چھ سال قبل کی بات ہے۔ لندن کی موٹروے پر دسمبر کی یخ بستہ رات میں ایک ادھیڑ عمر شخص اپنی والدہ اور اہلیہ کے ہمراہ رواں دواں تھاکہ ڈرائیونگ کے دوران اسے موبائل فون پر چند پیغامات موصول ہوئے۔ وہ انہیں پڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک اسے سڑک پر ایک گاڑی نظر آئی۔ اس سے قبل کہ وہ بریک لگاتا‘ ایک دھماکے سے دونوں گاڑیاں ٹکرا گئیں جس سے دوسری گاڑی میں موجود 28 سالہ برطانوی شہری مارٹن ہلاک ہو گیا۔ یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا تو عدالت نے اسے قید اور پانچ سو پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔ نذیر احمد نامی یہ شخص 56 سال پہلے میر پور میں پیدا ہوا‘یونیورسٹی آف شیفیلڈ سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لی اور انتھک محنت سے اپنی تقدیر بدل لی۔ 18برس کی عمر میں لیبر پارٹی جوائن کی،1990ء میں مقامی کونسلر کی خدمات انجام دیں، 1992ء میں برٹش مسلم کونسلرز فورم کی بنیاد رکھی اور 1998ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف لارڈز کا رُکن بنا جسے آج ہم لارڈ نذیر احمد کے نام سے جانتے ہیں۔ اتنے اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود عدالت نے انہیں 26فروری2009ء کو چھ ہفتوں کے لیے جیل بھیج دیا۔ان کا ڈرائیونگ لائسنس ایک سال کے لیے معطل اور گاڑی چلانے پر پابندی لگا دی۔لارڈ نذیر کا یہ کہنا کہ برطانیہ میں یہودی لابی نے اس مقدمے کے حوالے سے ان کے خلاف سازش بھی کی‘ ظاہر کرتا ہے کہ برطانیہ میں اُبھرتے ہوئے پاکستانیوں کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لارڈ نذیر احمد نے مسلم ممالک کے خلاف مظالم پر ہمیشہ آواز بلند کی جس کا خمیازہ انہیں کئی مرتبہ بھگتنا پڑا۔ ایسی ہی صورتحال سے موجودہ گورنر چودھری محمد سرور بھی گزر چکے ہیں جو برطانیہ میں پہلے مسلم ممبر پارلیمنٹ بنے تھے ۔ لارڈ نذیر احمد نے ہائوس آف لارڈز میں جتنی تقاریر کیں‘ جتنے بھی انٹرویوز دئیے اور جتنی بھی تحریریں لکھیں، ان میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھا ان کا فولادی انداز تخاطب۔ انہوں نے برطانیہ کے سماجی مسائل سے لے کر بوسنیا اور بوسنیا سے لے کر کشمیر تک ہر ایشو پر آواز اٹھائی۔ ان کا ہائوس آف لارڈز میں پہلا خطاب برطانوی جیلوں کی صورتحال کے بارے میں تھا۔ انہوںنے نسلی امتیاز کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات بھی بیان کیں۔ برطانیہ میں رہائش اور جائیداد کے حوالے سے ان کی تقریر بہت پُر اثر تھی۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے رہائش کس قدر مشکل ہوتی جارہی ہے، یہ انہوں نے مدلل انداز میں واضح کیا۔ بے گھر نوجوانوں کے المیے پر روشنی ڈالی اور ان کے مسائل و مشکلات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا۔ وہ نوجوانوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں چنانچہ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ خدمات کے انتظام و انصرام سے لے کر تعمیری کاموں تک نوجوانوں کو شامل کیا جائے۔ مسلمانوں کو طہارت اور سکھوں کو کھانا تیار کرنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ مسلم اور سکھ مذاہب میں پانی کے بغیر عبادات انجام دی جا سکیں۔ گردواروں اور مساجد میں میٹر کے تحت آنے والا پانی انتہائی مہنگا ہوتا ہے۔ چنانچہ عبادت گاہوں کو پانی کے میٹروں سے مستثنیٰ قرار دینے کے حق میں دلائل دے کر انہوں نے ثابت کیاکہ وہ معاملات کو کتنی باریک بینی سے دیکھتے ہیں۔ برطانیہ میں شادی کے سلسلے میں قانونی دشواریاں کس قدر پیچیدہ ہوتی ہیں‘ اس کا ادراک لارڈ نذیر کو ہمیشہ رہا۔ برطانیہ میں مسلمانوں اور دیگر غیر مسیحی عقائد رکھنے والوں کی شادیوں کے وقت بہت سے تشکیلی اور ادارہ جاتی معاملات سامنے آتے ہیں۔ایسے لوگوں کو بھرپور قانونی امداد فراہم کرنے پر انہوں نے زور دیا۔ تارکین وطن اور سیاسی پناہ یورپی ممالک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں گرفتاری‘ تلاشی اور چاردیواری میں داخل ہونے کے حوالے سے اختیارات پر انہوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔امن صرف پاکستان کانہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ لارڈ نذیر نے ہائوس آف لارڈز میں عالمی امن کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانی والی غلط فہمیوں کی وضاحت کی اور بھائی چارے اور برداشت کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ایک خاندان میں باپ کی کیا اہمیت ہوتی ہے، یہ انہوں نے احادیث کے ذریعے واضح کیا۔ یہ تلخ حقیقت بھی انہوں نے بیان کی کہ برطانیہ میں بہت سے مسلمان اور ایشیائی والدین خاندانوں پر اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں۔نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے قانون سازی کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ ملازمت کے ایسے معاملات جن میں مسلمان خواتین کو سر ڈھانپنے سے روکا جاتا ہے ،یہ بات مسلم خواتین کو براہ راست متاثر کرتی ہے اور یہی بات پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے بلواسطہ امتیازی سلوک میں تبدیل ہو سکتی ہے۔دہشت گردی بل کے حوالے سے انہوں نے دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کیلئے حکومت کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا کہ ا س سے شہری آزادیاں کس طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ کشمیر‘چیچنیا‘ عراق اور فلسطین کی سنگین صورتحال پر دلیرانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ان خطوں میں جبر و استبداد کے شکار لوگوں اور ظالم حکومتوں کے خلاف حق خودارادیت کے حصول کی حمایت کر کے ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔لا علاج ہونے کے باعث مریض کی زندگی ختم کرنے میں مدد کے بل کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے لارڈ نذیر نے کہا کہ معالجین کا فرض ہے کہ وہ مریضوں کی صحت اور بہبود کی فکر کریں نہ کہ ان کو اگلے جہان پہنچانے کی۔طب اور لا علاج بیماریوں کے حوالے سے مزید تحقیق کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اگر مریضوں کو زندگی ختم کرنے کا اختیار دیا گیا تو لوگ ذرا سی بیماری پر مرنے کو ترجیح دیں گے اور یوں طب کا شعبہ بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گا ۔ لارڈ نذیر احمد کی ہائوس آف لارڈز میں یہ محض چند تقاریر نہیں‘ بلکہ وہ سوچ اور فکر ہے جس کی ہمارے سیاستدانوں میں شدید کمی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ہمارا کوئی شہری میرپور سے اٹھتا ہے‘ لندن میں پڑائو کرتا ہے‘وہاں کی گلیوں اور اداروں میں پروان چڑھتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ برطانیہ کا وزیراعظم خود اسے اہم ترین منصب پر فائز کر دیتا ہے جس کے بعد یہ شخص اہم ترین عالمی ایشوز کو اس دلیری سے اُجاگر کرتا ہے کہ اسے اس منصب پر فائز کرنے والے دانتوں میں انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدان‘ ہمارے وزیر اور ہمارے حکمران اس طرز کی سیاست کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ ہمارے ایوانوں میں عوام کے ایشوز پر ڈٹ کر بات کیوں نہیں کرتے‘ یہ نان ایشوز میں کیوں الجھے رہتے ہیں اور یہ کب تک حقائق سے یونہی نظریں چراتے رہیں گے؟ ہمارے سیاستدانوں اور لارڈ نذیر احمد میں یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے پاکستان پاکستان ہی رہا‘ یہ برطانیہ نہ بن سکا۔