بابے اور روحانیت

یہ کوئی سترہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے، ان دنوں ہم لاہور میں تازہ تازہ وارد ہوئے تھے، صحافت کا آغاز تھا، وقت خاصا میسر تھا۔ سوچا کہ مختلف ادیبوں، دانشوروں سے ملاقاتیں کی جائیں۔ اشفاق احمد کی تحریر اور گفتگو نے ہم سب پر گہرے اثرات مرتب کر رکھے تھے۔ بابے اور صوفیوں سے دلچسپی تھی، روحانیت ’’سیکھنا‘‘ چاہتے تھے، سیکھنا کا لفظ دانستہ استعمال کیا کہ آج بھی بہت سے نوجوانوں سے بات ہوتی ہے تو وہ روحانیت سیکھنے کے طلبگار نظر آتے ہیں، گویا یہ کوئی ٹیکنیکل ڈپلومہ یا کمپیوٹر پروگرامنگ کورس ہے۔ خیر سردیوں کی ایک خنک دوپہر ہم اشفاق احمد سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اشفاق صاحب ایک حیران کن آدمی تھے۔ ہماری نسل اور ہمارے بعد کے نوجوانوں پر اشفاق صاحب نے بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ ان کی تحریروں کی تاثیر اپنی جگہ، مگر ان کے ٹی وی پروگرام زاویہ نے لاکھوں بلکہ کئی ملین افراد کو متاثر کیا۔ آج کل بھی فیس بک پر زاویہ اور اشفاق احمد کی آخری کتاب ’’بابا صاحبا‘‘ کے اقتباسات پوسٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی پر ان کا ڈرامہ ’’من چلے کا سودا‘‘ چلا، اس نے ہم دوستوں کو مسحور کر کے رکھ دیا۔ نوجوان قارئین کو میں اشفاق احمد کے افسانے پڑھنے کا مشور ہ ضرور دوں گا۔ ان کا اپنا ایک سٹائل اور خاص قسم کا ذائقہ ہے، جو کہیں اور نہیں مل سکتا۔ اشفاق احمد کی جو خوبی آج تک دل پر نقش ہے، وہ ان کا ہمارے جیسے گمنام بے وسیلہ نوجوانوں کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالنا تھا۔ فون پر ان سے درخواست کی کہ ایسا وقت دیں، جب رش کم ہو۔ انہوں نے اپنے دوپہر کے سونے کی قربانی دی اور تین چار گھنٹے تک ہمارے پاس بیٹھے رہے۔ انواع و اقسام کے پھلوں اور مشروبات سے تواضع الگ تھی۔ احمد پور شرقیہ جیسے پسماندہ شہر سے اٹھ کر لاہور آنے والے میرے جیسے نوجوانوں کو اشفاق احمد جیسی سلیبریٹی سے اتنی توقیر اور عزت افزائی کی توقع نہیں تھی۔ اسی طرح کی دو چار نشستیں بعد میں بھی رہیں، ہر بار کئی الجھنیں حل ہوئیں، نئے نقطے پیدا ہوئے اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات میں ایک ساتھی نے پوچھا کہ کسی بابے کا پتہ بتائیں؟ اشفاق صاحب کی آنکھوں میں چمک آ گئی، ترنت بولے: ’’بچو، کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بی اے کرنے کے لئے چودہ سال محنت کی، بابا ڈھونڈے کے لئے ایک مہینہ تو محنت کرو‘‘۔ بعد کی ملاقاتوں میں مختلف زاویوں سے یہ سوال دہرایا جاتا۔ ہر بار ان کا جواب ہوتا، ’’ہر ایک کو اپنا بابا خود ڈھونڈنا ہوتا ہے، یہ بتانے سے نہیں ملتا، تھوڑی کوشش کرو، خواہش پیدا کرو تو رہنمائی ازخود مل جائے گی‘‘۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آتی۔ ایک دن وہ کہنے لگے، ’’تم لوگ بابا کیوں ڈھونڈنا چاہتے ہو؟ کیا اس لئے کہ اس سے دعا کرا کے اپنے کام نکلوا سکو، اچھی ملازمت، پسند کی شادی، جاب میں ترقی، باہر جانے میں کامیابی وغیرہ ؟…۔ بابے اس لئے نہیں ہوتے، ویسے بھی محنت اپنی ہوتی ہے، استاد تو صرف کسی حد تک رہنمائی ہی کر سکتا ہے‘‘۔ پھر کہنے لگے، ’’یہ جو باہر سڑک پر جھاڑو لگا رہا ہے، اسے اپنا بابا بنا لو تو یہ تمہارا بابا بن جائے گا‘‘۔ ان کی اس طرح کی باتیں سمجھ سے بالاتر تھیں، ہم جھنجھلا کر ایک اور سوال داغ دیتے، وہ کھل کر مسکراتے اور پھر اپنے مخصوص نرم، شفیق انداز میں پہلے سے ٹیڑھا جواب دے دیتے۔ زیادہ زور دیتے تو کہتے، کچھ ذکر کیا کرو، اللہ کو یاد کرو گے تو تمہاری بالائی منزل (دماغ) میں لگے جالے، جھاڑ جھنکار صاف ہونے لگے گا، اندر کی سیاہی کم ہو گی اور من کی پیاس بھی بجھے گی۔ انہی دنوں لاہور کے معروف صوفی دانشور اور صاحب عرفان بزرگ سید سرفراز شاہ صاحب کے پاس جانا ہوا، ان کی گفتگو سنی تو بہت سے مسائل حل ہو گئے۔ ویسے اشفاق احمد‘ سرفراز شاہ صاحب کے مداح تھے اور ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ صاحب کے پاس جب میں شروع میں گیا تو چھوٹتے ہی فرمائش کر دی کہ شاہ صاحب روحانیت سیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ مسکرا کر بولے، کیوں؟ یہ سن کر چکرا گیا، کچھ سمجھ نہ آیا کیا جواب دوں، بے اختیار منہ سے نکلا، تاکہ نیک بن سکوں۔ شاہ صاحب نے بڑی نرمی سے کہا: ’’بھائی اس کا بہت آسان نسخہ بتا دیتا ہوں۔ آپ ﷺکی سیرت مبارکہ کا مطالعہ شروع کر دیں، کوئی سی اچھی کتاب پڑھیں، بار بار پڑھیں، اسے سمجھیں اور پھر اس کی پیروی کی کوشش شروع کر دیں۔ ہر مرحلے پر یہ سوچیں کہ ہمارے آقاﷺ کیا کیا کرتے تھے‘ ایسا کرنے سے خود بخود نیک ہو جائیں گے‘‘۔ بہت عمدہ نصیحت تھی، مگر سچی بات ہے، تسلی نہ ہوئی۔ دراصل ہم لوگ روحانیت سے وظائف، عملیات اور نادیدہ قوتوں تک رسائی مراد لیتے ہیں۔ ہمیں تکوینی نظام میں دلچسپی ہوتی ہے، ابدال، اوتاد، قیوم، قطب، غوث وغیرہ کے قصے مسحور کر دیتے اور صاحب کشف بننا مقصود ہوتا ہے۔ دنیاوی تقاضوں اور صحافتی مصروفیات نے ہمارے ذہن سے تو روحانیت کا سودا نکال دیا، پھر یہ بھی ہوا کہ جب اس موضوع پر کچھ مطالعہ کیا اور شاہ صاحب جیسے بزرگوں کی گفتگو سنی تو اندازہ ہوا کہ روحانیت کے پورے سکول آف تھاٹ کا مقصد طالب علم یا سالک کو شریعت پر پابندی کے لئے تیار کرنا ہے۔ یہی واحد مقصد ہے، اس کے سوا روحانیت کچھ بھی نہیں۔ جو بھی ریاضت کرائی جاتی، تصوف کے تمام سلسلوں کے تمام اسباق کا مقصد باطنی صفائی، تزکیہ نفس اور ایثار کی عادت ڈالنا ہے۔ سنت محمدیﷺ پر عمل کرنے کے لئے تیار کرنا، جسمانی اور ذہنی طور پر اتنا مضبوط بنا دینا کہ اپنی اندرونی آلائش سے پاک ہو کر آدمی بے غرض ہو سکے۔ قرآن کا مطلوب انسان بن سکے۔ روحانیت کی جو گلیمرائزڈ شکل دور سے نظر آتی ہے، قریب سے قطعاً ایسا نہیں۔ کسی شخص کو اگر رب تعالیٰ نے کچھ علم عطا کیا بھی ہے تو اس پر پابندیاں اس قدر سخت ہیں کہ وہ اس سے اپنے لئے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی روحانیت آدمی کو راضی بہ رضا ہونا سکھاتی ہے۔ یہ سمجھاتی ہے کہ رب تعالیٰ ہماری مائوں سے کئی سو گنا زیادہ شفیق اور مہربان ہے، اس کے ہر کام میں کچھ مصلحت ہے، رزق میں تنگی ہو یا کشادگی سب اسی کی طرف سے ہے، مصائب بھی اسی کی طرف سے ہیں اور پھر بدلے ہوئے پُرمسرت دن بھی اسی نے لانے ہیں۔ اس لئے اللہ کی مرضی میں خوش رہیں۔ مجھے اکثر فیس بک پر نوجوانوں کی طرف سے دو فرمائشیں آتی ہیں، کسی بابے کا پتہ بتائیں اور روحانیت پر کون سی کتاب پڑھی جائے۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً دنیاوی آلائش میں لتھڑے ہوئے اخبار نویس سے یہ حسن ظن جانے کیوں ان کے دلوں میں آ گیا۔ جی چاہتا ہے کہ اشفاق احمد کا جواب دہرا دیا جائے۔ صرف ایک نکتہ عرض ہے کہ صوفی وہ ہے جو اپنی ذات کے گرد لوگوں کو کھینچنے کے بجائے اللہ کی طرف متوجہ کرے، اپنے آپ کی نفی کرے اور مرید بنانے کے بجائے لوگوں کی اصل بنیاد (قرآن و سنت) کی طرف رہنمائی کر دے۔ یہ جان لینا چاہیے کہ صوفی کا عملیات، پراسرار علوم اور موکلات وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ کرامات نہیں دکھاتا بلکہ اپنی پوری زندگی سنت محمدیﷺ کے مطابق گزارتا ہے، یہی سب سے بڑی کرامت ہے۔ صوفی نصیحت کرنے کے بجائے عملی طور پر رول ماڈل بنتا ہے۔ تصوف پر خاصا لٹریچر موجود ہے، مجھے ذاتی طور پر سرفراز شاہ صاحب کی تینوں کتابیں بہت پسند ہیں۔ کہے فقیر، فقیر رنگ اور فقیر نگری۔ تصوف پر اس سے زیادہ آسان انداز میں نہیں لکھا گیا۔ قاری کو یہ پراسرار دنیا کی طرف لے جانے کے بجائے اپنی زندگی سنوارنے، اپنے اندر تبدیلی لانے پر اکساتی ہیں۔ یہی اصل کام ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں