وسیم ایک سرکاری افسر تھا۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا کہ ایک روزاس نے ایک فون کال ریسیو کر لی۔ اس کال نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ یہ ایک دوشیزہ کی بظاہر رانگ کال تھی۔ مجھے جمیل سے بات کرنی ہے۔ کیا یہ جمیل کا نمبر ہے؟ وسیم نے ازراہِ مذاق کہہ دیا ہاں یہ جمیل کا نمبر ہے اور میں جمیل ہی بات کر رہا ہوں۔ یہ اس دوستی کا آغاز تھا جس کا انجام خود وسیم کو بھی معلوم نہ تھا۔ دفتر میں‘ دفتر سے واپسی پر وہ دوشیزہ سے فون پر باتیں کرتا رہتا۔ گھر والے پوچھتے تو کہتا دوست ہے۔ جلد ہی یہ دوستی ملاقاتوں میں بدل گئی۔ وسیم کو اپنی بیوی سے نفرت ہونے لگی تھی۔ اس کے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا۔ وہ شمیم کے لیے اپنی بیوی حتیٰ کہ پھول سے بچوں کو بھی چھوڑنے کو تیار تھا۔ لیکن شمیم کے عزائم کچھ اور تھے۔ ایک روز وسیم رات گئے گھر واپس نہ آیا تو اس کی ہر جگہ تلاش کی گئی۔ موبائل بند تھا۔ تھانے رپورٹ درج کرائی گئی۔ موبائل نمبرز سے کالز ٹریس کی گئیں۔ کئی روز کی کوششوں کے بعد بالآخر وسیم مل گیا لیکن مردہ حالت میں۔ اس کی لاش بیدیاں روڈ سے ملی۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ شمیم نے ایک روز فون کر کے وسیم کو بیدیاں روڈ بلایا۔ وہاں وہ اپنے خاوند اور اس کے ساتھی سمیت پہلے سے موجود تھی۔ شمیم گاڑی میں وسیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور مشروب میں نشہ ملا دیا۔ جب وسیم بے ہوش ہو گیا تو تینوں نے مل کر وسیم کی جیب سے نقدی ‘ گھڑی اور موبائل لوٹا اور اسے قتل کر کے لاش گندے نالے میں پھینک دی۔ یہ صرف وسیم ہی نہیں عرفان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک دن عرفان کو کسی لڑکی کا ایس ایم ایس آیا۔ وہ دوستی کی خواہشمند تھی۔ عرفان نے جھٹ سے ہاں کر دی۔ دونوں کی بات چیت شروع ہو گئی۔ عرفان پوش علاقے مسلم ٹائون کا رہائشی تھا۔ عالیہ سے باتیں کرنے میں نہ جانے کیا نشہ تھا کہ عرفان کو وقت کی ہوش تھی نہ رقم کے ضیاع کا افسوس۔ بات آگے بڑھی۔ عالیہ نے عرفان سے کہا کہ وہ اسے قیمتی تحفہ دے لیکن یہ تحفہ وہ خود خریدے گی۔ عرفان ادھر اُدھر سے رقم اُدھار پکڑ کر بتائی گئی جگہ پر پہنچ گیا۔ وہاں عالیہ اوراس کی سہیلی موجود تھی۔ تینوں وہا ں سے کہیں اور چلے گئے جہاں پہلے سے موجود افراد کے ساتھ مل کر عرفان کو رسیوں سے باندھا گیا اور صرف 35ہزار لوٹنے کی خاطرسر پر ہتھوڑے کے وار کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ قتل کو چھپانے کے لیے اس کی لاش کے کئی ٹکڑے کئے گئے اور یہ ٹکڑے شہر کے مختلف نالوں میں پھینک دئیے۔صرف عرفان اس حال کو نہیں پہنچا بلکہ جوہر ٹائون کا رانا شاہد بھی ایسی ہی خوفناک حسینائوں کا شکار ہوا۔ سمیرا نے اسے بہانے سے اپنے پاس بلایا اور اغوا کرا کے گھر والوں سے بیس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا اور یہ صرف وسیم‘ عرفان اور رانا شاہد کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ درجنوں نوجوان اس سے بھی زیادہ خوفناک انجام کوپہنچنے اور اس انجام کو پہنچے کی وجہ تھی صرف ایک انجان فون کال۔ ہم سب کے گھروں میں ایک نہیں درجنوں موبائل فون موجود ہیں اور ہر کوئی پانچ پانچ سموں کا مالک ہے ۔دوسرے معنوں میں ایک وقت میں ہم نے حملہ آوروں کے لیے پانچ پانچ دروازے کھول رکھے ہیں۔ یہ دروازے چوبیس گھنٹے کھلے ہیں۔ ہم یہ دروازے بند نہیں کر سکتے کہ یہ ہماری مجبوری ہے، لیکن کسی انجان کال کو سننا اور اس کے بعد ایک نئے راستے پر چل نکلنا ایسا قدم ہے جو ہمیں اور ہمارے خاندان کو موت اور ذلت کی کھائی میں گرا سکتا ہے۔ اس وقت صرف لاہور میں سینکڑوں ایسی قاتل حسینائیں گروہوں کی شکل میں سرگرم ہیں جو دل لبھانے والی باتوں اور نشیلی آوازوں سے کبھی بھی آپ پر حملہ آور ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں یہ فون کرتے ہی اپنا مقصد بیان کر دیں۔ یہ مختلف انداز اپناتی ہیں۔ مثلاً یہ فون کر کے کہہ سکتی ہیں میرا پرس گم ہو گیا ہے‘ میں فلاں جگہ کھڑی ہوں اور مجھے ادائیگی کرنی ہے ‘ میری مدد کریں۔ یا پھر یہ آپ سے کہیں گی آپ کی لاٹری نکل آئی ہے۔ آپ اپنا شناختی کارڈ لے کر فلاں جگہ آ جائیں اور اپنا انعام لے جائیں۔ یہ کوئی بھی انداز اپنائیں لیکن یہ سچ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس وقت موت سے صرف ایک رانگ کال کے فاصلے پر کھڑا ہے اور سب سے زیادہ خطرہ ہمارے بچوں کو ہے جوتیسری چوتھی جماعت سے ہی موبائل کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ بچوں کو موبائل فون دینے کا مطلب انہیں ایک ایسی دنیا میں دھکیلنا ہے جس میں آپ بہت زیادہ پہنچ نہیں رکھتے۔ اگر آپ وسیم‘ عرفان اور رانا شاہد کے خوفناک انجام سے سبق سیکھ چکے ہیں تو آپ کو کچھ کام کرنا ہوں گے۔اگر آپ دیکھیں آپ کا بچہ کچھ دنوں سے کم بولنے لگا ہے۔ یہ جلدی سونے کے لیے چلا جاتا ہے لیکن سوتا نہیں ہے۔ یہ بہانے بہانے سے بازار جاتا ہے۔ اگر وہ کبھی آپ سے کہے لائیں ابو میں آپ کا یہ کام کر دوں اور اس کے لیے وہ آپ سے گاڑی یا موٹر سائیکل کی چابی مانگے۔ اگر اچانک اس کے اخراجات میں اضافہ ہو جائے‘ اگر اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن آ جائے‘ وہ گھر والوں سے بات بات پر جھگڑا کرے ‘ اگر وہ گروپ سٹڈی کے بہانے دوستوں کے ہاں رات گزارنے لگے‘ اگر معمول سے زیادہ اس کی موٹر سائیکل خراب ہونے لگے‘ اگر اس کے پٹرول کے استعمال میں اضافہ ہو جائے ‘ اگر وہ خود کپڑے استری کرنے لگے‘ روزانہ نئی نئی قمیضیں بدلنے لگے اور اگر اس کے موبائل کا خرچ یکدم بڑھ جائے تو سمجھ جائیں دال میں کچھ کالا ہے۔اس کے بعد آپ احتیاط کے تمام سوئچ آن کر لیں۔ اپنی غیر ضروری مصروفیات ختم کر کے فوری طور پر اپنے بچے کی طرف لوٹ آئیں۔اسی طرح اگر آپ کی بیٹی کی یکدم کوئی نئی سہیلی سامنے آ جائے‘ آپ کی بیٹی آپ سے اچانک لاڈ کرنا شروع ہو جائے اور اس لاڈ میں وہ آپ سے نئے کپڑے‘ نیا موبائل یا جیولری مانگ لے یا وہ یہ سب چیزیں گفٹ کے طور پر باہر سے لانے لگے تو سمجھ لیں آپ کی بیٹی خطرے میں ہے اور اگر آپ نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں اور احتیاطوں کو نظر انداز کر دیا ‘ اگر اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت میں غفلت کی اور اگر آپ نے موبائل فون دے کر انہیں وقت ‘حالات اور سماج کے حوالے کر دیا تو پھر یاد کیجئے‘ ایک ایسا وقت آئے گا جب آپ پچھتانا چاہیں گے مگر پچھتانے کا موقع آپ کو نہ مل سکے گا ،تب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اصل جائیداد اور اصل اثاثہ اولاد ہوتی ہے نہ کہ پلاٹ‘ بینک بیلنس‘ یا فارم ہائوس۔