’’میں بھی انفوسیس جیسی ایک کمپنی بنانا چاہتا ہوں‘‘نوجوان نے بے باک انداز میں کہا۔ ’’ میں بھی ترقی کرنا چاہتا ہوں۔ میرے بھی کچھ خواب ہیں۔ اگر انفوسیس کا مالک محنت کے بل بوتے پر ایک بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ اگر یہ واقعہ بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں پیش آ سکتا ہے۔ اگر ایک عام انسان ترقی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا ؟‘‘ اس نوجوان کا نام ارشد رحمن تھا۔ یہ کراچی کے علاقے کیماڑی میں رہتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق اسے بہت تھا۔ نصابی کتب کے علاوہ اخبارات کا مطالعہ وہ شوق سے کرتا۔ بھارتی کمپنی انفوسیس اور اس کے مالک میاں بیوی کی کامیابی کی داستان میرے کالم میں پڑھنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ چاہتا تھا میں اسے کامیابی کا ایسا کوئی فارمولا یا پوائنٹس بتا دوں جن پر عمل کر کے ایک دن وہ بھی ایسی ہی کوئی کمپنی بنا لے۔ دولت اور شہرت کے دروازے اس پر کھل جائیں اور وہ اپنے خوابوں کو پورا ہوتا دیکھ سکے۔ یہ صرف راشد رحمن نہیں ہر نوجوان کا یہی خواب ‘یہی خواہش ہے کہ انہیں کامیابی کا کوئی ایسا شارٹ کٹ مل جائے جس پر چل کر وہ بھی کامیاب ہو جائیں۔ میں نے زندگی میں سینکڑوں کامیاب افراد کے بارے میں لکھا ہے۔ ان میں پاکستانی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی۔ میں بہت سے کامیاب لوگوں سے ملا ہوں اور ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا بھی ہے۔ لیکن یقین جانیے میری پوری کوشش کے باوجود کسی نے کبھی مجھے ایسا کوئی شارٹ کٹ نہیں بتلایا جو میں آگے بیان کر دوں اور جس پر چل کر ہمارے نوجوان ترقی کی سیڑھیاں پھلانگتے جائیں۔ہر کامیاب شخص کی اپنی کہانی ‘اپنے حالات اور اپنے مسائل تھے۔ ان میں کوئی بزنس مین تھا‘ کوئی سائنسدان اور کوئی حکمران۔ ہر کسی نے اپنی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھا اور اپنے اپنے انداز میں بیان کر دیا۔ ان سارے کامیاب افراد اور ان کی ساری کہانیوں میں البتہ چند چیزیں مشترک تھیں اور وہ تھیں ان کی عادتیں۔ میں نے ان تمام لوگوں ،جنہیں میں نے پڑھا یا جن سے ملاقات ہوئی‘ میں ایسی باتیں نوٹ کیں جو مجھے کسی ناکام‘ کسی اوسط درجے کے یا کسی بے کار شخص میں دکھائی نہیں دیں ۔ وارن بفٹ اس وقت دنیا کا امیر ترین انسان ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وارن نے اپنی کمپنی نہیں بنائی تھی اور وہ بزنس کی چھوٹی موٹی ڈیل کی کوشش میں تھا۔ ایک دن وارن کو کسی کمپنی کے مالک سے ملنا تھا۔ وہ تیار ہو کر اسے ملنے پہنچا۔ اسے ویٹنگ روم میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں کئی اور لوگ بھی ملاقات کے منتظر تھے۔کچھ دیر بعد اسے اندر بلا لیا گیا۔ وہ مالک سے بات چیت کر رہا تھا کہ اسے ناک میں خارش محسوس ہوئی۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ اس کا رومال گھر رہ گیا تھا۔ اسی دوران یکدم اسے چھینک آ گئی۔ وہ بھاگ کر اٹھا اور میز پر ڈبے سے ٹشو نکالا‘ ناک صاف کیا اور واپس آ کر بیٹھ گیا۔ سامنے بیٹھے ہوئے بزنس مین کو یہ حرکت ناگوار گزری۔ ان کے درمیان ڈیل تقریباً فائنل ہو چکی تھی لیکن وارن کی اس حرکت کی وجہ سے اس نے یہ ڈیل کینسل کر دی۔ اس دن کے بعد وارن بفٹ نے عہد کر لیا وہ کہیں بھی جائے گا تو جیب میں ایک عدد رومال یا ٹشو ضرور رکھا کرے گا۔ کارل البرٹ جرمن بزنس مین ہے۔اس نے جرمنی میں سب سے پہلے رعایتی سپر مارکیٹ کا تصور پیش کیا۔ یہ دنیا کے دس امیر ترین افراد میں سے ایک ہے۔ کارل کالج کی تعلیم کے بعد ایک چھوٹے سے سٹور میں ملازم ہوگیا۔ تین برس وہ یہیں رہا اور کاروبار کے اسرار و رموز کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر اس نے نوکری چھوڑ دی اور کاروبار کی کوشش شروع کی۔ چھوٹی سی گاڑی خریدی اور سامان منڈی سے لے کر مارکیٹ تک پہنچانے لگا۔ ایک روز تازہ گوشت مارکیٹ لے جارہا تھا تو راستے میں پٹرول ختم ہو گیا۔ وہ اس وقت ہائی وے پر تھا اور دور دور پٹرول پمپ کا نشان تک نہ تھا۔ پٹرول لانے اور مارکیٹ پہنچنے تک گوشت خراب ہو چکا تھا۔ اسے سات سو ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ نقصان پورا کرنے میں اسے تین مہینے لگ گئے اور ان تین مہینوں میں اسے روزانہ ایک وقت کا کھانا تک چھوڑنا پڑا۔ اس واقعے سے اسے یہ سبق ملا کہ گاڑی میں فیول ہر وقت ہونا چاہیے اور بچت دیگر چیزوں میں تو ہو سکتی ہے لیکن پٹرول کے پیسے کبھی نہیں بچانے چاہییں ۔ نریانا مرتھی ابھی انفوسیس بنانے کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس نے پہلا آفس جو بنایا اس میں ٹیلی فون نہیں لگوایا۔ وہ سمجھتا تھا اس طرح وہ کاروبار کی ابتدائی لاگت بچا لے گا۔ اس زمانے میں لینڈ لائن فون ہی تھے اور یہ خاصے مہنگے ہوتے تھے۔ زیادہ تر ڈاک سے کام چلایا جاتا تھا۔ یہ ڈاک آج کی طرح نہ تھی بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر خط بھیجنے میں ایک سے زیادہ دن لگ جاتے تھے۔ بعض اوقات تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر سے ڈاک آنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا۔ ایک مرتبہ اسے ایک کمپنی نے رابطہ کرنا چاہا ۔ لیکن نریانا کا فون نمبر نہ ملا۔ کمپنی کے پاس بہت بڑا آرڈر تھا اور اگر یہ نریانا کو مل جاتا تو اس کے کاروبار کو ابتدا میں ہی چار چاند لگ جاتے۔ مجبوراً نریانا کے ڈاک کے پتے پر آرڈر کی تفصیلات بھیج دی گئیں۔ بدقسمتی سے ڈاک لے جانے والی گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی‘ اسے آگ لگ گئی اور ڈاک راستے میں ہی ضائع ہو گئی۔ یہ ڈاک نریانا تک نہ پہنچی۔ چند ہفتوں بعد وہ شخص جب نریانا سے ملا تو اس نے اس آرڈر کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس نے یہ بزنس کسی اور کمپنی کو دے دیا تھا۔ نریانا سمجھ گیا‘ اس نے ٹیلی فون نہ لگوا کر کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں‘ لیکن ان میں چھپے ہوئے سبق بہت اہم ہیں۔کوئی بھی شخص چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتاجب تک وہ ایسی باتوں یا عادات پر عمل نہیں کرتا جو بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں بہت گہری ہوتی ہیں۔یہ عادات ہی ہیں جو کامیاب اور ناکام انسان میں فرق واضح کرتی ہیں۔آپ کسی بھی کامیاب شخص کو دیکھ لیں‘ آپ اس میں ایسی عادتیں ضرور دیکھیں گے۔ کامیاب شخص کبھی بھی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ جیب میں رومال رکھنا‘ مانگ سیدھی نکالنا‘ صاف کپڑے پہننا‘ پالش جوتے پہننا ‘ چہرے پر مسکراہٹ رکھنا‘ خوش اخلاقی سے ملنا‘ نظروں سے نظریں ملا کر بات کرنا ایسی باتیں ہیں جو ہر کامیاب شخص میں ملیں گی۔ آپ کوئی نوکری کرتے ہیں‘ اس سے بہتر نوکری پانا چاہتے ہیں یا ترقی کے خواہشمند ہیں، یا پھر آپ کاروبار شروع کر رہے ہیں اور اسے آسمانوں کو چھوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرنا ہو گا۔ موبائل کا بیلنس ‘ گاڑی یا موٹر سائیکل کا پٹرول بچا نے سے چند روپے تو بچ جائیں گے‘ جیب میں رومال نہ رکھنے‘ دھلے ہوئے کپڑے نہ پہننے اور الجھے بالوں کے ساتھ نوکری یا کاروبار چلتا تو رہے گا لیکن اس میں کبھی بھی غیرمعمولی بہتری نہیںآئے گی‘ اس طرح آپ ترقی کی بلندیوں کو کبھی نہیں چُھو سکیں گے۔