گورنر ہائوس پھر سے آباد ہو چکا ہے۔ برطانیہ سے آئے چودھری محمد سرور اس کے نئے مکین ہیں۔یہ 1976 ء میں برطانیہ منتقل ہوئے ۔میری ہلز کے علاقے میں ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہ دکان 1982ء میں کیش اینڈ کیری میں تبدیل ہو گئی اور چند ہی برسوں میں یہ کیش اینڈ کیری برطانیہ کے چند بڑے کاروباری اداروں کے برابر آن کھڑی ہوئی۔ برطانیہ کی سیاست میں بھی داخل ہوئے اور یہاں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ 1997 ء میں برطانیہ میں پہلے مسلم ممبر پارلیمنٹ بن کر بیرون ملک پاکستانی مسلمانوں کیلئے شاندار مثال قائم کی۔ 2010ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ چودھری محمد سرور سے میری پہلی ملاقات 1990ء میں لندن میں اپنے والد کے ہمراہ ہوئی۔ یہ سنٹرل لندن کے ایک خوبصورت فلیٹ میںمقیم تھے۔ مستقل رہائش گلاسگو میں تھی۔ یہ اس وقت سیاست میں نہیں آئے تھے۔ میں میٹرک میں تھا جبکہ محمد سرور کے بچے مجھ سے بھی چھوٹے تھے۔ انس سرور جو بعد میں سیاست میں آئے ‘ صرف 6برس کے تھے۔ گورنر ہائوس میں حلف کی تقریب میں فیملی کے دیگر افراد کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھی اتنی ’’بڑی‘‘ کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔یہ تصویر کا ایک رخ تھا۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے ۔ چودھری صاحب کو برطانوی معاشرے نے عزت بھی دی ‘ شہرت بھی اور پیسہ بھی۔ برطانیہ میں رہ کر انہوں نے سیکھا‘ انسان قانون کے تابع ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں بیرونی ممالک میں پاکستانیوں کی کسی بھی کامیابی کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس کی وجہ وہاں کا قانون اور وہاں کا نظام ہے۔ چودھری صاحب کو علم ہو گا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کواپنے اخراجات کا حساب سپیکر کو جمع کرانا پڑتا ہے۔ وہ غیر قانونی مراعات حاصل نہیں کر سکتے۔ صرف اس بات پر سگنل کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے کہ وہ حاکم ہیں۔ چودھری صاحب نے وہاں اپنے بچوں کے لیے ناجائز پلاٹ بھی الاٹ نہیں کرائے ہوں گے۔ بینکوں سے قرضے معاف کرانے اور پھر سے نئے قرضے لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چودھری صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ برطانیہ میں کرپشن کا قانون کتنا سخت ہے۔ جو بھی اس کی زد میں آتا ہے جکڑا جاتا ہے۔ احتساب کے لیے نئی حکومت آنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ لندن اور دیگر شہروں میں پانی کو انمول نعمت سمجھا جاتا ہے۔ وہ وزیراعظم برطانیہ کے ٹین ڈائوننگ سٹریٹ والے گھر کے سائز سے بھی واقف ہوں گے۔ وہ یقینا یہ سب کچھ جانتے ہوں گے لیکن کیا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ گورنر ہائوس جو اب ان کا گھر بھی ہے‘ کتنے کنال پر مشتمل ہے؟ یہاں کتنے ملازم اور کتنے محافظ ہیں؟ اس کا بجٹ اور اس کے اخراجات کیا ہیں اور یہ اخراجات کس کی جیب سے ادا ہو رہے ہیں؟ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں کسی حکومتی شخصیت کے پاس اتنا بڑا ’’گھر‘‘ موجود ہے؟ کیا وہاں پارلیمانی ممبران کو سینکڑوں مالیوں ‘ ڈرائیوروں‘ خانساموں اور نوکر چاکروں کی فوج میسر ہوتی ہے؟ کیا برطانیہ میں کوئی ایسا عہدہ موجود ہے جس کا کام صرف سکولوں کے مینا بازار کا افتتاح کرنا‘ کسی بوتیک سیلون کا فیتا کاٹنا یا پھر محض کسی جگہ مہمان خصوصی بننا ہو لیکن ایسا حکمران اکیلا کھربوں روپے کے گھر میں رہ رہا ہو اور یہ گھر عوام کے ٹیکس پر چل رہا ہو؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے اس ’’گھر‘‘ میں رہنا کیسے قبول کر لیاجس کی حفاظت کیلئے دس تھانوں کے برابر پولیس کا عملہ تعینات ہے؟ اگراس قسم کی رہائش کا تصور برطانیہ جیسے ممالک میں نہیں کیا جا سکتا تو پھر ایک ترقی پذیر ملک کے علامتی عہدے کے لیے ایسی رہائش قبول کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں اُن کی قابلیت پر شک ہے نہ اخلاص پر، لیکن ہمیں اتنا تو بتلا دیجئے کہ آپ چھ سو کنال کے گھر میں سکون کی نیند سو پائیں گے جب کہ آپ کے ملک کے کروڑوں لوگ ایک وقت کی روٹی اور پینا ڈول کی دو گولیوں کیلئے ترس رہے ہوں‘ لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری کے عذاب میں گرفتار ہوں اور بچوں سمیت خودکشی کرنے پر مجبور ہوں۔ جس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 78ہزار روپے کا مقروض ہو، جس کی معیشت کشکول پر کھڑی ہو اور جہاں بجٹ آئی ایم ایف کے دستخط سے بنتاہو کیا وہاں کے حکمرانوں کی یہ شاہ خرچیاں عوام کے زخموں پر تیزاب چھڑکنے کے مترادف نہیں؟ جناب عالی! صرف گورنر ہائوس ہی نہیںیہاں ایک سے بڑھ کر ایک عجوبے موجود ہیں۔ آپ لاہور میں جی او آرون اور جی او آر ٹو میں بیوروکریٹس کی رہائش گاہیں دیکھ لیجئے۔ ہر رہائش گاہ 6سے 8کنال پر مشتمل ہے۔ جی او آر ون میں نئے تعمیر شدہ گھر بھی 2سے 4کنال سے کم نہیں۔یہ تو کچھ بھی نہیں جو جتنا چھوٹا افسر اس کے پاس اتنی بڑی جاگیر ۔آپ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو دیکھ لیجئے۔ موصوف کی رہائش گاہ 24کنال پر مشتمل ہے اور یہ تو کچھ بھی نہیں‘آپ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کا غریب خانہ ملاحظہ فرمائیے،یہ ’’صرف50کنال ‘‘پر محیط ہے۔آپ ایگزیکٹو ضلعی آفیسر کی رہائش گاہ پر نظر ڈالئے۔ یہ 64کنال پر محیط ہے۔ آپ کمشنر بہاولپور کی اقامت گاہ دیکھ لیجئے۔ یہ 72کنال پر پھیلی ہوئی ہے اوراگر آپ چھوٹے افسر وں کا بڑا کمال دیکھنا چاہتے ہیں تو فیصل آباد میں ایک ایکسئین کی ’’جھونپڑی‘‘ دیکھ لیں جو صرف 100کنال پر مشتمل ہے ۔ چودھری صاحب! آپ نے زندگی کے پچاس ساٹھ سال اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ آپ نے کبھی ٹشو کو سڑک پر نہ پھینکا۔ پچاس پائونڈ جرمانے کے ڈر سے برطانیہ کی کسی سڑک پر تھوکا تک نہیں۔ کبھی سرخ سگنل کراس کیا نہ کبھی رشوت لی۔ کسی کا ناجائز کام نہیں کروایا۔ کسی کی ٹرانسفر کے پیسے نہیں لیے۔ہمیشہ قانون کی پاسداری کی۔ ہمیشہ تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں رہے۔ لیکن یہ آپ نے کیا کیا؟ برطانیہ سے آپ نے جو کچھ سیکھا‘ اس کو خیر باد کہہ دیا؟ تیس برس قبل آپ ایک چھوٹی سی دکان اور ایک کمرے کے فلیٹ میںگزارا کرتے تھے۔ لیکن اب یکدم آپ نے لاٹ صاحب بننا کیوں گوارا کر لیا؟ کیوں آپ نے یہ شرط نہ رکھی کہ میں گورنر بنوں گا لیکن گورنر ہائوس میں نہ رہوں گا۔ میں عوام کی خدمت تو کروں گا لیکن عوام پر بوجھ نہ بنوں گا۔ میں دو کنال کے گھر میں رہ لوں گا لیکن یہ شاہانہ اندازِ زندگی مجھے قبول نہیں کیونکہ میں نے برطانیہ سے یہی سیکھا ہے اور میرا دین بھی مجھے یہی بتلاتا ہے۔ اگر آپ اس عہدے کیلئے گورنر ہائوس کی نیلامی کی شرط رکھ دیتے۔ آپ اس مقصد کیلئے برطانوی عالمی کمپنیوں کو لے آتے۔ یہاں تعمیری‘ تفریحی اور تعلیمی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھتے اور یوں حاصل ہونے والی کھربوں روپے کی رقم سے ملک کے قرضے اتار دیتے۔ آپ کے اس اقدام سے عوام آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ‘ وہ آپ کو رہنما مان لیتے۔ ہر وہ شخص جو آپ کی دہری شہریت پر تنقید رہا ہے‘ جو کہتاہے ہمیں امپورٹڈ گورنر کی ضرورت نہ تھی اور جو اس عہدے کو آپ کی ن لیگ سے وفاداری کا انعام ثابت کر رہا ہے‘ وہ سب آپ کی شان میں تعریفوں کے مینار کھڑے کردیتے ۔ گورنر صاحب! اب بھی وقت ہے ‘ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ فیصلہ کیجئے اور ڈٹ جائیے۔ ثابت کیجئے آپ پاکستان کے ہمدرد اور عوام کے خیر خواہ ہیں۔ وگرنہ لوٹ جائیے، اس سے قبل کہ آپ کا نام بھی میاں محمد اظہر یا سردار لطیف کھوسہ کی طرح ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائے۔