انسان اپنے ہاتھوں اپنی قسمت کیسے بدلتا ہے‘ یہ جاننے کیلئے آپ ارشاد بی بی‘ نذیر حسین اور محمد جمیل کو دیکھ لیجئے۔ ارشاد بی بی کے شوہر کی وفات ہوئی تو اس کیلئے مسائل اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ اس کے پاس سرمایہ ‘جائیداد‘ بینک بیلنس کچھ بھی نہ تھا۔ بس ایک ہتھیار تھا۔ اسے کروشیا کا کام آتا تھا۔ وہ کپڑوں پر خوبصورت ڈیزائن بنانے کی ماہر تھی۔ وہ اس ہنر کو استعمال میں لا کر زندگی کی گاڑی چلا سکتی تھی لیکن اس کام کیلئے بھی اسے چھوٹی موٹی رقم درکار تھی۔ کسی نے اسے ’’اخوت‘‘ کا بتایا تو اس نے قرض کی درخواست دے دی۔ اسے دس ہزار روپیہ قرض مل گیا۔ اس نے ان پیسوں سے کپڑا‘ کروشیا اور اُون خریدی‘ خوبصورت چادریں تیار کیں‘ انہیں مارکیٹ میں فروخت کیا اور معقول آمدنی حاصل کی۔ اس نے محلے کی کئی عورتوں کو بھی ساتھ ملا لیا‘ یوں دیگر گھروں میں بھی معاشی حالات بہتر ہونے لگے۔ وہی عورتیں جن کے سر میں چوبیس گھنٹے درد رہتا تھا‘ جو ماتھے پر دوپٹہ باندھے پڑی رہتی تھیں‘ جن کا دن چغلیوں اور رات غیبتوں میں گزرتی تھی‘ نہ صرف معاشی طور پر محفوظ ہو چکی تھیں بلکہ ان کے اخلاق اور رویے میں بھی تبدیلی آ گئی تھی۔ ارشاد بی بی کی طرح نذیر حسین کی کہانی بھی عزم و ہمت کی زندہ مثال ہے۔نذیر جس محلے میں رہتا تھا وہاں ایک شخص نے پستول نکالا اور فائر کھول دیا۔ نذیر حسین قریب سے گزر رہا تھا کہ ایک گولی اس کی ٹانگ میں جا لگی‘ گولی کا زہر پھیل گیا اور ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔ ہسپتال سے فارغ ہوا تو بیروزگاری نے دبوچ لیا۔ اس کے حالات خراب ہو گئے۔ بچوں کی تعلیم تک چھوٹ گئی۔ پھر اس نے سنار کا کام سیکھا اور ایک دکان میں ملازم ہو گیا۔ کسی نے اسے اخوت کا بتایا تو اس نے قرض لیا‘ اوزار اور مشین خریدی اور دکان کرائے پر لے لی۔ خدا کے فضل سے کام چل نکلا‘ آمدنی بڑھنے لگی‘ بچے بھی دوبارہ سکول جانے لگے اور گھر کے حالات بھی بہتر ہو گئے اور نذیر حسین کی طرح محمدجمیل نے بھی عظیم مثال قائم کی۔ اڑسٹھ سالہ محمد جمیل گرین ٹائون کا رہائشی ہے۔ چار سال قبل تک وہ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کے بیٹوں کی شادیاں ہوئیں اور انہوں نے باپ سے حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ وہ جمیل سے جھگڑتے رہتے اور پھر اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ سڑکوں پر ٹھوکریں کھانے لگا‘ فٹ پاتھ پر سوتا۔ وہ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو گیا۔ ایک روز کسی کو اس پر رحم آیا تواسے اخوت کے دفتر لے آیا۔ جمیل کو قرض ملا تو اس نے قسطوں پر موٹرسائیکل خریدلی اور کرائے پر دینے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کا خرچہ نکلنے لگا اور رہنے کا بندوبست بھی ہو گیا۔ آج اس کی دکان میں چار موٹرسائیکلیں ہیں‘ وہ کرائے کے مکان میں بھی شفٹ ہو چکا ہے اور روزگار بھی چلا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ارشاد بی بی‘ نذیر حسین اور محمد جمیل محنتی تھے‘ ان میں حوصلہ اور عزم بھی تھا اور انہوں نے غربت اور تنگدستی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے شکست بھی دی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ’’اخوت‘‘ جیسا ادارہ ان کی مدد کو نہ پہنچتا‘ انہیں بلا سود قرضے نہ دیتا اور انہیں پائوں پر کھڑا نہ کرتا تو یہ تینوں کیا کرتے؟ جرائم کی دنیا اختیار کر لیتے‘ زہر کا جام پی لیتے یا ان میں سے کوئی ٹرین کے آگے لیٹ جاتا‘ اگر یہ ایسا کوئی قدم اٹھا لیتے تو ذمہ داری کس پر عائد ہوتی؟ آپ کو یاد ہو گا 12 اپریل 2008ء کو 30سالہ بشریٰ غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں پانچ سالہ زبیر اور تین سالہ صائمہ سمیت لاہور سیون اپ پھاٹک پر ٹرین کے سامنے کود گئی تھی۔ اس واقعے میں معصوم بچی صائمہ کا دھڑ جسم سے الگ ہو گیا تھا جبکہ بشریٰ اور زبیر کے ٹکڑے دور جا گرے تھے۔ اس واقعے کے تین روز بعد سابق وزیراعظم گیلانی‘ بشریٰ کے گھر گئے اور اس کے شوہر کو دو لاکھ روپے دئیے۔ اس موقع پر بشریٰ کے شوہر اور والدین نے وزیراعظم سے کہا کہ حکومت ایسے پروگرام کیوں شروع نہیں کرتی جن سے ہم جیسے غریب ہاتھ پھیلانے کی بجائے روزگار کمانے کے قابل ہو سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا وہ قوم سے وعدہ کرتے ہیں وہ ایسے منصوبے بنائیں گے تاکہ لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں نہ کریں۔ اس واقعے کو آج پانچ برس گزر چکے لیکن کیا بشریٰ کے والدین سے کیا گیا وعدہ پورا ہوا؟ اس کا جواب میں حکمرانوں پر چھوڑتا ہوں۔ سرِ دست ’’اخوت‘‘ کی طرف واپس آتا ہوں۔ ’’اخوت‘‘ کا موازنہ بنگلہ دیش کے گرامین بینک سے کرنا درست نہیں۔ دونوں کے درمیان ایک واضح فرق موجود ہے اور یہ فرق سود کا ہے۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے اس کا اندازہ اس پروگرام کی کامیابی کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں قرض عموماً واپس نہ کرنے کے لیے لیا جاتا ہے اور وہ بھی بھاری سود پر۔ بینک ریکوری کے لیے لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جبکہ اخوت کے قرضدار ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو قرض کی قسط لے کر خود حاضر ہو جاتے ہیں۔ بینکوں میں ریکوری کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے جبکہ اس پروگرام میں 99فیصد لوگ قرض واپس کر دیتے ہیں۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر ان لوگوں کے لیے ہے جو چھوٹے چھوٹے کاروبار کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ریڑھی لگانا چاہتا ہے‘ کوئی حجام ایک کرسی کا اضافہ کرنا چاہتا ہے یا پھر کوئی بیوہ سلائی مشین لے کر کام شروع کرنا چاہتی ہے تو اخوت ان کے لیے امید کی کرن ہے۔ چونکہ قرض لینے اور دینے والوں کی نیت صاف ہوتی ہے اسی لیے لینے والے کا کاروبار چل نکلتا ہے جبکہ دینے والے کی نیکیوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ دس ہزار روپے سے شروع ہونے والی یہ کہانی پانچ ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ‘ترقی پذیر ممالک کو سود کے ذریعے غلام بنانے والی سپر پاور بھی دم بخود رہ گئی اور پروگرام کو سمجھنے کیلئے ڈاکٹر صاحب کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹر صاحب کا خطاب تاریخی تھا۔ امریکی اس پروگرام کی روح کو سمجھ پائے یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب نے جو کچھ دل میں چھپایا ہوا تھا وہ اسے منظر عام پر لے آئے ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کا پہلے بھی معترف تھا لیکن اس پروگرام کی کہانی ’’اخوت کا سفر‘‘ میں لکھ کر انہوں نے کروڑوں لوگوں پر احسان کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ ایک احسان اور کر دیں۔ اس وقت ملک میں ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں اَن پڑھ بھی ہیں اور انتہائی پڑھے لکھے بھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے پروگرام کا اگلا ہدف پڑھے لکھے بیروزگارنوجوانوں کے لیے رکھیں جن کے پاس ہنر‘ علم اور پلاننگ سب کچھ موجود ہے اور وہ درمیانے یا بڑے پیمانے پر کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن سرمائے سے محروم ہیں اور قرض اس لیے حاصل نہیں کرتے کیونکہ اس کے ساتھ بھاری سود اداکرنا پڑتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب ان کے لیے بھی ایک قدم بڑھا دیں تو یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا ملک پر ایک اور احسان ہو گا۔