تصویر کا چھوٹا سا ٹکڑا

کئی سال پہلے ایک چینی کہانی پڑھی تھی، آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ اس نے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کا انداز ہی بدل دیا۔ ایک بار پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا، ممکن ہے آپ میں سے بعض نے یہ کہانی سنی ہو۔ اشفاق صاحب نے بھی ایک بار یہ سنائی تھی۔ دوبارہ سن لیں، کہا جاتا ہے کہ کہانیوں کا سحر وقت گزرنے کے ساتھ گہرا ہو جاتا ہے۔ قدیم چینی دور کی کہانی ہے۔ کہتے ہیں کسی گائوں میں ایک بوڑھا اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ پرانا سا ایک مکان تھا۔ ایک کمرے میں باپ بیٹا رہتے۔ دوسرے کمرے کو اصطبل بنایا ہوا تھا۔ وہاں ان کا گھوڑا رہتا تھا۔ یہ گھوڑا بڑا شاندار اور نہایت اعلیٰ نسل کا تھا۔ بہت پہلے بوڑھے کسان کے ہاتھ گھوڑے کا ایک بچہ لگ گیا تھا۔ اس نے باپ کی طرح اسے پالا۔ بچہ بڑا ہوا تو اس گھوڑے کی خوبصورتی کی دھوم مچ گئی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے۔ گائوں کے رئیس نے اسے دیکھا تو پہلی نظر میں فریفتہ ہو گیا۔ اس نے بوڑھے کو بلا کر منہ مانگی قیمت کی پیش کش کی۔ کسان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھوڑا نہیں، میرا بیٹا ہے، اپنی اولاد کو کوئی فروخت نہیں کرتا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی وہ گھوڑا خریدنے کی کوشش کی، لیکن سب ناکام رہے۔ گائوں کے کچھ سمجھدار لوگوں نے بوڑھے کو سمجھایا کہ تم غریب آدمی ہو، ایسے اعلیٰ گھوڑے کو کتنی دیر تک سنبھال کر رکھو گے، اچھی قیمت مل رہی ہے، بیچ ڈالو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی یہ گھوڑا چرا لے جائے۔ ایسے ہر مشورے کے جواب میں وہ بابا جی مسکر ا دیتے اور یوں بات ختم ہو جاتی۔ 
ایک دن بوڑھا کسان اور اس کا بیٹا حسب معمول صبح اٹھے تو دیکھا کہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور گھوڑا غائب ہے۔ پریشان ہو کر آس پاس دیکھا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ بستی والوں کو پتہ چلا تو وہ افسوس کرنے آئے۔ جن لوگوں نے گھوڑا بیچنے کا مشورہ دیا تھا‘ انہوں نے فٹ سے طعنہ دیا: ''تمہیں سمجھایا تو تھا کہ گھوڑا بیچ دو، اس وقت نہیں مانے۔ اب تمہاری بدقسمتی کہ بغیر کچھ لئے گھوڑا گنوا بیٹھے‘‘۔ کسان یہ سب باتیں سنتا رہا، پھر بڑے اطمینان سے بولا، بھائیو! تمہاری بڑی مہربانی کہ میرے پاس آئے، اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس میں بدقسمتی کہاں سے آ گئی۔ یہ درست ہے کہ میرے پاس گھوڑا تھا، جو مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھا، آج صبح سے وہ گھوڑا اپنے کمرے سے غائب ہے۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس کے بارے میں ابھی سے یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ یہ بدقسمتی ہے؟ گائوں والے بڑے حیران ہوئے، آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ شاید صدمے کی وجہ سے بابے کا دماغ چل گیا ہے، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہزاروں کی مالیت کا گھوڑا چوری ہو گیا۔ بڑبڑاتے ہوئے سب لوگ واپس چلے گئے۔ دو تین دن بعد اچانک وہ گھوڑا واپس آ گیا، اپنے ساتھ وہ جنگل سے صحت مند، اعلیٰ نسل کے اکیس مزید نوجوان گھوڑے بھی لے آیا۔ گائوں میں دھوم مچ 
گئی۔ لوگ آ کر بوڑھے کو مبارکبادیں دینے لگے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اس روز غلط بات کی تھی، گھوڑے کا چلا جانا بدقسمتی نہیں تھی، اصل میں تو تمہاری خوش قسمتی تھی، آج پورے اکیس مزید گھوڑے تمہارے گھر آ گئے۔ کسان نے حیرت سے یہ سب تبصرے سنے اور پھر کہا: بھائیوِ، مجھے ایک بار پھر تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آئی، میرا گھوڑا واپس آ گیا، یہ درست ہے کہ وہ اکیس مزید گھوڑے اپنے ساتھ لے آیا ہے، مگر اس میں خوش قسمتی کی کیا بات ہے؟ 
گائوں والے یہ سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ چند دن گزر گئے۔ کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں کو سدھانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ ایک دن ایک سرکش گھوڑے نے اسے ایسی پٹخنی دی کہ لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ طبیب نے ٹٹول کر دیکھا اور تین مہینوں کے لئے بستر پر آرام کی ہدایت کی۔ ایک بار پھر گائوں امنڈ آیا۔ ہر ایک نے بوڑھے کے ساتھ ہمدردی کی۔ چند ایک نے صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا کہ بابا جی آپ ہی ٹھیک تھے، ان اکیس گھوڑوں کا آنا خوش قسمتی نہیں‘ بلکہ درحقیقت بدقسمتی کا اشارہ تھا۔ آپ کا اکلوتا سہارا، نوجوان بیٹا زخمی ہو گیا، نجانے اس کی ٹانگ درست طور پر جڑتی بھی ہے یا نہیں، آپ بوڑھے ہو، تمام کام کاج بیٹا کرتا تھا، اب مشکل ہو گی، آپ کی قسمت خراب ہے کہ ایسا ہو گیا۔ بوڑھے کسان نے یہ سن کر ٹھنڈی سانس بھری اور قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا: یارو! ہر واقعے میں خوش قسمتی یا بدقسمتی نہ ڈھونڈ لیا کرو، جو بات جتنی ہے، اتنی ہی بیان کرو، اتنی قطعیت سے کوئی فیصلہ کن رائے نہ دیا کرو، میرا بیٹا گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا، اس حد تک تو تمہاری بات درست ہے، باقی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے، قدرت ہی اس کے بارے میں بہتر جانتی ہے۔ 
دو تین ہفتے گزرے، اچانک ہی جنگ چھڑ گئی، قریبی ملک کی فوج نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ نے جبری بھرتی کا حکم دیا۔ ریاستی اہلکار دوسرے دیہات کی طرح اس گائوں میں بھی آئے اور بوڑھے کسان کے زخمی بیٹے کے سوا ہر نوجوان کو پکڑ کر لے گئے۔ گائوں والے روتے پیٹتے بابے کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے تھے، تم تو ہم سب سے زیادہ سیانے نکلے۔ واقعی تمہارے بیٹے کا حادثہ بدقسمتی نہیں تھا۔ سچ پوچھو تو تمہاری انتہائی خوش قسمتی تھی، ہم سب کے بیٹے جنگ لڑنے چلے گئے، معلوم نہیں واپس لوٹتے بھی ہیں یا نہیں، تمہارا بیٹا تو چلو تین چار ماہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔ بوڑھے کسان کے پاس سوائے سر پیٹنے کے کوئی چارہ نہیں تھا، بے چارگی سے اس نے کہا: بھائیو! اگر تم لوگ اصل بات کو سمجھ لیتے تو کبھی اتنا پریشان نہ ہوتے۔ ہم سب بہت جلدی کسی واقعے پر خوش قسمتی، بدقسمتی کا لیبل لگا دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب تصویر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں، ہم میں سے کسی کے پاس مکمل تصویر نہیں، تصویر کا ایک ٹکڑا ہی ہوتا ہے۔ اسی ٹکڑے کو ہم مکمل تصویر سمجھ لیتے ہیں۔ ایک ٹکڑا کبھی تصویر کو درست طریقے سے بیان نہیں کر سکتا، اس کے رنگ تک نہیں بتا سکتا۔ ہمیں حتمی رائے دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے، جو واقعہ ہوا ہے، اسے اتنا ہی سمجھنا اور ماننا چاہیے۔
کہانیاں اپنے اندر صدیوں کی دانش اور تجربات کا نچوڑ سموئے ہوتی ہیں۔ انہیں اس لئے سنایا جاتا ہے کہ کچھ سیکھا جائے۔ میں چودہ اگست کی مناسبت سے صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے ملک کے حوالے سے کوئی حتمی رائے دینے سے پہلے اس کہانی کو ضرور ذہن میں دہرا لیا کریں۔ ملک کی سیاسی یا سماجی تاریخ ہو، کسی واقعے کو ایک واقعہ ہی سمجھنا چاہیے، اس کی بنیاد پر پوری قوم اور پورے ملک کے مستقبل کا فیصلہ سنا دینا دانشمندی نہیں۔ تصویر کے مختلف ٹکڑے باری باری سامنے آتے ہیں، مکمل تصویر دیکھے بغیر صرف اپنے حصے کے چھوٹے سے ٹکڑے کی بنا پر مایوسیاں اورغلط فہمیاں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ویسے جی مانے تو سیاسی واقعات کی تفہیم کرتے ہوئے، کوئی فیصلہ سنا دینے سے پہلے بھی یہی طریقہ آزما لیا کریں۔ کوئی چاہے تو حالیہ لانگ مارچ یا آزادی مارچ کے حوالے سے بھی یہی طریقہ آزما لے، انشااللہ ناکامی نہیں ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں