کیا آپ نسیم طالب کو جانتے ہیں؟

ہر گھر ، خاندان یا محلے میں ایک آدھ ایسا بابا ضرور ہوتا ہے جو اپنے مزاج، انداز اور گفتگو میں دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ پنجابی اور سرائیکی ابلاغ میں ایسے لوگوں کے لئے'' وکھری ٹائپ کا بابا‘‘ والی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔یہ لوگ بلا کے صاف گو، ضرورت سے زیادہ کھرے اور تلخی کی حد تک سچ بولنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا کرخت لہجہ، کھردرا ، درشت اسلوب انہیں محلے میں مقبول نہیں ہونے دیتا۔ لوگ ان کی تیز دھار زبان سے خائف بھی رہتے ہیں اور اندر ہی اندر اس کی سچائی کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ یہ بے رحم حقیقت پسند ہوتے ہیں یا پھر شائد ان کا حقیقت پسندی سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا، ... وجہ جو بھی ہو، سسٹم میں یہ فٹ نہیں ہوتے ، ہمارے جیسے معاشروں میں انہیں نکال باہر کیا جاتا ہے ، مغربی معاشروں نے اپنے تجربات سے اتنا سیکھ لیا ہے کہ وہ انہیں کارنر میں تو دھکیل دیتے ہیں، مگر ان کی موجودگی برداشت کر لی جاتی ہے ، شائدا س لئے کہ ہر معاشرے پر ایسے ادوار آتے ہیں، جب طے شدہ پیمانے توڑنے اور قائم شدہ بیرئر ہٹانے کے لئے ایسے اہل دانش کی ضرورت پڑتی ہے جوعام رواج سے ہٹ کر سوچتے ہوں۔ یہی لوگ آئوٹ آف باکس سوچ کی نئی راہیں نکالتے ہیں۔نوم چومسکی ہوں، آنجہانی ایڈورڈ سعید ، زیڈ نیٹ(https://zcomm.org/znet/) والے البرٹ مائیکل ہوں یا ان جیسے دیگر دانشور...ان سب کو امریکی مین سٹریم میڈیا اور ادارے ناپسند کرتے ہوئے بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ 
نسیم طالب(Nassim Nicholas Taleb ) بھی ایک ایسے ہی دانشور، ماہر معاشیات اور رسک انالسٹ ہیں۔ نسیم طالب لبنانی نثراد ہیں۔ نسیم طالب رسک مینجمنٹ کے ماہر ہیں ، وہ مروجہ معاشیاتی تصورات کے سخت ناقدہیں اور اپنے مضامین میں وہ بڑے عالمی معاشی بحران کی پیش گوئیاں کرتے رہے، دو ہزار آٹھ کے بحران نے وہ سب باتیں سچ کر دکھائیں۔ نسیم طالب کی کتاب بلیک سوان 2007ء میں شائع ہوئی تھی، اس میں وہ سب کچھ کہا گیا، جو بعد میں درست نکلا۔ مالی بحران کے بعد یہ کتاب ہاٹ کیک کی طرف فروخت ہوئی اور اب تک اس کی کئی ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے مغرب میں نسیم طالب کو اہم دانشور کے طور پر لیا گیا، ان کے مضامین، انٹرویوز اور کتابوں کو اہمیت دی جاتی ہے، مختلف زبانوں میں فوری تراجم ہوجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں نسیم طالب کی ایک اہم تقریر پڑھنے کا اتفاق ہوا، جی چاہا کہ اسے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے ۔
بیروت یونیورسٹی میں دیا گیا یہ لیکچر نوجوان مصنف اور نسیم طالب کے فکری شاگرد عاطف حسین نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ عاطف حسین اپنی چونکا دینے والی کتاب ''کامیابی کا مغالطہ ‘‘ کے ذریعے ادبی، علمی حلقوں میں معروف ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں موٹی ویشنل سپیکرز کی درجنوں کتابیںترجمہ ہوکر شائع ہوئی ہیں، عاطف حسین نے اپنی مختصر سی اس کتاب میں ان تمام موٹی ویشنل، انسپائریشنل تصورات کے پرخچے اڑا دئیے ۔ کامیاب ہوئیے، دولت مند بنئے، کروڑ پتی بننے کے راز جیسی کتابیں پڑھنے والوں کو عاطف حسین کی کتاب کامیابی کا مغالطہ بھی ضرور دیکھنی چاہیے۔ خیر وہ تو ایک الگ موضوع ہے ، اس وقت نسیم طالب کے خیالات اور تصورات سے لطف اندوز ہوئیے۔ 
کامیابی 
میرے لیے کامیابی کا ایک ہی مفہوم ہے۔ وہ یہ کہ جب آپ آئینے میں خود کو دیکھیں تو سوچیں کہ کہیں آپ نے اس آدمی کو مایوس تو نہیں کیا جو آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تھے؟ اٹھارہ سال کے آدمی کا پیمانہ میں نے اس لیے مقرر کیا ہے کہ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب ابھی زندگی نے آپ کی ذات کو مسخ نہیں کیا ہوتا۔ لہٰذا اپنی شہرت، دولت، معاشرے میں اپنے مقام یا خود کو ملنے والے اعزازات کو نہیں بلکہ اٹھارہ سال کے اس آدمی کی پسندیدگی کو کامیابی کا اکیلا معیار بنائیے۔ قدیم یونانیوں کے نزدیک ایک قابلِ عزت موت کامیابی کا تقریباً اکیلا معیار تھی۔ اب جبکہ اس طرح کی عسکری زندگی باقی نہیں رہی تو ہم اس تعریف کو اپنے مطابق یوں ڈھال سکتے ہیں کہ کامیابی سے مراد اجتماعی بھلائی کیلئے ایک قابلِ عزت جد و جہد کا نام ہے۔ 'اجتماعی' کی آپ کتنی وسیع یا محدود تعریف کرتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس اتنا خیال رکھیے کہ آپ سب کچھ بس اپنے ہی لیے نہیں کررہے۔ خفیہ تنظیموں میں بھی یہ حلف لیا جاتا تھا کہ اگر آپ اپنے لیے کوئی کام کریں گے تو ساتھ میں اپنے کسی ساتھی کیلئے بھی کچھ نہ کچھ کریں گے۔ اور ہاں یاد رکھیے کہ ہر اچھے کام کیلئے حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ جیسے کہ کوئی غیر مقبول (مگر درست) بات کہنے کیلئے حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اجتماعی بھلائی کیلئے خطرات مول لینے کا حوصلہ پیدا کیجئے۔اجتماعی بھلائی سے مراد ضروری نہیں کہ پوری انسانیت کی بھلائی ہو۔ آپ جتنے چھوٹے کام پر توجہ دیں گے وہ اتنا ہی واضح اور اچھا ہوگا۔
پائیدار کامیابی
کامیابی اور ناپائیداری اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ میں نے ایسے ارب پتیوں کو دیکھا ہے جو صحافیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں، ایسے نوبل انعام یافتہ پروفیسر دیکھے ہیں جو انٹرنیٹ پر منفی تبصروں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ آپ جتنے اوپر جاتے ہیں اتنے برے گرتے ہیں۔ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں میں نے یہی دیکھا ہے کہ خارجی پیمانوں پر حاصل ہونے والی کامیابی بہت ناپائیدار ہوتی ہے اور ایسی کامیابی کے ساتھ ہی اس کے کھوجانے کا خوف بھی آتا ہے۔ سب سے برا حال لمبے چوڑے سی وی والے ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کسی بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے توجہ کے خوگر ہوجاتے ہیں اور جب وہ عہدہ چلا جاتا ہے تو وہ خود کو بہت تباہ حال محسوس کرتے ہیں۔اس کے برعکس) عزتِ نفس ناپائیدار نہیں بلکہ پائیدار ہے۔ میں نے اپنے آبائی گاوں میں ایسے ہی پائیدار لوگ دیکھے ہیں جنہیں اپنے قبیلے پر فخر ہوتا ہے۔ وہ فخر کیساتھ سوتے اور خوش وخرم اٹھتے ہیں۔ یا اس کی مثال وہ عظیم روسی ریاضی دان بھی ہیں جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کے مشکل دور میں ایک ماہ میں بمشکل کوئی دو سو ڈالر کماتے تھے اور ان کے کام کو بس کوئی بیس لوگ ہی سمجھتے تھے لیکن انہیں اس پر فخر تھا ۔
نصیحت 
نصیحتیں کرنے سے میں عموماً گریز ہی کرتا ہوں کہ ہر وہ نصیحت جو مجھے کی گئی تھی وہ بعد میں غلط ہی ثابت ہوئی اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے کسی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ مجھے نصیحت کی گئی تھی کہ میں جم کر توجہ سے کچھ کام کروں جو میں نے کبھی نہیں کیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں تاخیر سے بچوں اور میں نے 'بلیک سوان' شائع کرنے کیلئے بیس سال انتظار کیا اور وہ تیس لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔مجھے کہا گیا کہ میں نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل کے خلاف کچھ نہ کہوں جبکہ میں جتنی ان کی بے عزتی کرتا گیا اتنا ہی ان کا رویہ میرے ساتھ بہتر ہوتا گیا ۔ اگر مجھے ایک زندگی اور ملے تو میں اس سے بڑھ کر ہٹ دھرمی کروں گا۔ میں آپ کو صرف یہ بتائوں گا کہ میں کیا کرتا ہوں:
1۔ کبھی اخبار نہ پڑھیں اور نہ ہی کسی اور شکل میں خبریں سنیں۔ اگر آپ پچھلے سال کے اخبار پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خبروں سے لاتعلق ہوجائیں لیکن آدمی کو واقعات سے خبروں کی طرف جانا چاہیے نہ کہ خبروں سے واقعات کی طرف۔ 
2۔ اگر کوئی چیز بکواس ہے تو اسے کھل کر بکواس کہیں۔ آپ کو وقتی نقصان ہوگا لیکن اس سے لانگ ٹرم میں لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھے گا۔ 3۔ چوکیدار کو 'بڑے صاحب' کے مقابلے میں زیادہ عزت دیں۔ 
اب بات ختم کرتے ہوئے میں آپ کو کچھ ایسی چیزیں بتانا چاہتا ہوں جن سے ہر صورت بچنا چاہیے: 
ایسے پٹھے جن میں طاقت نہ ہو۔ ایسی دوستی جس میں اعتماد نہ ہو ۔ ایسی آراء جن کے بیان کرنے والے کو ان کے غلط ہونے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ ایسی تبدیلی جو جمالیات کے بغیر ہو۔ ایسی زندگی جو اقدار کے بغیر ہو ۔ ایسی غذا جو غذائیت کے بغیر ہو ۔ ایسی طاقت جو انصاف کے بغیر ہو۔ ایسے 'حقائق‘ جو بے سند ہوں ۔ ایسی ڈگریاں جو علم کے بغیر ہوں۔ ایسی عسکریت جو پامردی کے بغیر ہو۔ ایسی ترقی جو تہذیب کے بغیر ہو۔ ایسی پیچیدگی جو گہرائی کے بغیر ہو۔ ایسی روانی جو معنی کے بغیر ہو۔ اور سب سے بڑھ کر ایسی مذہبیت جو برداشت کے بغیر ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں