زاہد چودھری نیویارک میں مقیم ہیں‘یہ میرے عزیز دوست ہیں‘بیس برس قبل تک یہ لاہور میں تھے‘ کچھ جگہ ملازمت کی اور پھر کاروبار کی طرف آ گئے‘ اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو بہتر روزگار کی خواہش امریکہ لے گئی۔ وہاں عالیشان نوکری ان کی منتظر تھی نہ ہی کاروبار کے دروازے چوپٹ کھلے تھے‘چنانچہ چار دوستوں کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لیا اور وہی کچھ کرنا پڑا جو وہاں سب کو کرنا پڑتا ہے‘ کچھ عرصہ فیول سٹیشن اور ڈیپارٹمنٹل سٹور پر ملازمت کی‘ تھوڑے پیسے جمع ہوئے تو ایک ٹیکسی لے لی‘ مسلسل چھ بر س ٹیکسی چلاتے رہے‘ بارہ سے سولہ گھنٹے کی اس مشقت کے علاوہ تعلیم بھی جاری رکھی‘ اس دوران اہلیہ کو پاکستان سے بلا لیا ‘ یوں چھوٹے سے فلیٹ سے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فارمیسی کی ضروری تعلیم مکمل ہوئی تو فارمیسی کھولنے کے لیے لائسنس اپلائی کر دیا۔ چھ ضرب آٹھ فٹ کی فارمیسی سے آغاز کیا ‘ محنت اور قسمت نے ساتھ دیا‘ فارمیسی چل نکلی‘ کچھ عرصے بعد اسے وسیع کیا اور نیویارک میں ہی ایک برانچ اور کھول لی اور یوں ان تھک محنت ایک کامیاب کاروبار میں تبدیل ہو گئی۔
دو ہفتے قبل زاہد چودھری پاکستان آئے‘ان کی فیملی بھی ان کے ہمراہ تھی‘تین ہفتے کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لاہور کے ایک پوش علاقے میں کرائے پر فرنشڈ گھرلے لیا۔ میں ان سے ملنے پہنچا تو بچوں نے بتایا وہ تیار ہو رہے ہیں۔ میں ڈرائنگ
روم میں انتظار کرنے لگا۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی وہ نہ آئے تو مجھے تشویش ہوئی۔ اس دوران دھماکے کی آواز آئی‘ میں نے اٹھ کر دیکھا تو ان کا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ اوپر والے کمرے کے ساتھ باتھ روم میں پانی نہیں آ رہا تھا‘ لہٰذا وہ نیچے والے باتھ روم سے بالٹی بھر کر اوپر لے جا رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے بالٹی چھوٹ گئی اور یہ اسی کا دھماکہ تھا۔ سیڑھیوں پر جو کارپٹ تھا وہ بھیگ چکا تھا۔ پانی نیچے موجود قیمتی فرنیچر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ ایک کمرے سے زاہد چودھری برآمد ہو گئے۔ انہوں نے تولیہ لپیٹا ہوا تھا اور سردی سے کانپ رہے تھے۔ معذرت کرتے ہوئے بولے کہ وہ نہانے کے لئے گئے تھے لیکن پانی ٹھنڈا تھا چنانچہ نہائے بغیر ہی باہر نکل آئے ہیں۔ ابھی ہم مصافحہ کر کے ہٹے تھے کہ لائونج میں زور دار پٹاخہ گونجا۔ پانی سیڑھیوں کے نیچے موجود یو پی ایس تک پہنچ چکا تھا۔ کمرے میں اندھیرا ہو گیا‘یو پی ایس سے دھواں اٹھتے دیکھ کر سب مین سوئچ کی طرف دوڑے تاکہ بجلی آنے سے قبل اسے آف کریں اور شارٹ سرکٹ سے بچ سکیں۔ سوئچ بند ہوا تو جان میں جان آئی۔ وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے اور بیگم کو آواز دی کہ چائے بنا دیں۔ جواب ملا کہ گیس تو آ نہیں رہی‘ چائے کہاں سے بنے۔ میں نے دیکھا زاہد نے بغیر استری کئے کپڑے پہن رکھے تھے۔ وہ بھانپ گئے اور بولے۔ ''یار تم لوگ اس ملک میں کیسے رہ رہے ہو۔ ہمیں یہاں آئے صرف چوبیس گھنٹے ہوئے ہیں لیکن ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بج رہے ہیں لیکن ہم اپنا دن ہی شروع نہیں کر سکے۔ گیس اتنی کم آ رہی ہے کہ انڈہ تک نہیں ابل رہا اور ہم ناشتے سے محروم ہیں۔ اتنی سردی میں ہیٹر بھی نہ جلا سکے اور رات ٹھٹھرتے ہوئے گزار دی۔ بجلی بھی نہیں ہے کہ کپڑے ہی استری کر لیں‘آ جا کر یو پی ایس تھا وہ بھی اس ہنگام کی نذر ہو گیا۔ یہاں تو بندہ دن کا آغاز ہی نہیں کر سکتا‘ وہ کرے کیا۔ آدھا دن تو تیار ہونے کی کوشش میں گزر جاتا ہے اور باقی بھی گزر جائے گا۔ یہ لاہور کا پوش ترین ایریا ہے ‘ اگر یہاں یہ حال ہے تو دیگر علاقوں اور دیہات کا کیا حال ہو گا۔اس ملک میں آخر لوگ رہ کیسے رہے ہیں‘ کیسے گزارا کر رہے ہیں اور ان مسائل پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ ‘‘
زاہد چودھری تو کچھ دن بعد اس عذاب سے نکل جائیں گے‘ وہ واپس امریکہ چلے جائیں گے‘ جہاں بجلی بھی ہے‘ گیس اور پانی بھی اور جہاں دن کا آغاز ٹھیک سات بجے ہو جاتا ہے‘کسی کے پاس دفتر تاخیر سے پہنچنے کا بہانہ بھی نہیں ہوتا ‘جہاں زندگی چوبیس گھنٹے زندہ رہتی ہے اور آپ اس چوبیس گھنٹے کے ایک ایک لمحے کا بہترین استعمال بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن مسئلہ اس ملک کے اٹھانوے فیصد طبقے کا ہے جس نے انہی مسائل کا سامنا کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب امریکہ میں میسر ہے تو یہاں کیوں نہیں‘ یہ کیسی ترقی ہے کہ ہم ایٹم بم بھی بنا چکے ہیں اور بجلی‘ گیس اور پانی کے لیے بھی ترس رہے ہیں ؟ ہم ان دو انتہائوں کے درمیان کب تک پھنسے رہیں گے؟اس کا جواب بڑا سادہ ہے
اور یہ جواب مجھے زاہد چودھری کو دیکھ کر ملا‘ ایک دن‘ صرف ایک دن نے زاہد کو سمجھا دیا عوام کے اصل مسائل کیا ہیں اورایک عام آدمی کس قدر اجیرن زندگی بسر کر رہا ہے ۔آپ زاہد چودھری کی جگہ میاں محمد نواز شریف ‘ آصف علی زرداری‘ عمران خان‘ اسحق ڈار یا مولانا فضل الرحمن کو رکھئے‘ اور سوچئے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک دن کے لیے زاہد چودھری بن جائے‘ یہ لوگ اپنی اپنی فیملی کے ساتھ نکلیں ‘ لاہور کے کسی علاقے میں گھر لیںاور ایک دن‘ جی ہاں! صرف ایک دن اور ایک رات وہاں گزاریں‘ انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا ۔جب یہ صبح کو رات کی ٹھنڈی اور باسی روٹی کھائیں گے‘ جب انہیں ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑے گا‘ جب یو پی ایس کی بیٹریاں جواب دے جائیں گی‘ جب بچے ناشتے سے محروم رہیں گے ‘جب نلکے سے پانی کی بجائے ہوا نکلے گی اور جب آدھا دن گزرنے کے باوجود یہ ہاتھ منہ تک نہ دھوسکیں گے‘ یہ جب اپنا دن ہی شروع نہ کر پائیں گے ‘ تب انہیں معلوم ہو جائے گا‘ عوام کس دنیا میں رہ رہے ہیں‘ یہ کس عذاب سے گزر رہے ہیں اور ان کے اصل مسائل کیا ہیں‘ یہ صرف ایک دن کے لیے عوام بن جائیں اور اس کے بعد بتائیں کہ عوام کے حقیقی ایشوز کون سے ہیں‘ آرٹیکل 6‘ پرویز مشرف ‘ سوئس اکائونٹس یا پھر بجلی‘ پانی اور گیس؟