تازہ ترین خبر ملاحظہ کیجئے۔ برطانیہ میں ٹیکس کا نیا قانون نافذ ہونے والا ہے۔ جس مکان میں ایک بھی کمرہ اضافی ہو گا ‘ ا س کا ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اس ٹیکس کے خلاف گزشتہ روز ہزاروں افراد نے لندن میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا۔ گلاسگو میں اڑھائی ہزار افراد نے پیدل مارچ کیا۔ لندن کے ٹریفالگر سکوائر پر بھی لوگ جمع ہوئے اور اس ٹیکس کو لاگو نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔اس نئے ٹیکس‘ جسے ’’بیڈ روم ٹیکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ کے دائرے میں پچاس شہروں کے چھ لاکھ ساٹھ گھرآئیں گے۔ صرف ان لوگوں کو استثنیٰ حاصل ہو گا جن کا فلیٹ ایک بیڈروم پر مشتمل ہے۔ یہ بھی بتانا ہو گا کہ اضافی کمرہ کس کے استعمال میں ہے۔ مکمل تفصیلات برطانوی حکومت کو فراہم کرنا ہوں گی تاکہ زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے ۔اس طرح یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ رہائش کی نئی ضروریات کیا ہیں اور ان کے بارے میں ابھی سے کیا منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔اگر ایک گھر میں میاں بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ گھر تین کمروں پر مشتمل ہے۔بیٹے کی عمر آٹھ برس اور بیٹی کی چھ برس ہے۔ شوہربرسر روزگار ہے تو بچوں کی عمریں دس برس سے کم ہونے کی وجہ سے برطانوی قانون کے مطابق وہ ایک ہی کمرے کو شیئر کر سکتے ہیں تاہم اس طرح گھر میں ایک کمرہ اضافی بچ جائے گا جو ٹیکس کے زمرے میں آئے گا۔ نئے قانون کے مطابق ایسے خاندان کا رہائشی الائونس 14 فیصد کم ہو جائے گا۔ اسے ہر ہفتے کم از کم 11.20پائونڈ کرائے کی مد میں زیادہ ادا کرنے ہوں گے اور اگر وہ اس مشکل سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس تین راستے ہوں گے: 1۔ دو کمروں کے گھر میں منتقل ہو جائیں۔ 2۔ اپنے دیگر اخراجات کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ اضافی کرایہ نکالا جا سکے۔ 3۔ بیگم صاحبہ بھی نوکری کریں اور یوں آمدنی بڑھا کر ٹیکس بھی دیں اور بڑی رہائش کے مزے بھی اٹھائیں۔ جی ہاں‘ پاکستان نہیں‘یہ برطانیہ ہے۔ یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایک ایک نوالے‘ ایک ایک کمرے اور ایک ایک منٹ کا یوں ہی حساب دینا پڑتا ہے۔ ایک دائرہ ہے۔ عام شہری سے لے کر وزیراعظم تک‘ کوئی بھی اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جو کبھی نکلتا ہے اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے ذرا ملاحظہ کیجئے۔ 6 جولائی 2000ء کی درمیانی رات سنٹرل لندن میں ‘لیکسٹن سکوائر پر تین نوعمر لڑکے جمع تھے۔ تینوں کے ہاتھ میں وہسکی کی ایک ایک بوتل تھی۔ان میں یوان نے ایک ہی گھونٹ میں آدھی بوتل انڈیل لی۔ چند منٹوں بعد وہ اُوندھا پڑا تھا۔ پٹرولنگ پولیس نے یوان کو پبلک مقام پر شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ شناخت کی گئی تو وہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا بیٹا یوان بلیئر نکلا۔ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کال کر کے ٹونی بلیئرکو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے آفیسرکو کوئی دھمکی دی نہ ہی تھانے کا عملہ معطل کیا بلکہ کہا ’’یوان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو برطانوی شہریوںکے ساتھ کیا جاتا ہے‘‘ ٹونی بلیئر نے اپنے بیٹے کے کرتوتوں پر معافی مانگی اور فون بند کر دیا۔ یوان کو سزا سنا دی گئی۔ 20جولائی 2001ء کے دن بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ ولیم نامی نوجوان صبح سویرے اٹھا۔ سائیکل پکڑی‘ اخبارمارکیٹ سے اخبار لیے اور تقسیم کرنے نکل گیا۔ ایک گلی سے مڑ رہا تھا کہ دو پولیس والوں نے روک لیا۔ تلاشی لی گئی تو ایک اخبار کے اندر سے کوکین برآمد ہوئی ۔ یہ نوجوان برطانیہ کے ہوم سیکرٹری جیک سٹرا کا بیٹا ولیم سٹرا تھا۔ ہوم سیکرٹری کو اطلاع ہوئی تو وہ یہ کہہ کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا کہ ’’قانون سب کیلئے یکساںہے‘‘۔ 25دسمبر 2007ء کے دن پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص اپنی گاڑی میں لندن جانے کیلئے نکلا۔ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر وہ پیغام پڑھنے ہی لگا تھا کہ اُس کی کار اگلی کار سے جا ٹکرائی اور دوسری گاڑی میں موجود کار سوار ہلاک ہو گیا۔ یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا۔ عدالت نے اسے تین ماہ قید اور پانچ سو پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی اور وہ شخص سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ نذیر احمد نامی یہ شخص 55 سال پہلے میر پور میں پیدا ہوا‘ جوانی میں برطانیہ آ گیا‘ محنت سے تقدیر بدلی اور برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف لارڈز کا رُکن لارڈ نذیر احمد کہلانے لگا۔ عدالت نے اُسے 26فروری2009ء کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔ لارڈ نذیر نے خوش دلی سے یہ فیصلہ قبول کر لیا۔ اب واپس پاکستان کی طرف آئیں۔ پاکستان میں انتخابات میں ابھی 40دن باقی ہیں۔اس بارے میں بھی دو آراء ہیں۔ ایک ‘ یہ انتخابات وقت مقررہ سے آگے چلے جائیں گے۔ نگران وفاقی اور صوبائی کابینہ ابھی تک وجود میں نہیں آ سکی۔ دہشت گردی کے خدشات بھی موجود ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان کسی بھی بات پر اعتبار اور فیصلہ کرنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لے رہے ہیں۔ ان عوامل کے ہوتے ہوئے وقت مقررہ پر الیکشن کا انعقاد ایک معجزے سے کم نہ ہو گا۔ دوسری رائے اس سے مختلف ہے۔ الیکشن ہو بھی گئے تو ہو گا کیا؟ کوئی بھی جماعت کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نتیجہ مخلوط حکومت کی شکل میں نکلے گا۔ ایک جماعت کب تک دوسری جماعت کی بلیک میلنگ کا بوجھ اٹھاتی رہے گی۔ آئی ایم ایف کا قرضہ‘ بڑھتا ہوا خسارہ‘ لوڈشیڈنگ اور دیگر بحران الگ سے نئی حکومت کو لتاڑتے رہیں گے چنانچہ نئی حکومت بھی بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گی۔ یہ بھی ناکام ہو جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا۔ ٹیکنوکریٹس حکومت بنے گی یا دوبارہ فوج اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لے گی‘ سرِ دست ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک اور معجزہ ہو جائے۔ لوگ آزمائی ہوئی جماعتوں کو اب نہ آزمائیں۔ کسی تیسرے چہرے کو میدان میں اتار دیں اور تیسری طاقت اقتدار میں آ کر دیگر دو جماعتوں جیسی غلطیاں نہ کرے بلکہ ملک کو صحیح معنوں پر سیدھے راستے پر گامزن کردے۔ تعلیم کو اوّلین ترجیح دے۔ مساوات کے اُصول لاگو کرے۔ ہر کسی سے اس کی استطاعت کے مطابق ٹیکس وصول کرے‘ پوری ذمہ داری اور دیانتداری سے کاروبارِ حکومت چلائے۔ اپنا بھی احتساب کرے اور دوسروں کو بھی معاف نہ کرے اور اگر یہ برطانیہ کی طرح چھوٹے سے چھوٹے قوانین تک پر سختی سے عمل کرائے‘ یہ بیڈ روم ٹیکس سے آغاز کرے اور لوگوں کے زائد مکانوں‘ اضافی گاڑیوں اور زمینوں کو ٹیکس کے دائرے میں لے آئے تو پھر ممکن ہے کہ ملک ٹریک پر آ جائے اور اس وقت سیاسی منظر نامے میں ایک ہی ایسی جماعت ہے جو اس ملک کو ٹریک پر لا سکتی ہے‘یہی اس ملک کی پہلی اور آخری آپشن ہے اور اگر یہ بھی کچھ نہ کر سکی تو پھر یہ اس کی کسی بھی الیکشن میں پہلی اور آخری کامیابی ہو گی کیونکہ اس کے بعد اس ملک کے پاس کوئی چوتھا یا پانچواں راستہ باقی نہیں رہتا ۔ اس کے بعد بس ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے جس کی پیش گوئی کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔