یہ حقیقت ہے کہ 11مئی کو وہی جماعت اکثریت حاصل کرے گی جسے نوجوانوں کی سپورٹ حاصل ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوان چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں‘ ان میں برداشت موجود ہے نہ کسی کا موقف سننے کا حوصلہ ۔ نوجوانوں کی اکثریت زور زبردستی کی قائل ہے۔ ہر کسی کا خیال ہے کہ ان کی سیاسی جماعت سب سے زیادہ مقبول اور اس کا لیڈر سب سے زیادہ دیانت دار ہے۔ سبھی اپنے منشور اور اپنے قائد کے فرمان کو ہی حق مانتے ہیں اور ان کے نزدیک دوسری جماعت کا منشور اور اس کے ارشادات بے کار اور بے فائدہ ہیں۔ تقلید شخصی کی وبا ہمارے نوجوانوں کو اس موڑ پر لے آئی ہے کہ وہ کسی اور کا نقطہ نظر سننا جائز ہی نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان ایک تنگ دائرے میں محدود ہو چکے۔ یہ اس دائرے سے کب اور کیسے باہر نکلیں گے یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کی اندھی محبت میں گرفتار ہے‘ اس کا یہی حال ہے‘ ہمارے لوگ‘ ہمارے عوام ایسا کیوں سوچتے ہیں‘ یہ اتنی جلدی ہائپر کیوں ہو جاتے ہیں‘ یہ دوسرا تیسرا موقف سننے کو تیار کیوں نہیں ہوتے‘ ان کی برداشت کیوں ختم ہورہی ہے اور یہ اپنی مرضی اور اپنی پسند کے خلاف ایک سطر اور ایک لفظ تک برداشت کیوں نہیں کرتے‘ یہ سوال آج کا سب سے بڑا المیہ بن چکا ہے۔ ذرا غور کیجئے جب میں لکھتا ہوں‘ آج ملک جن بحرانوں کا شکار ہے‘ آج جس طرح غریب بھوکا مر رہا ہے‘ آج روزگار‘ تعلیم ‘ انصاف اور صحت جیسی نعمتیں اس ملک سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور آج یہ ملک جس طرح مسائل کی دلدل میں دھنس رہا ہے اس کی ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کے قائدین پر عائد ہوتی ہے اور انہیں یہ ذمہ داری قبول بھی کرنی چاہیے اور جب میں یہ لکھتا ہوں اس کے لیڈر اپنی دولت اور اپنے اثاثے بیرون ملک رکھ کر بیٹھے ہیں اور یہ اپنی دولت اس ملک میں واپس کیوں نہیں لے آتے تو پیپلزپارٹی کے مداح ‘ اس کے فین مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ایسی صورتحال موجود ہے نہ ہی مجھے ایسا لکھنا چاہیے‘ ان کے خیال میں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں‘ ہر طرف امن ہے اور کسی کو کوئی بھی شکایت نہیں ہے اور اگر میں یہ نہیں لکھتا تو پھر کوئی نوجوان‘ کوئی جیالا ‘ کوئی سیاسی کارکن اٹھتا ہے‘ میرا گریبان پکڑ لیتا ہے اور مجھے بتلاتا ہے میں نے اچھا نہیں کیا‘ مجھے ایسا نہیں لکھنا چاہیے تھا اور یہ صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں آپ مسلم لیگ ن کو لے لیجئے‘ یہ جماعت دو مرتبہ اقتدار میں رہ چکی ہے‘ یہ پس پردہ اس وقت بھی سب سے بڑے صوبے پر حکومت کر رہی ہے اور اس کے لیڈر خود کو عوام کے خادم کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن جب میں لکھتا ہوں ماضی میں پی پی پی کی طرح نون لیگ اور اس کے لیڈر بھی ناکام ہوئے‘ یہ بھی لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے‘ یہ بھی عوام کو نیلی پیلی ٹیکسیوں اور کالے پیلے رکشوں میں الجھاتے رہے اور جب میں کارگل کی ناکامی اور پھر پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کی بات کرتا ہوں اور جب ان کو بھی ان کے بیرون ملک اثاثے پاکستان لانے اور جسٹی فائی کرنے کا کہتا ہوں تو ن لیگ کے جیالے بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں‘ ان کے خیال میں مجھے لکھنا چاہیے میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے بڑا لیڈر کوئی پیدا ہوا نہ ہو گا ‘ یہ کرپشن فری جماعت ہے اور یہ واحد جماعت ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور اگر میں یہ نہیں لکھتا تویہ بھی سبق سکھانے اور قلم کو ہتھکڑی لگوانے کی بات کرتے ہیں اور یہ وائرس پی پی پی اور ن میں ہی نہیں‘ تحریک انصاف تک میں سرایت کر چکا ہے‘ آپ کسی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں‘ کوئی تھنک ٹینک چلاتے ہیں‘ بلاگز لکھتے ہیں یا پھر کالم نویس ہیں‘ اگر آپ تحریک انصاف یا اس کے قائد کے بارے میں کوئی ایسی بات لکھ دیں جو قائد کی شان سے ہٹ کر ہو‘ جس سے تنقید کی بو آتی ہو اور جس میں پارٹی یا قائد کے داغدار ماضی کا ذکر ہو یا پھر آپ اس میں شامل ہونے والے جعلی ڈگری ہولڈرز پر تنقید کر دیں یا پھر اس کے مستقبل پر ایسی روشنی ڈال دیں جس کی چمک سے ناکامی جھلکتی ہو‘ تو اس کے مجنوئوں کے پیٹوں میں بھی مروڑ اٹھنے لگتے ہیں‘ یہ آپ کو بتاتے ہیں آپ نے کتنی سنگین غلطی کی ہے‘ ان کے خیال میں ان کا لیڈر غلط تھا‘ہے‘ نہ ہو گا‘ یہ آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے لگے ہیں اور یہ چاہتے ہیں ہم بھی اس کے پیچھے لگ جائیں اور اگلے ہزاربرس تک ان کی شان میں قصیدے لکھتے رہیں‘ یوں یہ لوگ اپنے رویے سے ثابت کر رہے ہیں یہ تحریک انصاف کو بھی جلد پیپلزپارٹی اور ن لیگ بنا دیں گے اور انہی لوگوں کی وجہ سے عوام اس تحریک سے بھی دل گرفتہ ہونے لگے ہیں۔چوتھے قسم کے شیدائی اور نوجوان وہ ہیں جنہیں ان کے مذہبی لیڈروں نے برسوں سے اپنے پیچھے لگا رکھا ہے۔ ان کے مدارس میں جو سینکڑوں ہزاروں بچے پڑھتے ہیں ان کا تعلق انتہائی پسماندہ خاندانوں سے ہوتا ہے۔یہ لوگ ان بچوں کو رہائش، کھانا اور تعلیم مفت مہیا کرتے ہیں اور بدلے میں ان سے ہر قسم کی سروسز وصول کرتے ہیں۔ ان میں جلسے جلوس نکالنا‘ الیکشن مہم میں معاونت اور مخالفین کو ڈرانا دھمکانا بھی شامل ہے۔ یہ ان نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ چند روزہ دنیا میں دل لگانا اور دولت وغیرہ اکٹھی کرنا اچھی بات نہیں‘ انسان کو اپنی آخرت پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ لوگ یہ باتیں اتنی بار دہراتے ہیں کہ یہ نوجوان ترقی وغیرہ سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ساری عمر اُن کے یرغمال بن کر گزار دیتے ہیں۔ دوسری طرف آپ ان مذہبی لیڈروں کی ذاتی زندگی دیکھیں تو قول و فعل کاتضاد واضح ہو جائے گا۔ عالیشان گھر‘ قیمتی گاڑیاں فرنیچر دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے لیکن جب ان نوجوانوں کو آپ کہیں گے کہ مذہب صرف آخرت کا نام نہیں بلکہ دنیا کو بہتر بنانا بھی انسان کے فرائض میں شامل ہے تو یہ بھی آستینیں چڑھا لیں گے اور آپ کو اس گستاخی کا مزا چکھا دیں گے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا ہمارے نوجوانوں کو ایسا کرنا چاہیے؟ آخر کب تک ہم آنکھیں بند کر کے اپنے اپنے لیڈر کی پوجا کرتے رہیں گے اور کیا عدم برداشت کا یہ رویہ اس ملک کو تباہی کی طرف نہیں لے جا رہا ؟ اس ملک اور اس کے نوجوانوں کی تقدیر ان چند سوالوں کے جواب پر کھڑی ہے۔