اگر آپ کے بچے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ وہ زیادہ وقت فیس بک کے سامنے گزارتے ہیں اور ہر وقت اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں‘ تو سمجھ لیں ‘ آپ اور آپ کے بچے خطرے کی زد میں ہیں۔ یہ خطرہ کیا ہے‘ یہ جاننے کے لیے آپ گجرات کے طالبعلم احسن کو دیکھ لیجئے۔ احسن گوجرانوالہ کے سکول میں میٹرک کا طالبعلم تھا۔وہ سکول سے آتا تو سیدھا کمپیوٹر آن کرتا اور سب سے پہلے فیس بک کھول کر دیکھتا‘ اسے کتنے لوگوں نے پیغام بھیجا ہے‘ کتنے نئے لوگ اس کے دوست بنے ہیں اور وہ کون سے نئے لوگوں سے دوستی کر سکتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک روز فیس بک پر اسے ایک خوبصورت دوشیزہ کا پیغام ملا جسے احسن نے قبول کر لیا اور یہاں سے ایک خوفناک کہانی شروع ہوئی۔ وہ دونوں رات گئے تک ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ۔ احسن اپنی فیملی‘ اپنے دوستوں اور گھر میں ہونے والی ہر بات اسے بے دھڑک بتا دیتا۔ گھر میں کوئی تقریب ہوتی تو احسن اس کی تصاویر تفصیلات کے ساتھ فوراً اپ لوڈ کر دیتا۔ ایک روز دوشیزہ نے اسے اپنا موبائل نمبر بھیج دیا۔ اب دونوں فون پر بھی بات کرنے لگے تھے۔ اس نے احسن سے کہا وہ اس سے ملنا چاہتی ہے چنانچہ وہ فلاں کالونی کے فلاں گھر کے سامنے آ جائے ‘ وہ اسے اندر بلا لے گی۔ احسن جیسے ہی اس گھر کے سامنے پہنچا ‘ ایک خوبصورت لڑکی باہر آئی اور اسے ڈرائنگ روم میں لے گئی۔ اسے مشروب پیش کیا گیا جسے پینے کے بعد اسے ہوش نہ رہا۔ ہوش آیا تو خود کو رسیوں میں جکڑا پایا۔ وہی لڑکی اور تین چار مرد خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ لڑکی نے احسن کے گھر فون ملایا‘ احسن کی آواز سنوائی اور اس کے والدین سے سترہ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور نہ دینے پر قتل کی دھمکی دی۔ احسن کے والد نے پولیس سے رابطہ کر لیا۔ پولیس نے انٹرنیٹ اور فون کالز ٹریس کر کے گروپ کا سراغ لگا لیا۔ احسن کے والدرقم دینے کے لیے گئے تو پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دوشیزہ سمیت گروپ کے دیگرپانچ افراد کو بھی گرفتار کرلیا اور اگر آپ ابھی تک فیس بک کو مذاق سمجھ رہے ہیں تو کراچی کے نیوٹاؤن کے رہائشی تیرہ سالہ مصطفی کو دیکھ لیجئے۔ مصطفیٰ کی فیس بک پر ایک بچے ارسلان سے دوستی ہوئی۔ وہ آن لائن گیم کھیلنے کا شوقین تھا۔ ایک روز مصطفی ارسلان سے ملنے چوبیس مئی کو ڈیفنس گیا جہاں ارسلان کے بھائی نے اسے اغوا کر لیا۔ اغوا کاروں نے مصطفی کی رہائی کے لئے والدین سے 5 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد اینٹی کرائم سیل اور سی پی ایل سی متحرک ہو گئے اور کارروائی کرتے ہوئے مصطفی کو بازیاب کرا لیا۔ مقابلے کے دوران 4اغوا کار مارے گئے۔ اس دوران مصطفی پر اغوا کاروں نے تشدد بھی کیا اور اسے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔ اپنے لخت جگر کی واپسی کے بعد مصطفی کی والدہ نے رو رو کر اپیل کی کہ والدین اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی لگادیں اور اگر پابندی نہیں لگا سکتے تو کم از کم انہیں سمجھائیں اور مانیٹر ضرور کریں۔ فیس بک کے بارے میں دو حقائق انتہائی خطرناک ہیں‘ ایک‘پاکستان میں ایک کروڑ افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں اور دو‘ فیس بک استعمال کرنے والے تقریباً ہر قسم کی معلومات شیئر کرتے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جس کا فیس بک پر اکائونٹ موجود ہے ‘وہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے چکر میں خود کو جرائم پیشہ افراد کے سامنے بطور تحفہ پیش کر رہا ہے۔ آپ خود ہی دیکھیں‘ جب ہم انجان لوگوں کے سامنے اپنی ذات‘ اپنی فیملی‘ اپنے کیرئیر اور اپنی تقریبات حتیٰ کہ مستقبل کے منصوبوں اور خوابوں تک کو شیئر کر دیں گے تو پیچھے کیا بچے گا اور تو اور جب ہم ہر نئے دوستی کے خواہشمند مرد اور خواتین سے اس نظریے کے تحت دوستی کر لیں گے کہ چلو ٹائم پاس ہو جائے گا‘ ہمارا حلقہ احباب وسیع ہو گا اور ہماری لائیکس بڑھ جائیں گی تو اس کے بعد ہونے والے کسی سانحے کا ذمہ دارہم کس کو ٹھہرائیں گے؟ آپ حیران ہوں گے کہ اغوا کار ہم سے کئی گنا ذہین اور شاطر ہوتے ہیں۔ میں نے اوپر صرف دو واقعات شیئر کئے ہیں۔ مصطفی سے جس لڑکے نے دوستی کی اس نے اسے آن لائن گیمنگ کا چیلنج کیا۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ گیم کھیلتے کھیلتے وہ اپنی جان دائو پر لگا بیٹھے گا۔ دوسرا واقعہ احسن کا تھا۔ احسن کو پیار‘ محبت اور دوستی کے چکر میں پھنسایا گیا اور یہی وہ سب سے بڑی انسانی کمزوری ہے جس کا شکار کوئی بھی‘ کہیںبھی ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ والدین کو سب سے پہلے خود فیس بک سے آگاہی حاصل کرنا ہو گی ‘ جب تک وہ خود اسے نہیں سمجھیں گے بچوں کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ وہ بچوں کو سمجھائیں کہ انجان لوگوں کی بجائے صرف فیملی اور دوستوں کے ساتھ بات چیت کی جائے لیکن اس میں بھی احتیاط کریں کیونکہ کوئی بھی آپ کا رشتہ دار بن کر آپ کو پھنسا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤنٹس موجود ہیں۔ جب بھی کوئی دوست بننے کی درخواست بھیجے ‘ اسے تصدیق کیے بغیر قبول نہ کریں۔ فیس بک پر موبائل نمبر، گھر کا پتہ اور ذاتی تصاویر جیسی معلومات دینے اور اپنا اسٹیٹس لکھتے وقت بہت زیادہ احتیاط کریں۔ کبھی بھی یہ مت لکھیں کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر ر ہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اب تو موبائل فون سے بھی فیس بک استعمال کی جا رہی ہے جس سے خطرہ مزید بڑھ چکا ہے۔ موبائل فون پر انٹرنیٹ ہر وقت ہر جگہ آن رہتا ہے اور جب کوئی لکھتا ہے کہ میں گھر میں تنہا ہوں، بینک جا رہا ہوں یا میں ابھی ابھی شو روم سے نئی گاڑی خرید کر نکلا ہوں تو اس کے بعد جرائم پیشہ افراد کا کام نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ذاتی زند گی میں ہم ہر کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتے‘ کوئی ہم سے علاج کے لیے پچاس روپے مانگ لے‘ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے ہم پیسے نہیں نکالتے‘ لیکن سوشل میڈیا پر کوئی گدھا بھی ہم سے دوستی کرنا چاہے‘ ہم اس کی آفر نہ صرف قبول کر لیتے ہیں بلکہ اپنی پوری زندگی کھول کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ کیا ہماری عقلوں پر ماتم نہیں کرنا چاہیے؟