بلاول بھٹو زرداری کو سندھ میں اپنے پہلے امتحان ہی میں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ پیپلزپارٹی کے نئے سیاسی جنم کے بارے میں جس جس نے امیدیں وابستہ کی تھیں، ندامت اور شکست خوردگی ہر ایک کے مقدر میں آئی ۔ بلاول نے کرپشن کے خاتمے اور طاقتور طبقات کے خلاف جدوجہد کرنے کے بلند وبانگ نعرے لگائے ، عمل کا وقت آیا تو یہ دعوے صفر ثابت ہوئے۔ پیپلزپارٹی کا مسٹر کلین سندھ یعنی اپنے حلقہ اثر میں موجود ایک مثبت علامت کو بھی نہ بچا سکا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے روٹھے ہوئے کارکنوں کو واپس لانے، شکستہ دل ساتھیوں کا مورال بلند کرنے اوراگلے انتخابات میں پنجاب کا سیاسی معرکہ لڑنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ ایک لحاظ سے پی پی پی کو پنجاب میں ری لانچ کیا جا رہا ہے۔ نئی صوبائی قیادت لانے کے ساتھ ساتھ بلاول نے لاہور میں کئی روز تک قیام کر کے کارکنوں سے رابطہ مہم چلائی۔میڈیا کے ساتھ بھی اچھا خاصا بڑا انٹرایکشن ہوا۔ میں نے کئی سینئرساتھیوں سے پوچھا کہ بلاول سے ملاقات کے بعد آپ کا کیا تاثر بنا؟جواب مایوس کن تھا۔ تقریباً سب نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔پیپلزپارٹی سے ہمدردی رکھنے والے ایک سینئر صحافی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ بلاول کی گفتگو رٹی رٹائی اوراسی پرانے گھسے پٹے بیانیے پر مشتمل تھی ، جس کی گردان پچھلے زرداری صاحب پچھلے آٹھ نو برسوں سے کر رہے ہیں۔فکر میں تازگی ہے نہ جملوں میں۔ مغرب سے تعلیم یافتہ نوجوان سیاستدان کا اپنا ویژن نظر نہیں آیا۔ ایک سینئر رپورٹر نے بلاول سے کہا کہ میں نے بھٹو صاحب کو بھی کور کیا ہے، بی بی کے بہت سے پریس پروگرام کی کوریج کی ، آب آپ کی گفتگو بھی سن رہے ہیں، لگتا ہے کہ آپ نے اپنے بڑوں کی غلطیوں سے نہیں سیکھا، بھٹو صاحب نے اصغر خان کو آلو کہا تو یہ بدتہذیبی پر مبنی جملہ بھٹو صاحب کے ساتھ سفر کرتا رہا، کبھی وہ اس کے طعنے سے نکل نہیں سکے، آپ عمران خان کو جس طرح چاچا کہہ کر پکار رہے ہیں، یہ مناسب نہیں۔ اس پر بلاول کے جواب سن کر کئی صحافی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ بلاول نے کہا، اگر میں ایسا نہ کروں توپھر آپ لوگ میری گفتگو کی بریکنگ نیوز نہیں بناتے ۔ صحافیوں نے حیرت سے سوچا کہ ایک بڑی پارٹی کا لیڈر کیا ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز کا محتاج ہے اور اس کے لئے وہ کوئی بھی عامیانہ حرکت کرنے کو تیار ہے۔
بلاول کے '' مسٹر کلین‘‘ امیج کو بڑا دھچکا آئی جی سندھ کو ہٹائے جانے سے پہنچا۔ چند دن پہلے سندھ کے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ پچیس چھبیس سال پہلے اے ڈی (اللہ ڈینو)خواجہ نے اپنی پہلی سروس بطور اے ایس پی میرے آبائی شہر احمدپورشرقیہ سے شروع کی۔ مجھے یاد ہے کہ نوجوان اے ڈی خواجہ نے شہر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ہر طرف اس کی ایمانداری ، جرأت اور دلیری کی باتیں ہورہی تھیں۔ منشیات فروشوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن شروع کیا اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً مقامی منشیات فروش اور دیگر بدنام لوگ شہر چھوڑ گئے تھے۔ اس وقت واپس لوٹے ، جب اے ڈی خواجہ کا تبادلہ ہوگیا۔ خوش قسمتی سے یہ پولیس افسر نمک کی کان میں رہ کر نمک نہ بنا۔ سندھ کے آئی جی کے طور پر اے ڈی خواجہ نے بہت اچھا کام کیا۔تین چار دن قبل انہیں ہٹا دیا گیااور یوں ایک اچھا ، دیانت دار پولیس افسر صوبے میں اچھا کام کرنے اور کرپٹ طاقتور سیاسی لوگوں کی مزاحمت کرنے کی پاداش میں ہٹا دیا گیا۔
میرے سامنے سترہ دسمبر کے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ہے ، یہ رپورٹ دنیا نیوز چینل پر بھی نشر ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق اے ڈی خواجہ کو مبینہ طور پر آصف زرداری کے قریبی ساتھی یا مبینہ فرنٹ مین انور مجید کے احکامات نہ ماننے پر سزادی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس نے بدین میں کاشتکاروں کو ہراساں کیا کہ وہ انورمجید کو گنا فروخت کریں۔ آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کو علم ہوا تو انہوں نے ایس پی بدین کی سرزنش کی اور انہیںقانون کے مطابق چلنے کا حکم دیا۔ اس پر انورمجید نے فون کرکے آئی جی سے تلخ کلامی کی۔ آئی جی نے جواباً کہا کہ وہ سرکار کے ملازم ہیں، انور مجید کے نہیں اور وہ ان کے احکامات نہیں مانیں گے۔ اس گفتگو کے تھوڑی دیر بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی خواجہ کو فون کر کے بتایا کہ دبئی سے فون آیا تھا اور شدید ناراضی ظاہر کی گئی ، اب آپ کا تبادلہ کرنا پڑے گا۔دنیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل انورمجید کے کلفٹن والے گھر سے نثارمورائی کا اسلحہ پکڑا گیا تھا، اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی قیادت نے آئی جی اے ڈی خواجہ پر دبائو ڈالا کہ اسلحہ واپس کیا جائے اور مقدمہ درج نہ ہو ۔ آئی جی نے یہ بات نہ مانی۔ رپورٹ کے مطابق محترمہ فریال تالپور کو بھی سابق آئی جی خواجہ سے شکوہ تھا کہ انہوں نے میرٹ پر پولیس میں بھرتیاں کرکے ''ظلم ‘‘کیا ہے، انہوں نے آنے والے انتخابات کے پس منظر میں حلقہ کے لوگوں میں ملازمتیں بانٹنی تھیں۔ اس وقت زرداری صاحب کے کہنے پر صوبائی حکومت نے وفاق سے آئی جی کے تبادلے کا کہا، مگر وفاق نے اعتراض کیا، ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر کراچی نے بھی مخالفت کی۔ اس بار سندھ حکومت نے تیزی دکھائی اور فوری طور پر اے ڈی خواجہ کو تبدیل کر ڈالا۔
اہم بات یہ ہے کہ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے حوالے سے چند دن پہلے سے خبریں اور تجزیے شائع ہوتے رہے ، تجزیہ کاروں نے اچھی شہرت رکھنے والے آئی جی پولیس کے تبادلے پر تشویش کا اظہار کیا، پندرہ سابق آئی جی پولیس کااس حوالے سے ایک احتجاجی خط بھی شائع ہوا۔یہ پہلا موقع ہے کہ سابق پولیس افسران ایسا چیختا چلاتا احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بلاول بھٹو اس معاملے میں مداخلت کریں گے ، مگرپارٹی کے نوجوان انقلابی لیڈر کے نزدیک شائد یہ کوئی اہم ایشونہیں یا پھر ان میںاپنے والد محترم کے احکامات کی مزاحمت کرنے کی جرأت نہیں۔اب جبکہ تبادلہ ہوچکا، صوبائی حکومت کی جانب سے دلچسپ موقف پیش کیاجا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کے اہم رہنما اور سندھ حکومت کی بیشتر ایشوز میں ترجمانی فرمانے والے مولا بخش چانڈیو نے فرمایا،''اچھے افسروں کو بھی کبھی آرام کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘‘گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ محنتی آئی جی کی تھکن کا احساس کر کے صوبائی حکومت نے انہیں رخصت پر بھیجا۔ حیرت ہے کہ یہ سیاستدان عوام اور میڈیا کو اس قدر غبی اور کوردماغ سمجھتے ہیں؟ وزیراعلیٰ سندھ جنہیں ان کے پیروکارصاف ستھرا سیاستدان کہتے ہیں، انہوں نے فرمایا، ''اے ڈی خواجہ کی جگہ بھی کوئی سینئر افسر ہی آئے گا۔‘‘ ظاہر ہے آئی جی کی سیٹ پر کوئی تھانیدار تو نہیں لگے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر ایمانداری سے کام کرنے کا یہ صلہ دیا جائے گا تو پھر کون احمق افسردیانت داری کی جرأت کرے گا؟
میں تلاش کرتا رہا کہ بلاول نے اس حوالے سے شائد کوئی ٹویٹ کیا ہو۔ ممکن ہے وہ اپنی ناکامی کا اعتراف ہی کر لیں کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کی،مگر افسوس کہ اے ڈی خواجہ کو نہ بچا سکا۔ بلاول بھٹو کا تمام انقلاب ، بھٹو کا نواسہ ، بی بی کا بیٹا ہونے کا دعویٰ اس معاملے میں بھاپ بن کر اڑ گیا۔ان کی پارٹی میں کئی انکل موجود ہیں، بلاول ان میں سے کسی کو بلا کر پوچھیں کہ کبھی بی بی نے بھی زرداری صاحب کے کہنے پر اس طرح آئی جی کی سطح کے افسر تبدیل کئے تھے ؟ بی بی کے ایک پرنسپل سٹاف افسر احمد صادق نے ایک بار بتایا تھا، جب بی بی وزیراعظم تھیں تو وہ صبح سات بجے کام شروع کر دیتیں اور اہم ٹرانسفر، پوسٹنگ کے معاملات دس گیارہ بجے تک نمٹا دیتیں، کیونکہ زرداری صاحب صبح گیارہ بجے اٹھ کر تشریف لاتے اور اکثر بی بی پر زور دیتے کہ فلاں افسر کا تبادلہ کریں، مگر محترمہ بے نظیر بھٹو صاف انکار کر دیتیں کہ فیصلہ ہوچکا اور کسی اچھے افسر کو میں اس طرح تبدیل نہیں کر سکتی۔ بلاول بھٹو کے دعوے اپنی جگہ ، مگر عملی طور پر وہ اپنے پہلے امتحان میں ناکام ہوئے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ یہ زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی ہے، کوئی اور پارٹی کا' شو بوائے ‘‘تو ہوسکتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔