کتابیں اور مطالعہ

نیا سال شروع ہوچکا ہے۔ پچھلے سال کے حوالے سے جائزے اور تجزیے ابھی چل رہے ہیں۔ کچھ واقعات قومی یا اجتماعی سطح کے ہیں، جن پر بڑے پیمانے پر بحث جاری رہتی ہے۔ہر سال کے شروع میں لوگ انفرادی سطح پر بھی کچھ ٹاسک بناتے ہیں۔ ان میں نئی کتابیں پڑھنا، زندگی میں بہتر تبدیلیاں لانا،شاہکار فلمیں دیکھنا ، سیاحت وغیرہ شامل ہیں۔ سال ختم ہونے پر کچھ لوگوں نے فیس بک پر اپنے تاثرات شیئر کئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں بعض نوجوانوں نے درجنوں کتابیں پڑھ لی تھیں، وہاںکئی ایسے بھی تھے جو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔ان کا یہی سوال تھا کہ ہم بھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، مگر آغاز کہاں سے کیا جائے، یہ علم نہیں ہوپاتا۔ کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں، اس کا ادراک نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ افتاد طبع پرمنحصر ہے ۔ بعض لوگ ایک خاص ترتیب اور سلیقے سے اپنے کام کرتے ہیں، ان کے مطالعہ میں بھی یہ رنگ آجاتا ہے۔ ترتیب سے کتابیں پڑھنا شروع کرتے ہیں، جب تک ایک مکمل نہ کر لی، دوسری کو چھوا تک نہیں۔کچھ ہمارے جیسے کہ جنہوں نے ترتیب کا کبھی خیال نہیں کیا، جو ہاتھ آگیاپڑھ ڈالا۔ جس موضوع پر کچھ ملا، اسے چاٹ گئے۔ اس بے ترتیب مطالعے کے نقصانات بھی خاصے ہیں، فائدہ مگر یہ ہے کہ آدمی مختلف موضوعات پر کچھ نہ کچھ جان جاتا ہے۔یہ چیز بعد میں لکھتے وقت کام آتی ہے۔ میرا تعلق میگزین جرنلزم سے رہا، یہاں متنوع موضوعات پر لکھنا پڑتا ہے، ایک تحریر سیاست پر ہے تو اگلی کھیل اور پھر تیسری فلم کے حوالے سے۔ میگزین میں کام کرنے والوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ چار پانچ بڑے شعبوں سے متعلق اپنے آپ کو آپ ڈیٹ رکھو، کسی بھی وقت کچھ لکھنے کی نوبت آ سکتی ہے۔ 
نئے پڑھنے والوں کے لئے شروع میں مشکل ہوتی ہے۔آج کل ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جس نے سکول ، کالج ، یونیورسٹی کے زمانے میں مطالعہ نہیںکیا۔ اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ شائد ہی کسی نے کوئی کتاب پڑھی ہو۔ جب ان میں سے کسی کو لکھنے سے دلچسپی پیدا ہوجائے تب مطالعے کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔اسی طرح اور بھی بہت سے لوگوں کو زندگی کے ایک خاصے مرحلے پر جا کرخیال آتا ہے کہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ان کے لئے بہتر ہے کہ آسان سے آغاز کریں ۔ جس نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، اسے کتابوں کی فہرست بنا کر دینے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ کتابیں خرید کر تحفہ دیں، تب بھی وہ نہیں پڑھ پائے گا کہ اس کا پڑھنے کا سٹیمنا ہی نہیں۔ ان کے لئے بہتریہی ہے کہ اخبار سے آغاز کرے۔ اپنے گھر اخبار لگوا لیں اور روزانہ کچھ دیر اسے پڑھا کریںیا پھر اگر نیٹ پر دیکھنا ممکن ہے تو ایسا کیا جائے۔ نیوز پیجز کے علاوہ روزانہ کچھ کالم پڑھے جائیں اور سنڈے کے میگزین پر بھی چند منٹ مختص کئے جائیں۔ رفتہ رفتہ اس روٹین کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس سے مطالعے کا ذوق پیدااور ریڈنگ سپیڈ بھی بہتر ہوجائے گی۔ اگلے مرحلے پر کتابوںکی طرف آیاجائے۔ اس میں بھی آسان اور دلچسپ کتابوںسے آغاز ہو۔ ہلکا پھلکا، پرلطف مطالعہ جو نئے قاری کے ذہن پر بوجھ نہ بنے اور اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور کر دے ۔ دینی کتب میں بہت سے لوگوں کو دلچسپی ہوتی ہے۔ بزرگان دین کے واقعات، قصص القرآن ، سیرت مبارکہ پر کتب وغیرہ...یہ بہت زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ دینی کتاب کی اپنی افادیت ہے، اصلاح کے ساتھ مطالعے کا ذوق بھی پیدا ہوتا ہے۔میرے نزدیک فکشن کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ افسانہ ، ناول ، کہانی پڑھے بغیر مطالعہ مکمل نہیں ہوتا۔ فکشن میں بھی ہلکے پھلکے ناولوں سے آغا ز کیا جائے اور پھر رفتہ رفتہ اردو کے بہترین اورعالمی ادب کے شاہکار ناول پڑھے جائیں۔ ایک بڑی کتاب اپنے پڑھنے والوں کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے اور ذہنی طور پر ارتقا کا عمل شروع کر دیتی ہے۔ فکشن کے ساتھ ساتھ سیاست ، تاریخ ، سماجیات اور دیگر موضوعات پر بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ اپنی اپنی پسند اور دلچسپی کے مطابق مطالعہ شروع کیا جا سکتا ہے ۔ بائیوگرافیز کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ بائیو گرافی دراصل بڑی شخصیات کی زندگیوں کا نچوڑ ہے، جسے پڑھنا بہت کچھ نیا سکھانا ہے۔ 
آج کے دور میں کتاب پڑھنا، پڑھانا آسان کام نہیں۔ پہلے وقت زیادہ تھا، وقت برباد کرنے والے مشغلے نسبتاً کم تھے، آج نیٹ کے دور میں، فیس بک کے عہد میں کتاب پڑھنے کے لئے وقت نکالناآسان نہیں۔ اپنے عزم کو بار بار استوار کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں سلیکٹو مطالعہ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ویسے بھی آدمی ہر چیز نہیں پڑھ سکتا۔ مغرب میں کتابوں کی بزنس سمری کا ٹرینڈ عام ہوچکا۔ وہاں کتابیں بہت زیادہ شائع ہوتی ہیں۔ بعض کمپنیاں ایسی بن چکی ہیں، جنہوں نے پروفیشنل لکھاری، ایڈیٹرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ جیسے ہی کوئی نئی کتاب آئی، انہوں نے سینئر پروفیشنل لکھاریوں، نقادوں سے اس کتاب کی ایک بزنس سمری بنوائی اور پھر اس کا ای ورژن جاری کر دیا۔ جو لوگ وہ کتاب نہیں پڑھ سکے، وہ چند منٹ نکال کر اس کی سمری یعنی خلاصہ پڑھ لیتے ہیں، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا کچھ ہونا چاہیے۔ پاکستان میں تو کتب کم ہی چھپتی ہیں، مگر باہر شائع ہونے والی مشہور کتابوں پر تفصیلی ریویوز اگر شائع ہوں تو یقیناً ان کی مانگ پیدا ہوسکتی ہے۔اب کچھ لوگوں نے جدید گیجٹس اور ایپس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیلی گرام وغیرہ پر چینل بنا کر کمبائنڈ سٹڈی شروع کر دی ہے۔ ایک کتاب کئی لوگ اکٹھے شروع کر دیتے ہیں اور سب مل جل کر سستی کے بغیر اسے جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ یہ اچھا رواج ہے، اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ 
دوہزار سولہ میرے لئے کتابیں پڑھنے کے حوالے سے زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ سال کے شروع میں خاصی کتابیں خریدی تھیں، ان میں سے کئی پڑھ بھی لیں، مگر بہت سی رہ گئیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے کالم کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سا پڑھنا پڑتا ہے ۔ کرنٹ افیئرز پر بھی خاصی چیزیں دیکھی جاتی ہیں اور باہر کے اخبارات کا مطالعہ بھی ظاہر ہے وقت لیتا ہی ہے ۔ اس سال انشااللہ پچھلی کتابیں پڑھنے کا ارادہ ہے ، نئی کتابیں صرف وہی لوں گا جو پڑھی جا سکیں۔ پچھلی بک ایکسپو سے ترک ناول خریدے تھے، وہ تجربہ خوشگوار رہا۔ یشار کمال کا اپنا ہی ذائقہ اور لطف ہے، اوحان پاموک کا سرخ میرا نام دو سال پہلے پڑھا تھا ، ابھی تک بھلا نہیں سکا۔ ایلف شفق کا ناول محبت کے چالیس اصول خرید کر پڑھا۔ ایلف کا یہ ناول بہت مشہور ہے ، اس کا اپنا ایک سحر ہے، اگرچہ ایلف شفق کے پاس دلچسپ ناولوں کی 
کوئی کمی نہیں۔ ''ناموس ‘‘بھی ایلف کا عمدہ ناول ہے۔''میرا مطالعہ‘‘ میں مختلف ممتاز ادیبوں، سکالرز نے اپنے مطالعہ اور پسندیدہ کتابوں کے بارے میں لکھا۔ یہ کتاب اس لئے بھی پسند آئی کہ خوش قسمتی سے میرا مضمون بھی اس میں شامل ہے۔الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز کی ''کتاب ملاقاتیں کیا کیا ‘‘خوب تھی۔ کالم نگار، دانشور سلمان عابد کی کتاب ''دہشت گردی، ایک فکری مطالعہ ‘‘ اپنی نوعیت کی اہم کتاب ہے۔ سلمان عابد سنجیدہ تجزیہ کار ہیں، انہوں نے معروضیت سے دہشت گردی کے پورے معاملے کا جائزہ لیا اور اچھے اعدادوشمار جمع کئے۔ ہمارے ساتھی احمد اعجاز کی تازہ کتاب ''عدم رواداری ،تعلیم اورسماج‘‘کچھ عرصہ پہلے پڑھنے کو ملی ۔ احمد اعجاز اچھے افسانہ نگار اور سنجیدہ لکھنے والے ہیں۔ اس سے پہلے احمد کی ''شناخت کا بحران‘‘ اور'' پاکستانی سماج کا عمرانی مطالعہ ‘‘ کے نام سے کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ عدم رواداری، تعلیم اور سماج ایک عمدہ تحقیقی کام ہے، پروفیسر فتح محمد ملک جیسے بڑے سکالر نے اس کتاب پر اپنا وقیع دیباچہ لکھا۔صحافی اور سوشل میڈیا کے معروف بلاگر فیض اللہ خان کی کتاب ''ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘‘ دسمبر ہی میں شائع ہوئی۔ فیض اللہ خان کو چند ماہ تک افغان جیل میں اسیر رہنا پڑا۔ اپنے اس تلخ تجربے کو انہوں نے نہایت عمدگی سے بیان کیا اور پاک افغان تنازع کے کئی الجھی گرہیں سلجھا کر رکھ دیں۔ سیاسی کتابوں میں سے خورشید قصوری صاحب کی آپ بیتی پڑھی ، اگرچہ احساس ہوا کہ قصوری صاحب نے بہت کچھ بیان نہیں کیا اور بعض غیر ضرور ی معاملات کو نہایت تفصیل سے لکھا۔ جناب جاوید ہاشمی کے جیل کے دنوں کی یادوں پر مشتمل ان کی دوسری کتاب بھی سال کے آخری دنوں میں ملی ، ہاشمی صاحب نے بڑے کرب اور دل سوزی سے اپنے شب وروز کی روداد بیان کی ۔کوشش کروں گا کہ اس پر الگ سے کچھ لکھ سکوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں