عشق کے تقاضے

روایت ہے کہ ایک دن سرکارِ مدینہ حضورﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ آپﷺ کے چہرے پر قدرے آزردگی جھلک رہی تھی۔ اصحاب کی محفل میں آپؐ نے فرمایا، ''وہ لوگ جو اپنے اسلحہ سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مدد کرتے ہیں، انہیں کس چیز نے روکا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ان کی مدد نہیں کرتے‘‘۔ ان دنوں مشرکینِ مکہ کی شہ پر بعض شاعروں نے حضورﷺ کے خلاف ہجویہ شاعری کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ آپﷺ نے اس محفل میں اسی جانب اشارہ کیا تھا۔ یہ بات سن کر مدینہ کے قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ آگے بڑھے اور بولے، ''یہ کام میں کروں گا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اسے ناک کی پُھننگ سے لگا کر (شاعروں کے روایتی فاخرانہ انداز میں) کہا، ''میری زبان بہت لمبی ہے۔ واللہ اسے میں چٹان پر رکھ دوں تو وہ بھی دو ٹکڑے ہو جائے گی، اگر اسے بالوں پر سے گزاروں تو وہ بھی کٹ جائیں‘‘۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا، ''تم قریش کی ہجو کس طرح کرو گے؟ میں بھی ان لوگوں کے خاندان میں سے ہوں‘‘۔ حضرت حسانؓ نے جواباً کہا، ''آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں ان میں سے آپ کو بالکل الگ کر لوں گا‘‘۔
یہ حضرت حسانؓ کی زندگی کا اہم ترین لمحہ تھا۔ آنحضرت ؐ کے اصحاب میں انہیں اس دن کے بعد ایک منفرد مقام ملا۔ ایسا بلند و ارفع مقام جس کے بارے میں عرب کا بڑے سے بڑا شاعر بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ قبولِ اسلام سے قبل حضرت حسان ؓ کا شمار عرب کے ممتاز شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعری کے غالب موضوعات فخر، مدح اور ہجو تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد حضرت حسان ؓ نے شاعری کی جانب توجہ کم کر دی؛ تاہم آنحضرتﷺ کے دفاع میں وہ دوبارہ سے فعال ہو گئے۔ انہوں نے مشرکینِ مکہ پر ایسے ایسے کاٹ دار حملے کئے کہ وہ گنگ ہو کر رہ گئے۔ عربی ادب کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت حسان ؓ نے سرکارِ مدینہ ؐ کے سامنے جو دعویٰ کیا تھا اس پر وہ پورے اترے۔ ان کی ایک مشہور ہجو کے اشعار ہیں: 
' کیا تو ان کی ہجو کرتا ہے، حالانکہ تو ان کے برابر کا نہیں، آپ دونوں میں سے جو برا ہے، وہ اس پر قربان ہو، جو اچھا ہو۔
میری زبان کاٹ والی ہے، اس میں کوئی عیب نہیں، میرا دریا ایسا ہے کہ ڈول ڈالنے سے گدلا نہیں ہوتا‘‘۔
اپنی ہجویہ شاعری لکھتے وقت حضرت حسان ؓنے حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق ہجویہ اشعار کہے، مشرکین مکہ کا مذاق اڑایا، مگر رکیک حملے قطعی طور پر نہیں کئے۔ حضرت حسانؓ نے آپ ؐ کی مدح میں بھی اعلیٰ درجے کے اشعار کہے۔ ان کی ایک نعت کے دو اشعار کا شمار عربی نعت کے بہترین شعروں میں ہوتا ہے۔
''آپؐ سے بڑھ کر حسین میری آنکھوں نے آج تک نہیں دیکھا، نہ آپ ؐسے زیادہ جمیل انسان کو عورتوں نے جنم دیا ہے۔ 
آپؐ ہر عیب سے مبرا پیدا کئے گئے ہیں، لگتا ہے کہ جس طرح آپ نے چاہا تھا، آپ اسی طرح پیدا کئے گئے‘‘۔
چودہ سو سال گزر گئے۔ حضرت حسان ؓبن ثابت نے اپنی زبان اور قلم سے آنحضرتﷺ کا دفاع کرنے والے جن جانثاروں کے قافلے کی بنیاد رکھی، وہ تواتر سے چلتا رہا۔ ہر دور میں ایسے لوگ اور ان کی جماعتیں اٹھتی رہیں، جنہوں نے تاریخ انسانی کے سب سے معزز اور ذی شرف انسان کی مدح کی اور آپ ؐپر حرف زنی کرنے والوں کو دندان شکن جواب دیا۔ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنے قلم اور زبان سے گرانقدر مال و دولت سمیٹ سکتے تھے، مگر انہوں نے اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دی۔
آج پھر ہر طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف الزامات کی یلغار جاری ہے۔ اس وقت ضرورت ہے، ایسے افراد اور ایسی جماعتوں کی، جو اٹھیں اور اپنی پوری قوت سرکارؐ کے دفاع پر صرف کر دیں۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں ابلاغ نسبتاً آسان ہو چکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنحضرتﷺ کی شخصیت اور آپ ؐ کی سیرت و کردار کو جدید سائنٹفک انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ کام نہایت دانشمندی اور حکمت سے کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ ایسا کرنے والوں کو آپﷺ کے امتی ہونے کا حق ادا کرنا ہوگا۔ اس کا اخلاق، شائستگی اور متانت سب اس معیار کے ہونے چاہئیں کہ پڑھنے والے بے اختیار کہہ اٹھیں کہ جب ایک عام امتی اس کردار کا حامل ہے تو اس کا رول ماڈل، اس کا پیغمبر یقیناً عظمت کی انتہائی بلندی پر فائز ہوگا۔ دوسرا یہ ذہن میں رکھا جائے کہ ہر حال میں دلیل سے بات کی جائے گی۔ اخلاق ہمارا شعار، شائستگی ہماری ڈھال اور دلیل واحد ہتھیار ہونا چاہیے۔ طعن و تشنیع، طنزیہ جملے، گالیاں، مخالفوں کے لئے غیر شائستہ الفاظ کا استعمال، مختلف جانوروں سے انہیں تشبیہہ دینا اور اس طرح کی دیگر غیر محتاط حرکتیں صرف ایسا لکھنے والے کا ہی نہیں بلکہ دین اسلام اور اللہ کے آخری رسولﷺ کی امت کا منفی امیج بناتی ہیں۔ 
یہ سب کرنا قطعی مشکل نہیں، ایک سادہ اصول ہے۔ جو بھی لکھیں یہ سوچ کر لکھیں کہ کل کو ہمارے آقا، سرداروں کے سردار، سرکارِ مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ تحریر پیش کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسا لگے گا۔ آپ کے چہرہء مبارک پر خوشی کی لہر آے گی، نورانی تبسم فرمائیں گے یا پھر عالی جناب کی منور پیشانی پر ناپسندیدگی کی شکن آئے گی؟ پہلا تاثر ہی ہر ایک کی خواہش ہونی چاہیے۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اپنی 
صلاحیتیں، اپنا ذہن، اپنا وقت، اپنی جسمانی استعداد اس طرف کھپا رہے ہیں، اس کا واحد مقصد رب تعالیٰ کو خوش کرنا اور ہمارے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوںِ، ہماری، ہمارے بچوں کی جانیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، شان کو بلند کرنے کے لیے کھپ جائیں۔ ہمارے نام، ہماری عزت، شہرت کی واللہ مٹی کے اس ذرے کے برابر اہمیت نہیں ہے جس کا مقدر اللہ کے آخری رسول کے نعلین مبارک تلے آنا تھا۔ اس لئے اپنی تحریر، گفتگو پر اس زاویے سے نظرثانی کرنا لازم ہے۔ حضورﷺ کی شان بیان کی جائے یا پھر آپﷺ اور دین اسلام کے خلاف لکھی کسی تحریر، تقریر کا جواب دینا ہو، ہر دو صورتوں میں کام ایسے کیا جائے کہ آپﷺ کے امتی ہونے کا حق ادا ہو سکے۔ پڑھنے والا کہہ سکے کہ مصنف میں اخلاق نبویﷺ کی جھلک موجود ہے۔ سیرت مبارکہ نے ہمیں مکالمہ کرنے کے ابدی اور سدا بہار اصول سکھائے ہیں۔ انہی کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ہمارے اکابر، ہمارے آئمہ، فقہا، صوفیا، بزرگوں اور علمائے حق سب نے اسی کو سامنے رکھا، اسی راستے پر چلے۔ سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ جیسی عظیم ہستی کو ایک یہودی کے دشنام کے جواب میں سخت جملہ کہنے کی رعایت نہیں مل سکی۔ ان کے اور ہمارے آقا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بروقت تنبیہہ کرکے اصلاح فرما دی۔ اصول تب طے ہوگیا کہ برداشت کی کیا حد ہے اور جواب کس قرینے سے دینا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں