یہ محض دو واقعات ہی نہیں‘ اس ملک کا اصل چہرہ بھی ہیں۔ 2008ء کے اوائل کی بات ہے۔ انتخابات کی تاریخ18فروری مقرر ہو چکی تھی۔تقریباً وہی کچھ ہو رہا تھا جو آج ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے امیداروں نے ابھی الیکشن کمیشن کی چھلنی سے گزرنا تھا۔ کچھ سیاسی جماعتیں خود کو رجسٹر کروانے کے لئے الیکشن کمیشن میں اپنے کوائف جمع کروا رہی تھیں۔ انہی دنوںایک مذہبی جماعت نے خود کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر کرانے کا فیصلہ کیا۔ سنجیدگی کا عالم دیکھئے کہ اس جماعت کے قائدین اُس وقت برف باری کے مزے لینے مری پہنچے ہوئے تھے۔ جماعت کے ایک باریش نوجوان کو فریضہ سونپا گیا کہ وہ کاغذات لے کر اسلام آباد چلا جائے اور الیکشن کمیشن کے حضور پیش کر دے۔ اس میٹرک پاس نوجوان نے کاغذات بغل میں دبائے اور بس ٹرمینل پر پہنچ گیا۔ اسے اندازہ ہی نہ تھا کتنا اہم فریضہ وہ سر انجام دینے جا رہا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد کے چار پانچ گھنٹے کے سفر میں اسے ذرا بھی پریشانی یا دبائو محسوس نہیں ہوا۔ شاید اسے یقین تھا کہ اس کا دورہ کامیاب رہے گا اور وہ جماعت کو رجسٹر کروا کر ہی لوٹے گا۔ اس روز کاغذات جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی؛البتہ الیکشن کمیشن نے کاغذات کی وصولی کا وقت رات بارہ بجے تک بڑھا دیا تھا۔ ذمہ داری کا عالم دیکھئے کہ یہ نوجوان دوپہر کو تین بجے لاہور سے روانہ ہوا اور رات نو بجے اسلام آباد پہنچا۔ الیکشن کمیشن کا دفتر ڈھونڈتے اور ٹریفک کی وجہ سے وہ مزید لیٹ ہو گیا۔ الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ رش کی وجہ سے بڑی مشکل سے متعلقہ آفیسر تک پہنچا اور اپنے کاغذات پیش کر دئیے۔ افسر چند منٹ کاغذات کا بغور جائزہ لیتا رہا۔ پھر اس نے چشمہ اُتارا اورنوجوان کو سر سے پائوں تک گھور کر دیکھا۔ شلوار قمیص میں ملبوس نوجوان نے پائوں میں چپل پہنی ہوئی تھی۔ کاندھے پر جہازی سائز کا رُومال ڈال رکھا تھا اور بار بار گھڑی کی جانب یوں دیکھ رہا تھا جیسے اُسے اس سے بھی کہیں زیادہ اہم جگہ پرپہنچنا ہو۔ افسر نے دریافت کیا کہ کاغذات میں اخراجات کے ہر خانے میں صفر کیوں لکھا ہوا ہے۔ جماعت کا دفتر جس عمارت میں قائم ہے اس کا کرایہ صفر، جماعت کے ارکان کے اجلاسوں کا سالانہ خرچہ صفر، پرنٹنگ‘ بینرز‘ سٹیشنری وغیرہ کے اخراجات صفر، جماعت کے دفترمیں کوئی ٹیلیفون‘ کوئی چپڑاسی‘ کوئی کمپیوٹر موجود نہیں۔ بجلی‘ پانی کا ماہانہ اور سالانہ خرچہ صفر۔ جماعت کے دفتر میں مہمان آ جائے تو اس کی تواضع کے اخراجات صفر۔ جماعت کے ذرائع آمدن ‘ کوئی نہیں۔ حتیٰ کہ جماعت کو چندہ وغیرہ ملنے کی تفصیل کا جواب بھی صفر لکھا گیا اور چونکہ اخراجات ہی نہ تھے تو ٹیکس دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کیا پورے سال میں کوئی دوسرے جماعتی اخراجات ہوئے تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ شاید اسے یہی سمجھا بجھا کر بھیجا گیا تھا۔ افسر سٹپٹا کر بولا؛ یہ کیسی جماعت ہے جس کا کوئی خرچہ ہی نہیں ہے۔ بالآخر تنگ آ کر بولا، بھائی تم آئے کہاں سے ہو۔ وہ بولا‘ لاہور سے۔ افسر بولا‘ پیدل آئے ہو ‘گاڑی یا بس پر۔ بولا‘ بس پر۔ افسر بولا‘ تو پھر بس والے کو ضرور کچھ کرایہ بھی دیا ہو گا۔ باریش نوجوان مریل سی آواز میں بولا، ہاں جی دیاتھا۔ افسر بولا۔ خدا کے بندے ‘ تو پھر یہ کرایہ ہی یہاں لکھ دو۔ تم جماعت کے کام سے یہاں آئے ہو تو اس کو تو جماعتی اخراجات میں شامل کر لو۔ تھوڑے سے تذبذب کے بعد نوجوان نے بالآخر سیاسی جماعت کے کُل سالانہ اخراجات کے خانے میں آٹھ سو روپے کی رقم لکھ دی۔ دوسرا واقعہ سن لیجئے۔ ایک شخص نے اپنے لڑکے کو بھیجا کہ دس واٹ کے انرجی سیور بلب لے آئے۔ اس کا بیٹا گیا اور بازار سے بلب خرید لایا۔ الیکٹریشن ڈبے کھولتا گیا اور ایک ایک کر کے بلب لگاتا گیا۔ ایک ڈبہ کھولا تو اندر سے جلا ہوا بلب نکلا۔ اس نے بلب مالک کو دکھایا۔ مالک نے بیٹے کو ساتھ لیا اور دکان پر پہنچ گیا۔ دکاندار نے ڈبے سے جلا ہوا بلب نکالا، اسے غور سے دیکھا اور یہ کہہ کر تبدیل کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ بلب اس کے ہاں سے گیا ہی نہیں۔یہ بھی کہا کہ ڈبہ کسی اور برینڈ کا ہے اور بلب کسی اور کمپنی کا، اس لئے وارنٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔وہ کافی دیر تک الجھتے رہے لیکن دکاندار اپنے موقف پر قائم رہا۔ دونوں وہاں سے نکلے ،کسی اور دکان سے بلب لیا اور گھر کی تصاویر اتارنے کے لیے کیمرے کی ایک فلم خرید کر گھر آ گئے۔ یہ فلم لیمینیشن کی پیکنگ میں تھی۔ پیکنگ اُتاری تو سب چکرا اُٹھے‘ ڈبے میں فلم کی بجائے پتھر بھرے ہوئے تھے۔ یہ دونوں واقعات ملک کی تصویر کے دو رُخ ہیں، یہ تصویر سیاہ ہے اور یہ دونوں جانب سے ایک جیسی ہے۔ ایک طرف حکمران ہیں تو دوسری طرف عوام۔ دونوں ہی بد نیت اور دونوں ہی اپنے وطن کی جڑیں کاٹنے میں مصروف۔ میں مذکورہ مذہبی جماعت کے لیڈر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔مجھے یہ واقعہ سن کر زیادہ افسوس اس لئے ہوا کہ اس طرح کے جھوٹ عام سیاستدان بولے تو اتنا دُکھ نہیں ہوتا لیکن اُن صالحین کے بر ملا جھوٹ سن کر ضرور تعجب ہوتا ہے جو خود کو منبر ِ رسول ﷺ کا وارث سمجھتے ہیں‘ جو پیغمبر مصطفیٰ ﷺ کی دیانت اور امانت کی صدائیں بلند کرتے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ جو حکم آیا ہے کہ ’’اہلِ علم سے پوچھ لیا کرو‘ ‘تو یہ حکم انہی کے بارے میں ہے، جو آج گلی گلی قریہ قریہ دین حق کا عَلم بلند کر رہے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے یہ جھوٹ انسان کو یہ سوچنے پرمجبور نہیں کر دیتے کہ وہ کسی بھی عالم اورکسی بھی دین دار پر اعتبار نہ کرے ۔تصویر کا دوسرا رُخ عوام ہیں۔دکاندار سے لے کر صنعتکار تک سبھی کاروبار زندگی میں جھوٹ کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ دس نمبر مال ایک نمبر کہہ کر بیچا جا رہا اور منہ مانگی قیمت پر ۔ کم تولنا‘ خالص اشیا میں خراب شے شامل کر دینا‘ گارنٹی ہونے کے باوجود چیز تبدیل نہ کرنا اور ملاوٹ کرنے جیسی بدعنوانیاں معمول بن چکیں۔کرپشن عام آدمی تک کے خون میں رچ بس چکی۔ کیا ان خرابیوں میں لت پت عام آدمی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکمرانوں سے گلہ کرے اور انہیں کرپٹ اور عوام دشمن قرار دے؟ ان پر انگلی اٹھائے اور ان کے احتساب کا مطالبہ کرے؟ عوام اور حکمرانوں کے درمیان تعلق کو شاید اس سے بہتر بیان نہیں کیا جا سکتا کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ۔