شدت پسندوں کو تقسیم کرناپڑے گا

چار پانچ سال قبل ایک معروف پاکستانی نژاد برطانوی سماجی رہنما سے ملاقات ہوئی ۔ وہ لندن میں ایک سکول نیٹ ورک چلانے کے ساتھ ایک تھنک ٹینک کے لئے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اپنی سماجی خدمات کی بنا پر انہیں ملکہ برطانیہ سے ایک میڈل بھی مل چکا تھا، جو انہوںنے اپنے کوٹ کی جیب پر آویزاں کرر کھا تھا۔پاکستان میں عسکریت پسندی کی مختلف جہتوں کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔ انہوںنے بتایا کہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں، وہ شدت پسند مسلمانوں کی ذہنی اور فکری بحالی کے لئے کام کرتا ہے۔ پھر اس ری ہیبلی ٹیشن پراجیکٹ کے حوالے سے ایک دلچسپ پریزینٹیشن دی۔ سچ تو یہ ہے کہ خاصا کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ بعد میں بہت بار جی چاہا کہ ہمارے ہاں عسکریت پسندی پر بات کرنے والے بزعم خود ماہرین کو وہ پریزینٹیشن دکھائی جاسکے۔ انہیں اندازہ ہوکہ شدت پسندی کی کتنی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور ان سے کس طرح ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاںاور بہت سی چیزوں کی طرح عسکریت پسندی اور کالعدم تنظیموں کے حوالے سے بھی سوئپنگ سٹیٹمنٹس سے کام لیا جاتا ہے۔ اس ایشو کو زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
ان صاحب نے ایک دلچسپ مثال کے ذریعے شدت پسندوں کی تقسیم سمجھانے کی کوشش کی۔ کہنے لگے، فرض کر لیں کہ ہم ایک خاندان کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ان میں ایک نوجوان ایسا ہے جوجانوروں کے حقوق کا پرزورعلمبردارہے اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ذہن رکھتا ہے۔یہ ایک معتدل طرز فکر ہے ۔ اس نوجوان کا بڑا بھائی بھی بالکل وہی خیالات رکھتا ہے، مگر وہ حیوانات کے ساتھ بے رحمی برتنے والوں کے خلاف تحریک چلا رہا ہے۔ وہ پمفلٹس لکھتا اور لومڑیوں کی دم سے فر کوٹ بنانے والی فیکٹریوں کے باہر مفت بانٹتا ہے ، ان فرکوٹس ، جانوروں کی کھال سے بنائے جانے والے پرس وغیرہ کے بائیکاٹ کی اپیل کرتا ہے وغیرہ ۔ اسے ہم ایکٹو نوجوان سمجھتے ہیں،جو اپنے خیالات کا پرچار کرتا اور اس کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے میں جتا رہتا ہے۔ اسی خاندان کا ایک اور نوجوان اس حوالے سے زیادہ تیز اور جارحانہ خیالات کا حامل ہے۔ اس کے خیال میں جانوروں پر ظلم کرنے والے ظالم اور گناہ گار ہیں، ایسے لوگوں کا ایمان بھی خطرے میں ہے اور ان کی شدید مذمت ہونی چاہیے۔ یہ نوجوان سخت گیر فکر کا حامل ہے۔ اس کا ایک بڑا بھائی بھی ویسے سخت گیر خیالات رکھنے کے ساتھ زیادہ سرگرم اور منہ پھٹ ہے۔ وہ جانوروں کی کھالوں کا کاروبار کرنے والے اداروں کے خلاف ریلیاں نکالتا، ان کے دفاتر کے باہر نعرے لگاتا اور برا بھلا کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کیٹیگریز کے مطابق یہ نوجوان ریڈیکل ہے۔ اسی خاندان کا ایک اور شخص ایک قدم آگے بڑھ کر مزاحمت کرتااوربے رحمی حیوانات کا ارتکاب کرنے والوں سے بھڑ جانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کسی کو تھپڑ مکہ مار دیا ، گالیاں نکالیں اور ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ ایک شدت پسند ہے ۔ اس خاندان میں ایک ایسا جوشیلا نوجوان بھی ہے جس نے ایک فیکٹر ی پر گھریلو ساختہ بم سے حملہ کر دیا اور فائرنگ کر کے فیکٹری مالک کو قتل کر دیا۔ یہ دہشت گردہے۔ 
اب یہ ساری مختلف کیٹیگریز ہیں۔ سخت گیر فکر سے شدت پسندی، ریڈیکل سے دہشت گردی تک ارتکاب کرنے والے مختلف حلقے۔ ان تمام کو ایک ہی طرح سے ڈیل نہیں کیا جا سکتانہ کرنا چاہیے۔ برطانیہ میں سیون سیون کے دھماکوں کے بعد شروع میں شدت پسند ذہن رکھنے والے مسلمانوں پر کریک ڈائون ہوا اور سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھا گیا۔ بعد میں ماہرین نے ریسرچ کر کے یہ نتائج نکالے کہ ان کی الگ الگ کیٹیگری بنا کر الگ الگ ڈیل کیا جائے۔ ریسرچ کے مطابق اس کے امکانات موجود رہتے ہیںکہ کوئی سخت گیر فکر رکھنے والا نوجوان اپنی سوچ کے ارتقائی مراحل میں دہشت گردی تک پہنچ جائے، مگر اس کے بھی قوی امکانات ہیں کہ وہ صرف اپنی اسی کیٹیگری تک ہی محدود رہ جائے بلکہ اسے مکالمہ اورگفتگو سے مزید نرم کر کے ماڈریٹ بنایا جا سکے۔ 
ایسا ایک تجربہ چند سال پہلے مصر میں کیا گیا۔ حسنی مبارک کے دور میں جیل میں بندمذہبی قیدیوں کے ساتھ ایک مکالمے کے عمل کا آغاز ہوا۔ ان دنوں جیل میں حزب التحریر، اخوان المسلمون، القاعدہ اور بعض شدت پسند تنظیموں کے لوگ قید تھے، ان میںاسامہ بن لادن کے نائب اور آج کل القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی سابقہ تنظیم کے جنگجو بھی شامل تھے۔ انہیں جیل میں کتابیں فراہم کی گئیں۔ اس وقت کے مفتی اعظم مصر شیخ علی جمعہ نے اس مکالمہ میں دلچسپی لی اور قیدیوں کے لئے سہولت کار کے فرائض انجام دئیے۔ کئی ماہ تک یہ مکالمہ چلتا رہا۔ اخوان المسلمون تو خیر ایک جمہوری جماعت ہے جس نے مسلح جدوجہد سے انتہائی مشکل وقت میں بھی گریز کیا ،مگر وہ شدت پسند جنگجو جو پہلے مسلح جدوجہد سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوتے تھے، ان میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی آئی اور ایک بڑے حلقے نے آئندہ کے لئے 
پرامن جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔ حزب التحریر کے کئی ممتاز لوگوںنے اپنی جماعت چھوڑ دی ، القاعدہ کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ یہ تبدیلی اس قدر بڑی اور نمایاں تھی کہ ایمن الزویری کو خود اس کے خلاف ایک کتاب لکھنی پڑی۔ شیخ الازہر علی جمعہ کا کہنا تھا کہ مکالمہ کے ذریعے ہی ہم تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ایک انتہا پسند اچانک ماڈریٹ ہوجائے ۔ اس میں تبدیلی مرحلہ وار آئے گی۔ شدت پسندی ترک کر نے کے باوجود وہ ایک سخت گیر فکر کا حامل تو رہے گا۔ اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ جب سخت گیر فکر کاحامل سسٹم کا حصہ بن جائے تو بتدریج وہ نرم ہوتا جائے گا۔ 
ہمارے ہاںکالعدم تنظیموں کی اصطلاح وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ہر وہ تنظیم جس پر حکومت پابندی لگا دے، وہ کالعدم کہلاتی ہے، مگر یاد رہے کہ ہر کالعدم تنظیم ضروری نہیں کہ ایک ہی سطح کی دہشت گرد تنظیم ہو۔ ان میں سے کچھ سخت گیر فکر رکھنے والی تنظیمیں اور بعض مختلف مسالک کی گمراہی یا تکفیر کی قائل ہیں۔ اب جہاں تک دہشت گرد تنظیموں کا معاملہ ہے، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی یا وہ مختلف سپلنٹر گروپ جو ریاست اور ریاستی اداروں، شہریوں پر حملہ آور ہوتے ، بے گناہ افراد کی ہلاکت کے خواہاں ہیں، ان کے ساتھ تو کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گرد کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ۔ تاہم بعض ایسی کالعدم تنظیمیں ہیں جن کی سخت گیر فکر اور دوسرے مسالک کے لئے ان کے تکفیری رویے کو دیکھتے ہوئے ان پر پابندی لگائی گئی۔ یہ پابندی لگانا درست تھا کہ اس سے ریاست کے عزم اور سخت گیر فکر کے لئے زیرو ٹالرنس کا پتہ چلتا ہے ۔تاہم اس حوالے سے معاملات کو سلیقے سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ سخت گیر فکر والے لوگ لاکھوں میں ہوسکتے ہیں۔ ان سب کو اٹھا کر سمندر میں نہیں پھینکا جا سکتا۔ ان سب کو جیلوں میں بند کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے لئے طریقہ کار یہی ہے کہ اہل علم ان کے ساتھ مکالمہ کا آغاز کر یں اور سوچ کی تبدیلی کی کوشش کریں۔ دوسری طرف ان کالعدم تنظیموں میںسے جو لوگ سسٹم کا حصہ بننے کو تیار ہیں، وہ پرامن سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے اور الیکشن، جمہوریت، آئین کو تسلیم کر رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔امریکہ میں ٹرمپ جیسے لوگ اور یورپ میںتارکین وطن کے لئے نفرت آمیز سوچ رکھنے والی انتہائی رائٹ کی سیاسی جماعتوں کو نہ صرف برداشت کیا گیابلکہ اب کئی جگہوں پر اقتدار میں آ رہی ہیں۔ ہمارے ہاں مولانا صوفی محمد اور ان جیسے بے لچک لوگوں پر سب سے بڑا اعتراض بھی یہی تھا کہ یہ ریاست کے آئین ، جمہوری سسٹم اور انتخابات وغیرہ ہی کو نہیں مان رہے تو انہیں کس طرح قبول کیا جائے ؟ یہ اعتراض درست تھا، مگر اب جو لوگ سسٹم کو تسلیم کر کے ، الیکشن لڑنے پر آمادہ ہیں، سیاسی عملیت پسندی انہیں اپنے ماضی کے شدت پسندانہ موقف کو چھوڑ دینے پر مجبور کر رہی ہے، انہیں آنے دینا چاہیے۔جھنگ سے مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے کا ایم پی اے بننا خوش آئند ہے، جمعیت علما ئے اسلام جیسی مین سٹریم جماعت کے وہ حصے بنے ہیں، یہ بھی مثبت علامت ہے۔ اسے نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی نہیں سمجھنا چاہیے۔ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اسلام آباد میں مولانا لدھیانوی کے جلسے کے حوالے سے غیر ضروری حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ مولانا لدھیانوی سمیت ایسے بہت سے لوگ ہیں جو سسٹم کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ان کے سابق شدت پسند ساتھی اس پر انہیں مطعون کررہے ہیں۔ شدت پسندی سے گریز کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ہم انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں