تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک خوفناک حادثے میں بال بال بچ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حادثہ تھا یا سازش؟ دو روز قبل ان کی سکیورٹی غیر معمولی طور پر کیوں تبدیل کی گئی؟ آگے بڑھنے سے قبل 7مئی کو اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر ملاحظہ کیجئے ’’پنجاب میں21 سیاستدانوں کی جان کو دہشتگردوں سے خطرہ ہے ۔ ان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سر فہرست ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کی جان کو خطرے کے باعث ان کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایس ایس پی سلمان علی خان کو چیف سیکورٹی آفیسر مقرر کر دیا گیا ہے۔ دس ایلیٹ کی گاڑیاں اور80 ایلیٹ جوان ان کی زیر نگرانی کام کریں گے ۔ جوانوں کو جدید اسلحہ بھی دے دیا گیا ہے ۔ایلیٹ کے جوان انتخابی جلسوں اور ریلیوں کی حفاظت کے لیے فرائض انجام دیں گے ۔ عمران خان کی بہنوں کو بھی سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ ایلیٹ فورس سمیت پولیس کے اہلکار بھی معمول کے مطابق ڈیوٹی انجام دیں گے‘‘۔ جس روز یہ خبر چھپی اس روز عمران خان کے تمام تر جلسوں کی حفاظت کی ذمہ داری نئے ایس ایس پی کے ذمہ تھی۔ وہ یہ ذمہ داری کہاں تک پوری کرنے میں کامیاب رہے‘ اس بارے میں کیا کہا جائے کہ یہ سانحہ از خود بہت کچھ ظاہر کررہا ہے ۔بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ شام کا وقت تھا۔ لیکن ٹی وی کیمروں میں ایسے لگ رہا تھا جیسے رات کا وقت ہو اور ہر طرف اندھیرا چھایا ہو ۔بعد میں سٹل کیمروں کے ذریعے جو تصاویر سامنے آئیں انہوں نے سارا سچ کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ تصویروں کی ایک سیریز ہے۔ پہلی تصویر میں عمران خان سادہ کپڑوں میںملبوس سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں لفٹر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ چھ اہلکاروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں۔ ایک زنجیر کی شکل میں وہ عمران کے گرد حصار بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے پانچ اہلکاروں کی وردی ایک جیسی ہے۔ یہ سفاری سوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ ایسے اہلکار عموماً اہم شخصیات کے انتہائی قریب تر رہتے ہیں۔ ان کے پاس خصوصی آلات ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ آس پاس کی دھیمی گفتگو کو بھی آسانی سے سن سکتے ہیں۔ ان میں ایک اہلکار غیرمعمولی طور پر عمران خان کے بالکل قریب ہے۔ یہ سفاری سوٹ میں ملبوس نہیں بلکہ اس نے نیلے رنگ کی پینٹ اور کالے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ اس شخص کے بال فوجی کٹ ہیں اور جسم خاصا بھاری لیکن ورزشی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ کے قریب مسلح جوان ہیں۔ یہ بھی عمران کے دائیں بائیں چل رہے ہیں۔ دوسری تصویر میں یہ لفٹ کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ لفٹر پر بہت سے کریٹ رکھے ہیں جن کی لمبائی اور چوڑائی تقریباً چار ضرب تین فٹ ہے۔ اتنی جگہ پر زیادہ سے زیادہ تین افراد کھڑے ہو سکتے ہیں۔ پہلی غلطی یہیں پر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہاں پر ایسا کوئی سکیورٹی افسر موجود تھا جو لفٹر پر عمران خان کے ساتھ چڑھنے والے اہلکاروں کی تعداد معین کر سکتا ہو؟ موجود تھا تو اس کا دھیان کہاں تھا؟ تصویر میں دکھائی دے رہا ہے کہ جب عمران اور دو اہلکار سوار ہو چکے تھے تو آپریٹر نے لفٹر کو اوپر اٹھا دیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے لفٹراوپر اٹھایا یا پھر اسے کسی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ؟ کیا وہ اپنی مرضی سے جب چاہے ایک ایسا لفٹر اوپر اٹھا سکتا تھا جس پر اہم ترین شخصیت سوار ہو؟ تیسری تصویر میں ایک سفاری سوٹ والا اہلکار اوپر جاتے لفٹر پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان کے پیچھے والا پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس شخص بھی زبردستی اُوپر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اتنے لوگ بیک وقت لفٹر پر چڑھ رہے تھے تو کسی سکیورٹی افسر نے ان دونوں کو روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ یہ دوسرا سکیورٹی لیپس ہے۔ کسی کے ذہن میں خیال کیوں نہ آیا کہ لفٹر پر جگہ کم ہے اور ایسا کرنے سے بیلنس خراب ہو سکتا ہے؟ لفٹر تقریباً دس فٹ کی بلندی پر پہنچتا ہے تو اگلی تصویر میں پینٹ شرٹ والا اہلکار پیچھے سے عمران خان کو دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے ہے۔ اسے ایسا ہی کرنے کی تنخواہ ملی تھی اور یہی وہ پوزیشن تھی جس میں اسے آخر وقت تک رہنا چاہیے تھے۔ تاہم اصل مبینہ سازش اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ پینٹ شرٹ والے نوجوان کے پیچھے ایک سفاری سوٹ والا اہلکار اوپر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ خود آنا چاہتا تھا یا یہ پلاننگ کے تحت اسے اوپر بلایا جا رہا تھا تاکہ پیچھے مڑا جا سکے‘ یہ بھی اب بہت بڑا معمہ نہیں رہا۔ کالی ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان نے زبردست پینترا بدلا۔ اس نے عمران خان کا گھیرا چھوڑا۔ یہ واپس مڑا اور نیچے لٹکے ہوئے اہلکار کو جھک کر پکڑنے لگا۔ اس طرح اس کی پشت مکمل طور پر عمران خان کے ساتھ لگ گئی جو تصاویر میں واضح دکھائی دے رہی ہے۔ اگلی تصویر میں عمران خان کا ہاتھ اس کی پشت پر لگتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران کو پیچھے سے ہلکا ہلکا دھکا لگ رہا تھاجس سے ان کا ہاتھ بے ساختہ پیچھے چلا گیا۔ ویڈیو میں بھی یہ منظر موجود ہے۔ اس شخص کی پشت مکمل طور پر عمران کی ٹانگ کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ عمران کی شلوار بھی اکٹھی ہو کر ٹانگ سے چپکی نظر آتی ہے۔ آخری تصویر فیصلہ کن ہے۔ اس تصویر میں وہ شخص مزید جھک جاتا ہے ساتھ ہی اپنی پشت مکمل طور پر عمران کی کمر کے ساتھ لگا لیتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ اس وقت دو اہلکار مزید چپکے ہوئے ہیں ۔ لفٹراپنی آخری حد تک کنٹینر کے برابر پہنچ چکا ہے۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران خان ان دو سفاری سوٹ والے اہلکاروں کے ساتھ یکدم اسی سمت میں گرتے ہیں جس طرف پینٹ شرٹ والے نوجوان کی پشت ہے۔ ایک اہلکار جو اسی اثنا میں اوپر چڑھ رہا ہوتا ہے اسے ایک اور اہلکار سہارا لینے کی کوشش میں تھامنے کی کوشش کرتا ہے لیکن عمران کو دھکا اتنی زور کا لگ چکا ہوتا ہے کہ یہ چارورں سر کے بل گھومتے ہوئے زمین پر جا گرتے ہیں۔ عمران خان کی ایک روز قبل سکیورٹی کیوں تبدیل کی گئی؟ اب تک حکومت پنجاب اور اعلیٰ سکیورٹی افسران نے کیا تفتیش کی؟ کوئی مستعفی کیوں نہ ہوا؟ کسی کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا گیا؟ تمام اہلکار ایک مرتبہ ہی چڑھنے کی کوشش کیوں کر رہے تھے ‘ کیا دوبارہ لفٹر نے نیچے نہیں آنا تھا ؟ کیا یہ اگلی باری میں نہیں جا سکتے تھے؟ یہ پینٹ شرٹ والا شخص کون تھا؟ اس کا فرض عمران کو گھیرے میں لینا تھا لیکن یہ عمران کو چھوڑ کر سکیورٹی اہلکار کو پکڑنے کے لیے کیوں جھکا؟ کالی شرٹ والے شخص نے یہ ’’نیکی‘‘ از خود انجام دی یا اسے ٹاسک دیا گیا یا پھر یہ واقعی ایک حادثہ تھا؟ کیا ہمیں ان سوالوں کا جواب مل سکتا ہے؟اور سب سے بڑا سوال کہ عمران کی طرف پشت کرنے والے اہلکار کی پشت پر کون ہے؟