اللہ تعالیٰ ہی نے یہ جہان بنایا اور اس جہان میں اک شاہکار بنایا۔ اس شاہکار کو 'انسان‘ کے نام سے یاد فرمایا۔ سینے میں دل رکھا تو سر میں دماغ بنایا۔ اسے عزت ووقار سے یوں سجایا کہ اقتدار کی مسند پر اسے براجمان فرمایا۔ اس چوراہے سے دو راستے نکال دیے۔ ایک راستہ انسانیت کی خدمت کا‘ جس میں پیار ہی پیار ہے اور دوسرا راستہ ظلم کا‘ جس میں خون ہی خون ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کے درمیان خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔ پرنالوں سے خون آبشار بن کر گرا۔ ندیاں بہہ گئیں اور خون کے دریا رواں دواں ہوئے تو اقتدار کے ظالمانہ راستے سے ہوئے۔
ختم المرسلینﷺ کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کیلئے حضورﷺ کو رحمت ہی رحمت اور مجسم رحمت بنا کر بھیجا۔ حضورﷺ نے اپنے اقتدار کو ''نبوت ورحمت‘‘ کا نام دیا۔ اللہ کی مشیت کچھ اس طرح سامنے آئی کہ حضورﷺ نے 23سال جو تربیت فرمائی تھی‘ اپنے بعد اقتدار کی مسند کو اس تربیت کے حوالے کر دیا۔ چھوٹے موٹے اختلاف سے قطع نظر‘ یہ تربیت اپنا کام دکھلا گئی؛ چنانچہ اہلِ مدینہ کی مشاورت سے جانشینِ مصطفی منتخب ہوتے چلے گئے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد یہ مسند حضرت علی المرتضیٰؓ کو ملی۔
حضور کریمﷺ محض چھ برس کے تھے جب آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپﷺ اپنے دادا کی تربیت وپرورش میں رہے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی والدہ اور آپﷺ کی چچی حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا آپﷺ کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آپﷺ حضرت فاطمہؓ زوجہ ابو طالب کے گھر ہی میں پرورش پانے لگ گئے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے جونہی ہوش سنبھالا تو حضورﷺ کے پاس پرورش اور تربیت پانے لگے۔ حضورﷺ کو نبوت ملی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد جس نے سب سے پہلے کلمہ پڑھا وہ حضرت علی المرتضیٰؓ ہیں۔ حضورﷺ نے ہجرت کی تو اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰؓ کو سلایا۔ مدینہ میں حضورﷺ سرکارِ مدینہ بن گئے۔ اس زمانے میں جس قدر جنگیں ہوئیں‘ ان میں مجموعی طور پر سب سے بڑھ کر جو تلوار چلی اور جس نے اسلام کے قدم مضبوط کیے وہ حیدرِ کرارؓ کی تلوار ہے۔ حضورﷺ کی تربیت کا شاہکار دیکھنا ہو تو بہت نظر آئیں گے مگر اقتدار کی گلی میں زاہد نظر آئے گا تو دل کہے گا علی علی۔ دماغ بھی سوچے گا علی علی اور زبان بھی نعرے لگائے گی علی علی۔ جی ہاں! علی کا لفظی معنی بلندی ہے‘ سرفرازی ہے۔ اس نامِ علی کی یاری اپنے معنی کے ساتھ پختہ دکھائی دے گی‘ پتھر پر لکیر نظر آئے گی۔
حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا محاصرہ تھا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ جائو اور اپنے چچا جان کے دروازے پر تلواریں لے کر کھڑے ہو جائو۔ جنت کے سرداران وہاں پاسبان بن کر کھڑے تھے۔ بلوائی پیچھے سے گھر کی دیوار پھلانگ کر آئے اور حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا۔ اب حضرت علی المرتضیٰؓ کو خلافت سنبھالنے کا کہا گیا۔ مرحب اور ابن عبدود کے غرور کو خاک میں ملانے والا اقتدار کے میدان کا ایسا زاہد تھا کہ انکار کر دیا۔ ترلے منتیں کر کے اہلِ مدینہ نے منایا۔ جب وہ خلیفہ گئے تو شام کے گورنر نے قصاصِ عثمانؓ کا مطالبہ کر دیا۔ اللہ اللہ! یہ دن بھی آنے تھے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ سے عدل کا مطالبہ کیا جا رہا تھا‘ وہ بھی اس طرح کہ مقابلہ کریں گے۔ اور پھر اہلِ اسلام کے درمیان تلوار‘ تلوار اور تلوار۔ پھر ایک دن یہ تلوار حضرت علی المرتضیٰؓ کو بھی شہید کر گئی۔ اہلِ کوفہ نے حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کو امیر المومنین بنا لیا مگر چھ ماہ بعد ہی سیدنا حسنؓ نے اپنے نانا کے دین کی خاطر صلح کر لی۔ لوگو! ساری کوشش اقتدار کے حصول کیلئے ہوتی ہے‘ اقتدار ہو تو اسے کون چھوڑتا ہے؟ حضرت حسنؓ کے پاس اسلامی ریاست کا 80 فیصد کے قریب رقبہ تھا اور شام کی حکومت کے پاس شاید 20فیصد سے بھی کم۔ مگر کیا کہنے حضرت حسنؓ کے زہد اور تقویٰ کے کہ اُمت کے اتحاد کی خاطر خلافت کو چھوڑا اور گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے۔ لوگو! حضورﷺ کی پاک زبان سے جنت کی سرداری کی نوید ملے تو شاہِ فردوس کا کردار پھر ایسا ہی ہونا تھا کہ اقتدار کی گلی میں ان کے ہاتھوں سے ظلم ناممکن ہے! ناممکن۔ آہ! جنت کے اس شاہ کو بھی شہید کر دیا گیا۔ طیبہ کی زمین پر اب بے حد حَسین‘ نام جس کا حُسینؓ تھا‘ وہ اکیلا رہ گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر امیر شام اک نظر حضورﷺ کے کرم پر ڈالتے‘ آپﷺ کی فیاضی کو ذہن میں لاتے‘ فتح مکہ کے دن عام معافی کے اعلان کا منظر ذہن میں لاتے اورترازو ہاتھ میں لیتے‘ آخرت کی جوابدہی کو سامنے رکھتے اور اپنی زندگی میں اپنے ولی عہد کی بیعت لینے اور حضرت حسنؓ سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے اہلِ مدینہ کی مجلس کا انعقاد کرتے اور لوگوں کو آزادی دیتے کہ جس کو چاہو اپنا حکمران بنا لو۔ اگر لوگ حضرت حسینؓ کو اپنا حکمران بنا لیتے تو وہ اٹھتے‘ ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور حضرت حسنؓ والا کردار ادا کرتے تو آج سارا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا۔ مگر دوسرا راستہ چنا گیا۔ ولی عہد کے لیے مہم چلائی گئی۔لوگوں سے بیعت لی گئی۔ یوں موروثی بادشاہت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ خلافت علٰی منھاج النبوہ ختم ہو چکی تھی‘ اسے دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے بجائے امت کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا گیا جس کا نام بادشاہت تھا۔ آخر وہ وقت آ گیا کہ جب یزید مسلم دنیا کا حکمران (بادشاہ) بن گیا۔
مذکورہ عمل کو باقی رہ جانے والے صحابہ اور اکثر تابعین برا سمجھتے تھے مگر فتنے کے ڈر سے خاموش رہے۔ یہ ذمہ داری فردوس کے دوسرے سردار نے اپنے کندھوں پر لی۔ اب دوسرے سردار کے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت تھا۔ غالباً ان کی سوچ یہ تھی کہ امت اس طرح اقتدار کی خونیں کشمکش سے محفوظ ہو جائے گی اور محلاتی سازشیں ختم ہو جائیں گی۔ قارئین کرام! ہم نبوت کے منہج پر آگے بڑھتے رہتے تو نااہلوں کو آگے آنے کا موقع نہ ملتا‘ وصیتوں سے حکمران نہ بنتے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی ذاتی جائیداد میں بھی اس طرح وصیت نہیں کر سکتا جس طرح وہ عوامی اور قومی ورثے پر وصیت کر جاتا ہے۔ اپنی جائیداد پر بھی وہ زیادہ سے زیادہ کُل جائیداد کے تیسرے حصے کی وصیت کر سکتا ہے مگر اقتدار ایک بیٹے کو سونپ کر وہ ساری امت یا ساری قوم اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اگر وہ دیکھے گا کہ بیٹے یا رشتے دار کو آگے لانا ناممکن ہے تو پھر کوئی کمزور یا کم صلاحیت والا ڈھونڈے گا کہ اس پر احسان کروں تو یہ میرے خاندان کا خیال رکھے گا۔ حالانکہ یہ سب سے بڑی خام خیالی ہے۔
یزید نے بادشاہ بننے کے بعد وہ کیا جو بادشاہ کیا کرتے ہیں۔ اور حضرت حسینؓ نے وہی کیا جو فردوس کے شاہ کو کرنا چاہیے تھا۔ کوفہ سے حضرت سلیمان بن صردؓ جو ایک جلیل القدر صحابی تھے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کے ساتھی تھے انہوں نے اور دیگر سرداروں نے خطوط لکھے تھے۔ حضرت حسینؓ اپنے خاندان کو لے کر چل دیے۔ کوفہ والے‘ جو ان کے وفادار تھے وہ گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیے گئے جبکہ حضرت حسینؓ کو راستے میں خاندان سمیت کربلا کے مقام پر شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایسا طوفان اٹھا کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ قافلۂ حسین کے قاتل ایک ایک کرکے قتل کر دیے گئے‘ بنو امیہ اور بنو عباس میں دشمنی شروع ہو گئی۔
الغرض حضرت حسینؓ کی قربانی امت کو وہ راہ دکھاتی ہے جس میں رحمت ہی رحمت ہے کہ تدریج کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے جمہوری نظام کو اس کی روح کے مطابق اپنائے۔ امت مسلمہ متحد ہو۔ حسینی راہ کو اپنا کر‘ شیعہ سنی دونوں آگے بڑھیں۔ حضرت حسینؓ کسی ایک کے نہیں‘ پوری امت اور تمام انسانیت کے سیاسی رہنما اور قائد ہیں۔ ان کی راہ پر چلنے ہی سے دل ظلم کی راہ سے رکے گا اور اقتدار کا انتقال پُرامن بنے گا۔