اللہ تعالیٰ نے مکہ کو مکرمہ بنایا اور مدینہ کو منورہ بنایا۔ ختم المرسلینﷺ نے ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی دعوت کا آغاز مکہ مکرمہ سے کیا اور ''محمد رسول اللہ‘‘ کا پرچم مدینہ منورہ میں بلند فرمایا۔ دونوں شہروں میں دونوں پرچم بلند ہو چکے تو یہ سرزمین ''حرمین شریفین‘‘ بن گئی۔ بیسیویں صدی عیسوی میں شرف وعزت والی اس سرزمین کے مشرق میں ایک ایسا ملک معرضِ وجود میں آیا جس کی بنیاد اور اساس یہی کلمہ قرار پایا۔ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیزؒ اور پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مابین شاندار اور محبت آمیز تعلقات تھے۔ دونوں ملکوں کے مابین دوستی اور تعاون کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ چند دن قبل دنیا کی تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ اختیار کر چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین 17 ستمبر کو ایک نیا دفاعی معاہدہ ہو چکا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے والد گرامی شاہ سلمان بن عبدالعزیز‘ خادم الحرمین الشریفین کے لقب سے ملقب ہیں‘ اس معاہدے کے بعد اب وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پاسبان حرمین الشریفین بن گئے ہیں۔ تمام اہلِ پاکستان کیلئے یہ ایک اعزاز ہے۔ یہ اعزاز ہم لوگوں کو ''بنیانٌ مرصوص‘‘ اور ''معرکہ حق‘‘ کی کامرانی کے بعد ملا ہے۔ کامیابی کا سہرا پاک افواج کے سر پر سجتا ہے اور اس سہرے اور جھومر میں جو چمکتا دمکتا یاقوت ہے‘ اس کا نام پاک فضائیہ ہے۔
چند دن قبل محترم جسٹس (ر) نذیر احمد غازی نے ایک مجلس کا اہتمام کیا‘ جس کے روح رواں ایئر کموڈور (ر) خالد چشتی صاحب تھے۔ معروف دانشور سید فہد علی کاظمی اور مجھ سمیت سب احباب کو جناب نوید شہزاد نے ہم مجلس بنا دیا۔ دورانِ گفتگو جناب خالد چشتی نے انکشاف کیا کہ پاک فضائیہ کے ایئر چیف مارشل (ر) پرویز مہدی قریشی‘ جو پی کیو مہدی کے نام سے معروف تھے‘ بیرونِ ملک کسی ایئر شو میں موجود تھے‘ وہاں ایک بھارتی دانشور پُشپندر سنگھ چوپڑا نے ان سے ملاقات کی اور بتایا کہ انکی پیدائش پاکستان کے علاقے مری کی ہے‘ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی جنم بھومی اور پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ پی کیو مہدی کی دعوت پر وہ پاکستان آئے تو مجھے (خالد چشتی کو) ان کا پروٹوکول افسر مقرر کر دیا گیا۔ چند دن وہ یہاں رہے‘ اس دوران باہمی بات چیت میں زیادہ تر پاک فضائیہ موضوعِ گفتگو رہی۔ باتوں باتوں میں ایک دن پشپندر سنگھ کہنے لگے: ایک ایئر شو کے موقع پر میری ملاقات اسرائیل کے ایئر چیف سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: دنیا میں ایک ایسی بھی ایئر فورس ہے جو آپ کی ایئر فورس سے اپنے آپ کو برتر خیال کرتی ہے۔ اسرائیلی ایئر چیف نے تعجب سے پوچھا: وہ کون سی ایئر فورس ہے جو اپنے آپ کو ہم سے برتر خیال کرتی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ پاکستان کی ایئر فورس ہے۔ قارئین کرام! قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ایک بھارتی مصنف اسرائیلی ایئر چیف کو باور کروا رہا ہے کہ پاک فضائیہ تمہاری فضائیہ سے برتر ہے۔ اس پر اسرائیلی ایئر چیف نے کہا: مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ پاک فضائیہ اسرائیلی فضائیہ سے بہتر ہے یا نہیں؛ البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ آج تک فضائی لڑائی میں ہمارے پانچ طیارے تباہ ہوئے ہیں اور یہ سارے کے سارے پاکستان کی فضائیہ نے تباہ کیے۔
اسرائیل کو قائم ہوئے 77 سال ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے ہجری سال کا حساب لگائیں تو اسرائیل کو بنے ہوئے قریب80 سال ہو چکے‘ ان اسّی برسوں میں اسرائیل کی فضائیہ کے خلاف جس فضائیہ نے ریکارڈ بنایا وہ صرف اور صرف پاک وطن کی فضائیہ ہے۔ یہ ایئر مارشل نور خان مرحوم اور ایئر مارشل اصغر خان مرحوم کی فضائیہ تھی۔ ہم اہلِ پاکستان کا تازہ اعزاز یہ ہے کہ انڈین ایئرفورس اور اسرائیلی ایئر فورس نے مل کر پاکستان پر ہوائی حملہ کیا تو سات مئی 2025ء کو پاک فضائیہ نے اپنے ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی کمان میں سات طیارے مار گرائے۔ یہ ایک نیا ریکارڈ بن گیا۔ پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے جو طیارے آئے ان کی تعداد 85 تھی‘ پاکستان فضائیہ نے صرف وہ طیارے مارے‘ جنہوں نے حملہ کیا تھا‘ باقی کو جانے دیا۔ محترم خالد چشتی سے میں نے پوچھا کہ گرائے جانے والے طیاروں کی تعداد تو چھ بیان کی جاتی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا: یہ ابتدائی خبر تھی‘ در حقیقت یہ تعداد سات ہے اور انکے ثبوت بھی موجود ہیں۔ بھارتی صحافی پشپندر سنگھ نے ایک اور مصنف کیساتھ مل کر پاک فضائیہ پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام Psyche of the Pakistan Air Force ہے۔ پاک فضائیہ کے شہبازوں کی تربیت کیسی زبردست ہے‘ وہ دشمن کے خلاف اڑان بھرتے ہیں تو انکے ایمان اور جذبوں کی کیفیت کیسی باکمال ہوتی ہے‘ انکی نفسیات کی مضبوطی ہمالیائی پہاڑوں جیسی ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ خراجِ تحسین جو آج دنیا بھر کی ایئر فورسز کے ہیڈ کوارٹرز کے اندر گونج رہا ہے۔
پاک فضائیہ کے شیر دل پائلٹ راشد منہاس کو کون نہیں جانتا‘ جس نے پاک وطن اور اہلِ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینا افضل سمجھا۔ انہیں نشانِ حیدر سے بھی نوازا گیا۔ راشد منہاس پاک فضائیہ کے ایسے شاہین تھے جو پاک وطن کے ساتھ وفاداری کا ایک نظام دے گئے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اور اس میں محترم خالد چشتی نے اضافہ کیا اور ہمارا تیقن ہے کہ ہمارا ہر شاہین راشد منہاس ہے۔ ہم ماضی میں جھانک کر ریاست مدینہ منورہ کی فضائوں میں دیکھیں تو موجودہ اردن کی فضائوں میں ہمیں حضرت علی المرتضیٰ کے بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما دکھائی دیتے ہیں۔ علی کا معنی بلندی اور جعفر کا معنی دریا ہے۔ نگاہ بلند ہو یعنی اپنے اللہ کی خاطر جان کے نذرانہ ہو اور اسی کی دید کی تمنا ہو‘ تو یہ تمنا ایسی ہے کہ جیسے دریا ہوتا ہے‘ جو رواں دواں رہتا ہے۔ پہاڑوں کی تنگنائیوں میں وہ بہت تیز ہوتا ہے۔ پتھروں سے واسطہ پڑے تو اس کی تیزی میں شور بھی شامل ہو جاتا ہے۔ حضرت جعفر طیارؓ حبشہ (ایتھوپیا) میں سورۂ مریم کی آیات تلاوت کرکے نجاشی اور ان کے اہلِ دربار کو دعوت دے رہے تھے تو یوں تھے جیسے ہموار زمین پر دریا رواں دواں ہو۔ وہی جعفرؓ جب حضرت زیدؓ بن حارثہ کی کمان میں اردن کے علاقے موتہ میں جاتے ہیں تو حضورﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد پرچم تھام کر تین ہزار کے لشکر کی کمان سنبھال لیتے ہیں۔ حضرت جعفرؓ دشمنوں کی صفیں درہم برہم کر رہے تھے کہ رومی لشکر کا ایک بڑا حصہ ان پر ٹوٹ پڑا۔ لڑتے لڑتے ان کا پہلے ایک بازو کٹا‘ پھر دوسرا‘ پھر وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اور ان کی جگہ کمان حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ نے سنبھال لی۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر کہتے ہیں کہ میں اس جنگ میں شریک تھا‘ حضرت جعفرؓ کے سینے اور سامنے کے جسم پر زخموں کی تعداد 50 تھی جبکہ پورے جسم پر 90 یا اس سے زیادہ زخم تھے (صحیح بخاری‘ معجم الکبیر)۔ مزید یہ کہ حضورﷺ نے فرمایا ''میں رات جنت میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جعفر فرشتوں کے ہمراہ (آسمان فردوس میں) پرواز کر رہے ہیں‘‘۔ اللہ نے ان کے بازوئوں کے بدلے انہیں دو پَر عطا فرمائے اسی لیے آپؓ کا لقب ''طیار‘‘ ہو گیا‘ یعنی (جنت کی فضائوں میں فرشتوں کے ہمراہ) پرواز کرنے والا۔
پاک فضائیہ کے پائلٹ جذبے لیتے ہیں تو حضرت جعفرؓ بن ابی طالب سے لیتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کی بلند نگاہی سے لیتے ہیں۔ طیارہ تو ایک مشین ہے‘ جو اسے اڑانے والا ہے اس کے ایمان اور جذبوں کی اڑان جب حضرت جعفر طیارؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''ٹیک آف‘‘ کرتی ہے تو پھر دنیا بھر کی ایئر فورسز کے تجربہ کار اور فضائی جنگوں کے ماہرین یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ جی ہاں! یہ سارا کچھ حرارتِ ایمان سے ہوا۔ جے 10 سی ہوں یا جے ایف 17 تھنڈر یا کوئی اور طیارہ۔ اس کی حرارت سے لاکھوں گنا بڑھ کر جن کے ایمان میں حرارت ہوتی ہے اس کا نام ہے پاک فضائیہ!