ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی سعودی عرب کے معروف عالم اور مصنف ہیں۔ یہ 1970ء میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ سعودی جامعات سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں‘ بہت سی اسلامی اور دعوتی تنظیموں کے تاسیسی و اعزازی ممبر بنے اور کئی عالمی تنظیموں کی مجلس مشاورت اختیار کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کئی عالمی یونیورسٹیوں میں اعزازی اور الریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی میں باقاعدہ تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈاکٹر العریفی زبردست خطیب ہیں۔ پندرہ سال تک معروف عالم شیخ عبدالعزیز بن باز سے تفسیر اور فقہ کا علم حاصل کیا۔ آج کل الریاض کی شاندار مسجد البواردی کے خطیب ہیں۔عربی زبان میں ان کی بیس سے زائد کتب کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں۔مختلف عربی اخبارات و میگزین میں کالم اور مضامین لکھتے ہیں اور عربی سیٹیلائیٹ چینلز پر ان کی تقاریر بھی نشر ہوتی رہتی ہیں۔ عرصہ قبل ڈیل کارنیگی کی کتاب ’’ لوگوں سے معاملہ کرنے کا فن‘‘ ان کے سامنے آئی۔ڈاکٹر العریفی نے غور کیا کہ کارنیگی محض دنیاوی خوشی اور سعادت مندی کی خاطر لکھتا اور لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لوگ یہ کتابیں شوق سے خریدتے ہیں اور ان میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ اگر کارنیگی اسلام کے اخلاق و خصائل سے واقف ہو کر لوگوں کی ایسی رہنمائی کرتا جو صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ دونوں جہانوں میں کام آتی تو کیا ہی بات تھی اور جب ڈاکٹر العریفی کو علم ہوا کہ کارنیگی نے خودکشی کی تھی تو بہت حیران ہوئے کہ دنیا کو خوشی اور اُمید کا راستہ دکھانے والا خود مایوسی اور نا امیدی کے گڑھے میں کیوں اُترگیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے ڈاکٹر العریفی نے ایک کتاب لکھ ڈالی۔ یہ انتہائی مختلف نوعیت کی کتاب تھی جس نے کروڑوں لوگوں کے دل جیت لئے۔ ’’زندگی سے لطف اٹھائیے‘‘ عربی میں دس لاکھ سے زائد شائع ہو چکی جبکہ اردو میں بھی دستیاب ہے۔ اس میں ایک ایسا سبق آموز واقعہ موجود ہے جو اس کتاب کی روح ہے۔ ڈاکٹر العریفی لیکچرز دینے ایک مرتبہ کسی شہر گئے۔ واپسی پر وہ ایک افسردہ عمارت کے سامنے پہنچے۔ عمارت کو اداس درختوں نے گھیر رکھا تھا۔ یہ نفسیاتی امراض کا ہسپتال تھا۔ وہ گائیڈ کے ہمراہ اس کے مختلف حصے دیکھنے نکل پڑے۔ ایک برآمدے میں پہنچے جس کے دونوں اطراف میں کمرے تھے۔ وہاں انہیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ ایک کمرے میں جھانک کر دیکھا تو ایک آدمی کو اوندھے منہ پڑھے دیکھا۔ اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ انہوں نے گائیڈ سے پوچھایہ شخص کب سے اس حال میں ہے؟ جواب ملا’’ دس سال سے‘‘۔ ڈاکٹر العریفی نے اللہ سے عافیت طلب کی اور آگے بڑھ گئے۔ ایک اور کمرے میں جھانکا ۔ وہاں انہیں ایک آدمی دیواروں سے سر ٹکراتا ہوا نظر آیا۔ گائیڈ بولا۔ اس آدمی کو دیوار نظر آتی ہے تو مشتعل ہو جاتا ہے۔ ہاتھوں ‘ پائوں اور سر سے دیوار کو مارتا ہے۔ کبھی انگلیاں تڑوا لیتا ہے‘ کبھی ٹانگیں اور کبھی سر زخمی کر لیتا ہے۔اب ہم نے اس کمرے کی دیواروں اور فرش پر ہر طرف فوم لگا دیا ہے تاکہ وہ زخمی ہوئے بغیر بھڑاس نکال سکے۔ ڈاکٹر العریفی نے یہاں بھی عافیت کی دُعا پڑھی اور آگے چل دئیے۔ انہوں نے کئی کمرے دیکھے۔ کہیں کوئی ناچ رہا تھا‘ کوئی گا رہا تھا‘ کوئی اذان دینے میں مصروف تھا‘ کوئی اپنے بال نوچ رہا تھا اور کوئی رسیوں سے بندھا تھا۔ ان میں سے کوئی تین سال ‘ کوئی پانچ اور کوئی دس دس سال سے اسی حال میںتھا۔ گائیڈ نے بتایا۔ ان میں ایک بڑا تاجر بھی ہے جو اربوں کی دولت کا مالک ہے۔ دو سال ہوئے کہ اس کے دماغ میں خلل آ گیا اور اس کی اولاد اسے یہاں چھوڑ گئی۔ اس کے علاوہ یہاں انجینئر‘ بزنس مین بھی ہیں۔ ان میں کئی ایک ایسے تھے جونعمتوں پر ناشکری کا اظہار کرتے رہتے تھے اور پھر اللہ نے ان سے وہ نعمتیں بھی چھین لیں جو ان کے پاس موجود تھیں اور یہ لوگ خوشحال اور کامیاب زندگی گزارتے گزارتے اس حال کو پہنچ گئے کہ انہیں اپنا پتہ ہے نہ دنیا کی کوئی خبر۔ میں نے جب سے یہ واقعہ پڑھا ہے میری کیفیت ہی بدل گئی ہے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں‘دنیا کی ہر نعمت اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھتے ہیں‘ ہر دمکتی چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں‘ نہ ملے تو رونے لگتے ہیں‘ مل جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ہماری خوشی زیادہ دیر نہیں چلتی ‘ ہماری نگاہ کسی اور جگہ جا ٹھہرتی ہے اور یوں بے چینی اور اضطراب کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہمیں پانچ نعمتیں نصیب ہو جائیں اور چھٹی نہ ملے تو ہماری زبان شکوئوں اور گلوں سے تر ہو جاتی ہے اور ہم ان پانچ نعمتوں کا شکر تک ادا نہیں کرتے جو ہمیں نصیب ہوتی ہیں ۔ ہم جو کچھ مرضی کرتے رہیں ؛تاہم یہ حقیقت ہے کہ قدرت کا اپنا قانون ہے۔ بعض اوقات اللہ ایک شخص کو مال و دولت‘ حسب و نسب اور منصب ِرفیع سے نوازتا ہے لیکن عقل چھین کر پاگل خانے پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے کو مال و دولت اور حسب و نسب کے ساتھ عقل مندی عطا کر دیتا ہے لیکن صحت سے محروم کر دیتا ہے‘ کسی کو صحت‘ اختیار اور عقل دیتا ہے تو مال سے محروم کر دیتا ہے‘ کسی کو خوبصورتی‘ حسن اور مال دیتا ہے تو اس سے سکون چھین لیتا ہے اور کسی کو اقتدار‘ مال اور صحت عطا کرتا ہے تو اسے عزت سے محروم کر دیتا ہے چنانچہ ہر اُس آدمی کیلئے جسے اللہ نے کسی نہ کسی شے سے محروم کر رکھا ہے اسے اللہ کی ناشکری کی بجائے موجود نعمتوں پر اس کا شکر بجا لانا چاہیے اور یہ کہ اگر انسان کی زندگی میں کوئی ایک چیز کھو جائے تو اس کی ساری زندگی ختم نہیں ہو جاتی‘وہ ناکام نہیں ہو جاتا ۔