"AHC" (space) message & send to 7575

ایران کی استقامت‘ فتح کی بشارت

اللہ تعالیٰ کا حکم آیا‘ اللہ کے آخری رسولﷺ نے مشرکینِ مکہ کو ان کے حال پر چھوڑا اور ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں یہود کے تین مضبوط قبیلے آباد تھے۔ مدینہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا قلعہ خیبر تھا۔ یہود کی یہاں ایک مستحکم حکومت تھی۔ دس ہزار فوج تھی اور معاشی طور پر یہ پورے عرب میں ایک خوشحال ریاست تھی۔ مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ نازل فرمائی۔ لگ بھگ اڑھائی پاروں پر مشتمل قرآنِ مجید کی یہ سب سے بڑی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد کریمﷺ کو وہ زمانہ یاد کرایا جب عمونی‘ کنعانی اور فلسطینی قومیں بت پرست تھیں اور بنو اسرائیل امتِ مسلمہ اور توحید کی علمبردار تھی۔ ایک وقت پہ اس امت کو شکست پر شکست کی وجہ سے بُرے دنوں کا سامنا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے حال احوال کو درست کیا۔ سموئیل نبی نے ان کی درخواست پر اللہ سے دعا کی اور حضرت طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ بائبل میں ان کا نام سائول (Saul) بتایا گیا ہے۔ ان کے مقابلے پر جالوت (Goliath) تھا جس کا قد کوئی دس فٹ تھا۔ اسلحہ‘ فوج‘ جسمانی قوت اور فوجیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے مقابلے پر حضرت طالوت اپنا لشکر لے کر نکلے۔ اللہ تعالیٰ اگلا منظر اپنے آخری رسولﷺ کو بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ''پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ اہلِ ایمان (کی فوج) نے دریائے (اردن) کو عبور کیا تو جالوت اور اس کے لشکر کو دیکھتے ہی کہہ اٹھے کہ آج ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہماری اندر کوئی ہمت نہیں مگر وہ لوگ جو اللہ سے (شہادت کی صورت میں) ملاقات پر یقین رکھتے تھے۔ وہ کہنے لگے: بسا اوقات کتنی ہی چھوٹی سی جماعت اللہ کے حکم سے کثیر تعداد لشکر پر غالب آ جایا کرتی ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (البقرہ: 249)۔
اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ شہید ہو چکے۔ غزہ کے ساٹھ ہزار جبکہ جنوبی لبنان کے ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے۔ غزہ پر حملے کے پونے دو سال بعد اب دنیا ایران کو گھیر چکی تھی۔ اسرائیل نے اچانک اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ایران کے 20 جرنیل اور 13 ایٹمی سائنسدان شہید ہو گئے۔ پاکستان نے ایرانی بھائیوں کو آگاہ کیا۔ یہ سازش ایران کے اندر سے ہوئی۔ بھارت کی ''را‘‘ اور اسرائیل کی ''موساد‘‘ نے مل کر سازش کی۔ ایران نے معلومات کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے جاسوس افراد کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر لیا۔ ساتھ ہی اسرائیل پر میزائلوں سے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ قومی اسمبلی میں اس کا اعلان وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان ایران کے حق میں ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستیں ایران کے حق میں ابھر کر سامنے آ گئیں۔ اس سارے عمل میں پاکستان کا کردار باکمال تھا۔ اس پر ایران کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ پاکستان کا شکریہ نعروں کی صورت میں محبت بھرا آوازہ بن گیا۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای نے آغاز اپنی ذات سے کیا اور کہا: میں قربان ہو جائوں تو یہ قربانی معمولی سی قربانی ہو گی۔ اللہ قبول فرما لے۔ مجلس اعلیٰ سے کہا: میرے بعد دو تین جانشین طے کر لو۔ شہید ہوتے جائیں اور کھڑے ہو کر ذمہ داری سنبھالتے جائیں۔ افواج میں بھی یہ پیغام چلا گیا۔ وہاں یکے بعد دیگرے چھ سات افراد ہر شہادت کے بعد کھڑے ہونے کے لیے تیار اور پابہ رکاب ہو چکے تھے‘ جس طرح بھارتی جارحیت کے خلاف پوری پاکستانی قوم بنیانٌ مرصوص بن چکی تھی‘ یہی کیفیت ایران میں بن چکی تھی۔ اہلِ ایران وار سہہ بھی رہے تھے اور وار کر بھی رہے تھے۔
قمری لحاظ سے اسرائیل کی عمر چند ماہ کم 80 سال ہے۔ ان 80 سالوں میں اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کی قوت کو فضا‘ سمندر اور زمین پر اپنے ہمرکاب پاتے ہوئے‘ صرف مارنا سیکھا ہے۔ انہیں مار کھانے کا اندیشہ بھی نہ تھا۔ اب بھی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اہلِ دنیا کا تجزیہ یہی تھا۔ عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن کی طرح فضائی بمباری ہو گی۔ ایران کی فوج بھاگ جائے گی‘ لوگ نئے حکمران کا استقبال کریں گے۔ شاہ ایران پہلوی کے بیٹے نے اپنا پہلو بدل لیا تھا۔ ایران کی حکومت سنبھالنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ امریکہ اس کے ہمراہ تھا۔ ناٹو کی افواج اسرائیل کے ساتھ تھیں۔ ایران کا ہر جانب سے ہوائی اور بحری گھیرائو تھا۔ سید علی خامنہ ای ڈٹ چکے تھے۔ قوم بھی ڈٹ چکی تھی۔ پاکستان میں سید جواد نقوی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے بارے آگاہ کر رہے تھے کہ وہ کردار کے دلدار ہیں‘ پاکستان کی آن کے دلدادہ ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم نے ایران میں پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کہی تو انہوں نے وہیں وزیراعظم کو کہہ دیا کہ آپ نے اپنے منصب اور حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سب اکٹھے ہو چکے ہیں۔ سنی‘ شیعہ اسرائیل کے خلاف ایک ہو چکے ہیں۔ اللہ خیر نکالے گا۔ جناب سید عاصم منیر نے امریکہ کی فیلڈ میں ڈیرے لگا لیے تھے۔ ایران کے بارے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ حالات بگاڑ کی آخری شکل اختیار کر گئے تو بارڈر مٹ جائیں گے۔ علاقے میں طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ یہ طوفان اسرائیل سے ٹکراتا رہے گا۔ پھر اگلا منظر زیادہ خوفناک ہوگا۔ صدر ٹرمپ کا بیان آیا: پاکستان سب سے بڑھ کر ایران کو جانتا ہے۔ یہ حقیقت پسندانہ کمال انتہائی پُرجمال انداز سے پاک فیلڈ مارشل نے وائٹ ہائوس کی فیلڈ میں انجام دیا تھا۔ امن کی فاختہ کو پرواز کے لیے تیار کر دیا تھا۔
اللہ اللہ! گزشتہ 80 سالوں میں پہلی بار ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے نصف حصے کو کھنڈر بنا دیا۔ حیفہ کی بندرگاہ‘ جو کافی حد تک انڈیا کے کنٹرول میں تھی‘ اسے ویران کر دیا۔ اسرائیل کو جس ڈیفنس ٹیکنالوجی پر ناز تھا‘ ایران نے آئرن ڈوم‘ امریکی تھاڈ‘ ڈیوڈ سلنگ اور ایرو سپیس کے سسٹم کو اڑا کر رکھ دیا۔ ڈیمونا کے ایٹمی مرکز پر بھی حملے کیے گئے۔ ہیرے جواہرات کی سب سے بڑی عالمی مارکیٹ کو برباد کر دیا گیا۔ کئی چھائونیوں کو ویران کر دیا گیا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والو! ذرا ایک صدی پیچھے چلے جائو! دنیا بھر سے یہودی مقبوضہ فلسطین متواتر آتے ہی چلے جا رہے تھے۔ انہیں اسرائیل سے جاتے اور بھاگتے ہوئے پہلی بار دنیا نے دیکھا۔ ایران مین آف دی میچ تھا تو اس میچ کو دیکھنے والوں نے بھی کمال کر دیا۔ اہلِ غزہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ دنیا بھر کے فلسطینی خوش ہیں کہ ہم نے اپنے ظالم دشمنوں کو پہلی بار بھاگتے ہوئے دیکھا۔ اسرائیل کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ''بن گوریان‘‘ ایرانی ہاتھوں سے تباہ ہو چکا۔ بہت سارے نکل چکے تھے۔ باقی پڑوسی ملکوں کے ہوائی اڈوں سے بھاگ رہے تھے۔ بحرِ روم کی کشتیوں کے ذریعے یونان کی جانب بھاگ رہے تھے۔ 'یہ فرار جاری رہا تو اسرائیل یہود سے خالی ہو جائے گا‘۔ نیتن یاہو صدر ٹرمپ کے سامنے چلایا۔ صدر ٹرمپ اب ایران کی تعریفیں کرنے پر آ گئے۔ ایران کو ''May God bless you‘‘ کی دعائیں دینے لگ گئے۔ اس موقع پر سید علی خامنہ ای نے وہی کیا جو قرآن مجید کا حکم تھا۔ فرمایا ''اگر وہ صلح کے لیے جھک جائیں تو تم بھی صلح کی جانب مائل ہو جائو۔ اللہ پر توکل کرو۔ بلاشبہ وہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘ (الانفال: 61)۔
لوگو! فرقہ واریت میں ڈوبی اور لتھڑی ہوئی سازشی تھیوریاں اور نکتہ دانیاں لاتعداد ہیں مگر سامنے کی بات ایک ہی ہے۔ وہ آفتاب کی طرح سارے جہاں کو روشنی دے کر ہر آنکھ کو دِکھ رہی ہے۔ '' کس قدر تھوڑی سی جمعیت تھی جو کثیر (طاقتوں پر مشتمل) جمعیت پر غالب آ گئی‘‘۔ ہنود اور یہود کی یکے بعد دیگرے شکستوں پر الحمدللہ! پاک ایران فتح زندہ باد۔ اتحادِ امتِ مسلمہ پائندہ باد۔ انسانیت کا امن زندہ باد۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں