کی تصاویر بنائی گئیں۔ یہ پوسٹر مسلم علاقوں میں لگا دیے گئے کہ اس حشر نشر سے بچنا چاہتے ہو تو ان علاقوں سے نکل جائو۔ سات لاکھ فلسطین اپنے گھروں کو تالے لگا کر نکل گئے۔ ان گھروں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بے گھر لوگوں کی واپسی کیا ہونا تھی‘ بے گھروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج سے کوئی پچاس سال قبل ایران میں انقلاب آیا تو انقلاب کے بانی جناب آیت اللہ خمینی نے مندرجہ بالا ظلم کے پیشِ نظر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ یاسر عرفات ان سے ملے اور پھر اہلِ فلسطین کی مدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایران کی حکومت نے ''القدس بریگیڈ‘‘ کے نام سے اپنی فوج میں آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد کا شعبہ قائم کر دیا۔ وہ عملی طور پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ یمن‘ لبنان میں عسکری تنظیمیں قائم ہو گئیں۔ غزہ میں حماس بن گئی۔ یاسر عرفات سے کیے ہوئے معاہدے پورے نہ ہوئے تو یہ تنظیمیں عسکری اعتبار سے فلسطین کو آزاد کرنے کی جدوجہد میں لگ گئیں۔
اہلِ فلسطین کو ان کا حق دے دیا جاتا تو ان تنظیموں کا وجود خود بخود ہی ختم ہو جاتا مگر وعدے اور حقوق پامال کر دیے گئے۔ آج ان تنظیموں کے بنیادی ڈھانچے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ بھی ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ اسرائیل کو قابض ہوئے 77 سال ہو چکے ہیں۔ قمری لحاظ سے یہ چند ماہ کم 80 سال بنتے ہیں۔ ان آٹھ دہائیوں میں پڑوسی عرب مسلم ممالک نے اسرائیل کے خلاف چار جنگیں لڑی ہیں مگر کسی جنگ میں انہیں کوئی فتح نہیں مل سکی بلکہ اسرائیل آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ ایران کہ جس کی سرحد اسرائیل سے نہیں ملتی‘ اس نے حالیہ جنگ میں پہلی بار اسرائیل کو زبردست نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اس کے میزائلوں کو راستے میں چار جگہوں پر رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پانچویں نمبر پر اسرائیل کی رکاوٹوں کو ان میزائلوں نے عبور کیا اور اسرائیل کی ایجنسی موساد کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا۔ اس کی فوجی تنصیبات کو تباہی سے دوچار کیا۔ جہاں ایٹمی مرکز تھا‘ اسے نشانہ بنایا۔ الغرض! اسرائیل کے بے پناہ نقصان کو دیکھ کر اب امریکہ میدان میں آ گیا ہے۔ اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی (Mike Huckabee)‘ جسے صدر ٹرمپ نے ربیّ یعنی مذہبی یہودی رہنما‘ سیاستدان‘ گریٹ انسان اور سفیر کہا ہے‘ اس نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا ہے کہ جس طرح صدر ٹرومین نے 6 اگست 1945ء کو جاپان پر ایٹم بم پھینکنے کا فیصلہ کیا تھا‘ ویسے ہی آج صدر ٹرمپ کے لیے بھی خدا کا ایک حکم ہے کیونکہ ان جیسا کوئی امریکی صدر آج تک نہیں آیا‘ ان کے لیے آسمانوں پر فیصلے کی آواز ہے‘ خدا نے الیکشن کے دوران ان کی جان بچائی تو21ویں صدی میں سب سے اہم فیصلے کے لیے ان کی جان بچائی۔ اب ان کے کندھوں پر اس آواز کو سننے اور اسے پورا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ قارئین کرام! مذکورہ گفتگو کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ نہ کرے‘ امریکہ انسانیت کی بربادی اور تباہی کا سوچتے ہوئے کوئی خوفناک قدم اٹھائے۔ جس طرح صدر ٹرمپ نے غزہ کو خالی کرنے کا کہا تھا اسی طرح اب تہران کو خالی کرنے کا کہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک تہران سے اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو نکالنے کا کام شروع کر چکے ہیں۔ ایران کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ فوج کے اعلیٰ افسران اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوئے ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں ہم Hell fire بم استعمال کریں گے۔ اس کا مطلب ہے جہنم کی آگ۔ شیطانی جہنم کی یہ آگ اس سے پہلے مسلم ملکوں اور غزہ میں وہ استعمال کر چکے۔ اب ایران میں اس سے بڑی یعنی ایٹمی آگ کا سوچ رہے ہیں۔ پاکستان نے اس ضمن میں کوششیں تیز کر دی ہیں۔ سلامتی کونسل میں اور قومی اسمبلی میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ جنگ بندی ہونی چاہیے۔ جارحیت کو نکیل ڈالی جانی چاہیے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی ایسی ہی بات کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پہلے بھی غزہ کے حوالے سے تمام انسانیت نے امن کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ سویڈن کی 22 سالہ لڑکی گریٹا تھنبرگ گزشتہ تین سال سے غزہ میں امن کی جدوجہد کر رہی ہے۔ دنیا کے ہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا چکی ہے۔ اب ایران ہمارا پڑوسی اور مسلم برادر ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو سلامت رکھے۔ ہمیں اپنے وطن عزیز پاکستان کے استحکام اور سلامتی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ دفاع پاکستان کے تقاضوں کو نبھانا ہوگا۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایٹمی پاور ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے دانت چند ہفتے قبل کھٹے کیے ہیں۔
سید جواد نقوی مسلم اتحاد اور استحکام پاکستان کے علمبردار ہیں۔ سید ہارون علی گیلانی بھی ایسا ہی ایک نام ہے۔ چند دن قبل صدر پاکستان مرکزی مسلم لیگ قصور رانا اشفاق نے اِلٰہ آباد میں ایسا ہی جلسہ کیا۔ راقم وہاں موجود تھا۔ وفاقی وزیر ملک رشید خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھی اس میں شریک تھے۔ سب نے متحد ہو کر اپنی آواز بلند کی۔ ہمیں سیاسی اور دینی سطح پر ایسی جدوجہد کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہم اندر سے مضبوط چٹان ہوں اور بیرونی دشمنی کے خلاف ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کا کردار ادا کرتے رہیں۔ اسی میں ہم سب کی‘ عالم اسلام کی اور ساری انسانیت کی خیر اور بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پانچ صفائی ناموں کو ہم اپنا شعار بنا لیں تو سب زندہ باد رہیں۔ ایران سارے عالم اسلام اور تمام انسانیت کے ساتھ زندہ باد رہے۔